سیری نالا بان سے لیا گیا اقتباس (یاداں)
تحریر :- گل زیب انجم.
اسکول چھوڑنے کا ایک سبب یہ بھی ہوتا تھا کہ لاہور دیکھنا ہے. گویا یہ ایسا
شوق ہوتا تھا جو اسکول سے بھاگنے پر اکساتا رہتا. بس جب بھی کسی بڑی بڑی
مونچھوں اور لمبی لمبی کلموں ( وہ بال جو داڑھی کے بغیر لوگ کانوں کی لاین
میں رکھتے ہیں) والے کو دیکھتے تو ہمارے اندر لاہور جانے کی حسرت جاگ
اٹھتی. گاؤں کا اپنا ہی رواج ہوتا ہے جس میں سماج بڑا سخت ہوتا ہے. بالوں
سے سخت نفرت کا اظہار گاوُں کے بوڑھے بابے صرف اس نظریے کے تحت کرتے ہیں کہ
بال گردن کا خٌون چوس لیتے ہیں. یہ تو بوڑھوں کی منطق ہوتی ہے لیکن اسکولوں
میں جوان ماسٹر بھی بالوں کے سخت ویری ہوتے ہیں. لیکن وہ بوڑھوں کی طرح
اپنی اس نفرت کا کوئی جواز نہیں بتا سکتے ماسوائے اس کے کہ" اے اسکول ہے
کوئی سیلما(سینما) نہیں". وہ بڑے بالوں والے کو دیکھتے ہی بالوں سے پکڑ کر
نیچے کر لیتے. وہ اپنی نفرت کا اتنا سا ہی اظہار کرتے تھے اس سے زیادہ اگر
کرنا ہوتا تو اسکول سے خارج کر دیتے تھے.
ہمارے ساتھ مرہوٹہ کا محمود الحسن اور منجواڑ کا عبدالرحمن مستانہ عرف خان
گجر پڑھا کرتے تھے دونوں بڑے ہی نفیس اور بالوں کے شوقین تھے. یہ دور
سرکاری اسکولوں میں ملیشیاء پہنے کا تھا لیکن یہ دونوں ملیشیے کے بجائے
سمرین پہنا کرتے تھے جو کہ حکم عدولی کے زمرے میں آتا تھا، ان دونوں کو بار
بار اسمبلی میں وارننگ دی جاتی جس سے دلبرداشتہ ہو کر دونوں نے اسکول کو ہی
خیر باد کہہ دیا لیکن بالوں اور سمرین پر کمپرومائز نہ کیا. یہ بال شاید
دوسرے شہروں میں بھی ڈسپلنیری (Disciplinary) ایکشن میں آتے ہوں اس بارے
میں کچھ کہا نہیں جاتا لیکن ہمارے شہر اور اسکول میں ہمیشہ باون بی ٹو ہی
نافذ رہتا تھا. یہی وجہ تھی جب ہم کسی بڑے بالوں والے کو دیکھتے تھےتو
لاہور جانے کے ارمان مچل جاتے تھے. ویسے بھی اس وقت یہ مثل زیادہ مشہور تھی
کہ جنے لہور نہی ویکھیا اونہے کج نہی ویکھیا. یا پھر ریڈیو جو صوفی
عبدالرزاق اور صوفی فقیر محمد ہٹی والوں کی ہٹیوں(دکانوں) پر چلا کرتے تھے
ان میں مٹیار سنو کا پنجابی کمرشل "مٹیار سنو کالے نوں گورا کردی تے گورے
نوں چن ورگا" سن کر دل کرتا کب اور کیسے لاہور پہنچا جائے جہاں ایسی بولی
بولتے ہیں. ہماری ان خواہشات کو پروان چڑھانے میں ہمارے ان سنگی ساتھیوں کا
بہت ہاتھ تھا جو پہلے لاہور گئے ہوئے تھے. آپ یقین جانیے ہم نے بن دیکھے
لاہور کے گلیاں کوچے اور دروازے یاد کر رکھے تھے. ہمارا ایک دوست اعجازِ بٹ
جو اعجاز کم اور جاجا کہوٹے والا زیادہ مشہور تھا وہ ہمارے ساتھ ٹھاکے
(جنگل جس کو پتہ نہیں کس وجہ سے ٹھاکہ کہا جاتا تھا) جاتے ہوئے لاہور کے
بارہ دروازوں کو چودہ پندرہ کر کے گن دیتا کہیں بار کہا بارہ تو یہ ہیں دو
اور کون سے وہ اپنی اضافی معلومات پر ڈاٹتے ہوئے کہہ دیتا نارکلی درواجا
مجانگ درواجا( انار کلی دروازہ مزنگ دروازہ) یہ دونوں درواجے صرف وہی کہتا
تھا جب کہ یہ ازل سے ہی بازار چلے آ رہے ہیں. ریاض بٹ کا پڑوسی فریاد عرف
مجنوں بھی لاہور ہوتا تھا اس لیے وہ بھی جیا ٹی سٹال، اے جی آفس، لاء چیمبر
اور میراں موج دریا کا دربا وغیرہ کے نام جانتا تھا. ٹھاکے کا سارا سفر بس
انہی باتوں میں گزر جاتا اور واپسی پر آخری لاہنی(آخری بار لکڑیاں اتار کر
سستانا) باناں کا وہ دندا ہوتا جہاں آج کل پل بنانے کا مطالبہ کیا جارہا
ہے. وہاں بیٹھ کر ہم ایک دوسرے کو قسمیں دیتے جو زیادہ تر بابے پیر تھپلے
والوں کی ہوتیں کہ اگلی جمعرات ہم نے داتا دربار کا لنگر کھانا ہے. ایسی
کئی جمعراتیں آتی اور چلی جاتی لیکن ہم لاہور نہ پہنچ پاتے. یوں ہر جمعہ کی
کھائی ہوئی قسمیں جمعرات کو ٹوٹ جاتیں. ایک دن ہم ٹھاکے جانے کے لیے جب
باناں پہنچے تو پارلہ موڑہ والا کلہو ملا جس نے یہ بتایا کہ جاجا لاہور چلا
گیا ہے. اس کے منہ سے سن کر ایسا لگا جیسا وہ ترکی اور یورپ کے درمیان بہتے
بحر کو عبور کر گیا اور ہم رہ گئے. جو بھی تھوڑا سیانہ ہوتا لاہور چلا جاتا
پیچھے وہی رہ گئے جو اسکول کے جھنجھٹ میں پھنسے ہوتے یا کوئی اور وجوہات
اڑے آ جاتیں.
جاجا لاہور پہنچ گیا تو ہم بھی کب پیچھے رہنے والے تھے انا" فانا" ہم بھی
لاہور پہنچ گے. اب سب سے پہلے تو ہمیں روزگار چاہیے تھا جو نیلا گنبد چاول
چھولے والی ریڑھی پر مل گیا. وہاں پہنچ کر یہ بھی پتہ چلا کہ جیسے ہم اپنے
علاقے میں گاوُں محلوں میں بانٹے ہوئے تھے ایسے ہی لاہور میں بھی تھے مثلاً
کھنٹی کراس اور پڑاٹی والے شاہ عالمی گیٹ موچی دروازہ اور رنگ محل میں تھے
چوکی خانپور والے پرانی انار کلی اردو بازار اور بیڈن روڈ میں سیری کہوٹہ
مزنگ آڈہ مزنگ چونگی سمن آباد اور چتر باڈر والے میکلوڈ روڈ اور لکشمی چوک
میں بانٹے ہوئے تھے. جاجا مزنگ اڈا شہزادہ ہوٹل پر ہوا کرتا تھا ہم سب نے
مل کر پہلے تو لاہور کے وہ تمام سینما گھر دیکھے جن کے نام ہم اخباروں میں
پڑھا کرتے تھے شاید ہی کوئی ایسا سینما بچا ہو جس میں ہم نہ جا سکے ہوں
ہماری فلم بینی کا اندازہ اپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہمارا دوست ریاض بٹ
جو اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتا تھا وہ مشکل سے مشکل پنجابی فلموں کے نام ہی
نہیں بلکہ گلیکسی اور میٹروپول جیسے سینماؤں کے نام بھی پڑھ لیا کرتا
تھا.روز فلم. دیکھنے کی جب سدراں پوری ہوئیں تب جا کر ہم ہفتہ وار سینما
جانے لگے. جاجا بٹ اور ہم ہوٹلوں پر مزدوری کرتے تھے، دن پورا بھاگ بھاگ کر
اپنی چال ہی بھول چکے تھے ماہانہ تنخواہ ایک سو پچاس روپے آتی اسی میں سے
کمرے کا کرایہ فلم اور سگریٹ بیڑی بھی ہوتا. لباس کا وہ حشر ہوتا کہ رگڑ کر
دھونے سے بھی ڈرتے کہ کالر یا بازوں کے کف ہی نہ الگ ہو جائیں. میں نے چمڑے
کی چپل پہنی ہوتی تھی جس کا کلر کوئی بھی مائی کا لال نہیں پہچان سکتا تھا
البتہ مجھے یاد تھا کہ جب لی تھی اس وقت اس کا رنگ کالا تھا. وہ دونوں
چپلیں آپس میں بھی اتنی مختلف ہو چکی تھی کہ ایک ایڑی والی تھی اور دوسری
ایڑی کے بغیر. جاجا پلاسٹک کے سلیپر پہنا کرتا تھا لیکن ایک سال تک دونوں
پاوں کے سلیپر ایک ہی رنگ میں تو درکنار ایک سائز کے بھی نہیں دیکھے. اس کی
شلوار کا ایک پونچا پھٹا تو اکرم گجر جو ہمارا روم میٹ تھا وہ کچھ کچھ
دستکاری جانتا تھا اسے کہنے لگا یار جی اسکی دو تروپے ماری دیو. اس نے جب
دیکھا کام تروپوں سے نہیں بننے والا تو دونوں پہونچے ہی اتار دیے، کھلے
پونچوں کا رواج تو تھا ہی کچھ یوں کھلے ہو گئے کے پتہ چلتا چھوٹی سی دہوتی
باندھی ہوئی ہے. شہزادے ہوٹل پر اس نے بہت عرصہ کام کیا یہاں تک کہ اتنی
انسیت ہو گئی کہ جب وہ رکشہ چلاتا تھا تب بھی زیادہ تر شہزادہ ہوٹل پر ہی
رہتا، پتہ ہی نہ چلتا کہ اس نے یہاں سے کام چھوڑ دیا ہوا ہے. ہوٹل کا مالک
جسے بابو جی کہا جاتا تھا وہ کہیں جاتا تو جاجے بٹ کو کہتا ویکھی یار جرا
میں رنگ محل توں ہو کہ آوندا اں. ہوٹل کہ نئے ملازمین یہی سمجھتے کہ جاجا
بھی شہزادوں کا اپنا بندہ ہے.
جاجا بٹ پہلے پہل ٹینڈ بھی کروا لیا کرتا تھا اور مہینے دو مہینے میں شیو
بھی بنوا لیا کرتا لیکن جب سے اقبال حسن فلم شیر خان میں بطورِ شیر خان آیا
تھا تب سے جاجے نے نہ تو بال کٹوائے اور نہ ہی شیو بنوائی شیو اور بالوں کے
درمیاں مونچھیں تھی جو داڑھی کے ساتھ ہی بڑتی جا رہی تھیں. گلے کے بٹن پہلے
کبھی ہوئے ہی نہیں تھے جو ہوئے تو کبھی باندھے نہیں. اب وہ مکمل شیر خان ہو
چکا تھا چال ڈھال چپل اور کپڑے سب کچھ ہی شیر خان والا تھا..
راقم الحروف سرکاری ملازم ہوا تو لاہور چھوٹ گیا، وہ لاہور جس کے لیے ہم سب
کچھ چھوڑ کر ائے تھے، وہ سرکاری نوکری نے چھین لیا تھا.
لاہور آنا اب کبھی کبھار والی بات ہو گئی تھی کبھی اتنے عرصے کے بعد آنا
ہوتا کہ مزنگ اڈہ پہنچ کر بھی پوچھنا پڑ جاتا کہ مزنگ اڈہ کدھر ہے.
اس عرصے میں جاجے بٹ نے یوں محنت کی یا بیٹی کی دعائیں لگی کہ(یوں تو
بیٹیاں ہر کسی کو پیاری ہوتی ہیں لیکن اعجاز اپنی بیٹی سے بہت زیادہ پیار
کرتا تھا وہ بیٹی کے ساتھ سہیلیوں کی طرح کھیلتا پرانی ٹاکیاں ڈھونڈ کر ان
سے گڑیا بناتا پھر بیٹی کو دیتے ہوئے کہتا پتری تکو آں کتنی سوہنی گڈی
بنائی اے پھر ایک گڈی کے منہ پر پنسل سے مونچھیں بناتا تو بیٹی پوچھتی یہ
کیوں کیا، ہنستا اور کہتا پتری اے اسنا مراج اے(یہ اس کا دولہا ہے) مٹی کے
برتن بناتا پھر کہتا اچھو پوجھنی بناں(ایک طرح کا کھانا بنائیں) . کبھی گڈی
گڈے کی شادی کراتا تو منہ سے گن گنا گن کر کے ڈھول کی آوازیں نکالتا. پھر
گڈی کی رخصتی کراتے ہوئے گڈی کو گلے سے لگا کر دلاسے دیتا بیٹی پوچھتی یوں
کیوں کرتے ہیں تو اس کو گلے لگا کر کہتا میں تساں ناں ابا آں ناں(میں آپ کا
باپ ہوں نا) . بیٹی سے اس کا انوکھا پیار تھا، چھوٹی سی بیٹی جس کے چھوٹے
چھوٹے اور ککے بورے بال تھے جاجے کی دنیا تھی) . رکشہ چھوڑ کر مزنگ اڈہ میں
ہی پراپرٹی کی لین دین کا دفتر کھول لیا. کافی عرصہ سے لاہور میں رہنا پھر
رہتی کسر رکشہ ڈرائیوری نے نکال دی کہ لاہور کا کوئی کھڈا کونا ایسا نہیں
تھا جسے دیکھا نہ ہو. یہی جانکاری کاروبار کے لیے زینہ ثابت ہوئی کہ جاجا
اسی لاہور میں بٹ صاحب پراپرٹی والے، بن گیا.
دینے والے کے پاس کوئی کمی نہیں اگر لینے والا کوئی ہو.. اعجاز بٹ جن سڑکوں
پر رکشہ گھسیٹا کرتا تھا اب وہاں آٹومیٹک ڈور کلوذر اور آٹومیٹک سائیڈ مرر
والی پیجارو اور پراڈو بھاگا کرتی تھی. راقم. الحروف دس گیارہ ماہ کے بعد
اوکاڑہ سے لاہور آیا تو سیدھا شہزادہ ہوٹل پر گیا جہاں ریاض بٹ ایک سائیڈ
پر گردن جھکائے پیڑے بناتا ہوا ملا. وہی تنور کے تھڑے کے پاس پڑی ایک کرسی
جو کرسی کم اور اٹے کی گتھی زیادہ لگ رہی تھی ریاض بٹ نے اس پر اخبار کا
ایک پرت رکھ کر ہمیں بیٹھنے کو کہا. ہم بیٹھ گئے ایک دو پرانے ملازم جو
ہمیں جانتے تھے انہوں نے مصافحہ کیا شہزادہ جی ( باؤ جی) نے دیکھا تو
کاونٹر سے ہی حال احوالِ پوچھا اور ایک کپ دودھ پتی کا بھیج دیا. چائے پیتے
ہوئے اعجاز کا پوچھا تو ریاض کہنے لگا ابھی آنے ہی والا ہو گا. سوچا کئی
سواری چھوڑنے گیا ہو گا. ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ ایک وائیٹ پراڈو آ
کر رکی جس میں سے سفید رنگ کی کارٹن میں ملبوس اور بلیک سن گلاس پہنے ایک
آدمی اترا میں نے ایک نظر دیکھا ضرور لیکن پہچان نہ پایا اور پھر سے ریاض
کی طرف متوجہ ہو گیا. اتنی دیر میں نان بائی نے اور دو تین دوسرے ملازمین
نے یک آواز ہی کہا بٹ صاب سلام علیکم. بٹ صاب ہاتھ اور زبان سے وعلیکم
اسلام کہتے ہوا میری طرف بڑھا آ رہا تھا جب مسکرایا تو پتہ چلا اے تے جاجا
اے. جھپی ڈال لی کاندھے بدلتے ہوئے آہستہ سے پوچھا بٹا کوئی بینک تے، ابھی
اتنا ہی کہا تھا کہ گڑاکا لگاتے ہوئے کہنے لگا نہی ہو یرا. بازو پکڑے ہوئے
پراڈو کے پاس لایا دروازہ کھول کر بیٹھنے کا کہہ کر ہوٹل والے کو دیکھتے
ہوئے کہا چھاجادہ(شہزادہ) جی دفتر اچ چاہ کہلیو( بھیجنا) جی.
شہزادے کو چائے کا آرڈر دے کر گاڑی چلا کر آفس آ گیا. بیگم روڈ پر کیا کمال
کا آفس تھا بڑی سی کالی کرسی جس کی بیک پر وائیٹ پلاسٹک کا ہیڈ ریسٹ پڑا
ہوا ساتھ ایک اسٹینڈ جس پر تولیہ رکھا ہوا دو تین لینڈ لائن فون ٹیبل پر
رکھے ہوئے المختصر ہر چیز ڈور میٹ سے لے کر وال کارٹن تک سبھی میچنگ میں
لگی ہوئی تھی آفس میں بیٹھ کر محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ یہ جاجے بٹ کا آفس
ہو سکتا ہے. دیواروں پر نگاہ پھرتے پھرتے جب اس پر پڑی تو اس نے سگریٹ ایش
ٹرے میں رکھتے ہوئے پھر ہنسی ہنس دی. میں نے ابھی سوال کے لیے لب کھولے ہی
تھے کہ تین ٹیلیفون میں سے کسی ایک کی گھنٹی بج اٹھی تو لب پھر بند ہو گئے.
اعجاز بٹ پر قسمت کی دیوی مہربان ہو چکی تھی اب دن دوگنی اور رات چوگنی
دولت آ رہی تھی. زبان میں شیرینی تو تھی ہی بزنس ڈیلنگ بھی کمال کی تھی،
ہونٹوں پر ہر وقت مسکراہٹ رہنے لگی تھی. دولتِ کے متعلق سنا ہوا تھا کہ جب
یہ آتی ہے تو بندہ کنجوس ہو جاتا ہے لیکن اعجاز نے یہ کہاوت غلط ثابت کر کے
دکھا دی اس کے پاس جوں جوں دولت آئی وہ دیالو ہوتا گیا. اس کی ساری زندگی
مزنگ اڈے میں شہزادہ ہوٹل پر گزری تھی شہزادوں کا رنگ اس پر ا چکا تھا. کسی
کو بھی مصیبت میں دیکھتا تو مدد کے لیے فوراً آگے ہو جاتا. ایک دن باتوں
باتوں میں اس کا نام آ گیا تو میرا پڑوسی ایک لڑکا کہنے لگا وہ بڑے اچھے
تھے جی. میں نے اس سے پوچھا تمہیں کیا پتہ اس کا. کہنے لگا جب میرے ابو کی
ٹانگ ٹوٹی تھی تو ہم ان کو لے کر لاہور گئے تھے وہاں ہماری اتنی جان پہچان
تو نہ تھی جو پیسے لے کر گئے تھے وہ ابو کے ایڈمنٹ سے پہلے ہی ختم ہو چکے
تھے صورتحال یہ ہو گی تھی کہ کرایہ نہ ہونے کے باعث واپسی کی راہیں مسدود
لگنے لگی تھی، اس دن ہم اسپتال کے لان میں بیٹھے ہوئے تھے کہ بٹ صاحب کسی
کی عیادت کے سلسلے میں اسپتال آئے. جب وہاں سے گزرے تو ہمیں دیکھ لیا فوراً
گاڑی روکتے ہوئے نیچے آئے اور ہم سے ملنے کے بعد اس بات پر ناراضی کا
اظہارِ کیا کے آپ نے آتے ہی یا آنے سے پہلے کیوں نہیں بتایا. پھر انہوں نے
جب ٹریٹمنٹ کا پوچھا تو باقی سارے(میرے امی ابو اور بھائی ) تو بات چھپانے
لگے لیکن میں نے سچ سچ بتا دیا کہ ہم کس حال میں ہیں. جب میں نے بات بتاتے
ہوئے اُن کی طرف دیکھا تو اُن کی آنکھیں اشکبار ہو چکی تھی اور ناک سے بھی
پانی چلنے لگا تھا انہوں نے ناک صاف کرتے ہوئے کہا بس کر پتری ( یہ اعجاز
کا چھوٹوں کے لیے پکا لفظ تھا وہ ہر بچے اور بچی کو پتری ہی کہتا ہوتا تھا
اور اپنی تمام خالاؤں کو یا ان کی ہم عمر خواتین کو امی جی کہنا اس پر بس
تھا) میرا کلیجہ باہر آن لگا ای. یہ کہتے ہی وہ وارڈ میں گئے وہاں سے دو
لڑکوں کو اسٹریچر دے کر ہمارے پاس بھیجا اور خود ڈاکٹر کے پاس چلے گے. آدھے
گھنٹے سے کم وقت میں ابو کو ایڈمیشن مل چکا تھا اور جو روم ملا وہ دو بیڈ
کا تھا. دس پندرہ دن ابو وہاں رہے اس دوران ابو کے اخراجات کے علاوہ ہم جو
دو تین ساتھ دیکھ بھال کے لئے تھے سب کا تین وقت کا کھانا اور دیگر ضروریات
بٹ صاحب نے اپنے ذمے لے رکھی تھیں. وہ بات کر رہا تھا تو میرے سامنے اعجاز
بٹ مختلف روپ میں گھوم رہا تھا.
میں نے جاجے کو ہر روپ میں دیکھا تھا دو رنگے سلیپروں پھٹے ہوئے پہونچے
گھسے ہوئے کلروں سے لے کر بٹ پراپرٹی ڈیلر تک، میں نے اس کے نیچے سائیکل سے
پراڈو اور پیجارو تک کی گاڑیاں دیکھی جن ہاتھوں کو کبھی اس نے صابون سے
دھویا نہیں تھا ان ہاتھوں کی انگلیوں میں چار چار سونے کی انگوٹھیاں دیکھی
تو کلائی پر راڈو گھڑی دیکھی. جاجا سے اعجازِ تک کا سارا سفر میری آنکھوں
کے سامنے گزرا وہ جوں جوں اُوپر گیا اس میں جھکاؤ اتنا ہی آتا گیا، ملنساری
اس میں بڑھتی گئی وہ ہر کسی کا خیر خواہ ہونے لگا. وہ اتنا پاپولر ہو گیا
کہ بڑے بڑے لوگ دیکھتے رہ گئے. علاقائی ہمدردی اس قدر اس میں رچی تھی جس کی
کوئی مثال ہی نہ تھی. بھمبر کے دو تین لوگ جو اچھے بھلے ٹرانسپورٹر تھے
بادامی باغ سے گاڑیوں کے ٹائر لے رہے تھے جب ٹائروں کا مول ہو چکا تو دیکھا
جیبیں خالی ہیں بڑے پریشان ہوئے کہ اب کیا کیا جائے ابھی وہ اسی شش و پنج
میں مبتلا تھے کہ اتنی دیر میں اعجاز بٹ اسی دکان پر جا پہنچا. یوں تو
اعجازِ باتیں دکاندار سے کر رہا تھا لیکن نظریں مسلسل ان لوگوں کا معائنہ
کر رہی تھیں، دکاندار ہی سے ان لوگوں کے بابت معلومات چاہی تو ساری روئیداد
سامنے آ گئی، اس نے مالک دکان سے کہا ان کا سامان پیک کروائیں اور بل مجھ
سے لے لیں. بل ادا کیا ہاتھ ملایا اور باہر نکلنے لگا تو ان میں سے ایک
آدمی نے ہاتھ پکڑ کر روکا اور کہا جناب یہ تو پتہ چل گیا ہے کہ اپ بھی
کشمیری ہیں لیکن یہ بتائیں کہ اتنی بڑی رقم بغیر کسی جان پہچان کے کیسے آپ
نے دے دی اور پھر یہ بھی نہیں بتایا کہ واپس کرنے کے لیے کہاں ملا جائے.
ہنسا مونچھوں پر ہاتھ پھیرا اور کہا یہ دینے کے لیے لاہور نہ آنا بلکہ
میرپور کسی سے بھی یہ کہہ کر دے دینا کہ اعجاز بٹ تک پہنچا دے.
اعجاز کا کاروبار وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا. لین دین کا سسٹم فرسٹ سیکنڈ
اور تھرڈ پارٹی کی بنا پر ہونے لگا بس اسی اصول کے تحت ایک دن تھرڈ پارٹی
سے کیش لینے نکلا تو اسسٹنٹ نے کہا، بٹ صاحب میں چلا جاتا ہوں. کہنے لگا
یار پارٹی ڈینجر ہے اس لیے میں خود ہی جاتا ہوں. ساتھ کوئی بھی نہیں تھا بس
جونہی کیش لے کر ہینڈ بیگ گاڑی میں رکھا، کیش دینے والے کی نیت میں فتور آ
چکا تھا. اعجاز نے عادتاً گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے سگریٹ سلگایا ایک بازو
گاڑی پر رکھا اور دوسرے سے کش لینے کے لئے آنکھیں ہلکی سی موندی ہی تھی کہ
پستول کا بولٹ ا کر سینے میں لگا، سگریٹ پھینک کر ہاتھ اس نے قمیص کے نیچے
کیا ہی تھا کہ دو بولٹ اور آ کر لگے انسان آخر ہے ہی کتنا سا، تینوں گولیاں
سینے میں پیوست ہوئی تو دل نے دھڑکنا چھوڑ دیا ہر وقت ہنسنے والے نے آخری
مسکراہٹ ہونٹوں پر سجاتے ہوئے گولیاں چلانے والے کو دیکھا کچھ کہنے کی کوشش
کی لیکن بےسود ثابت ہوئی گرنے کے بجائے پیٹھ ٹائر کے ساتھ لگا کر یوں ہی
بیٹھ گیا جیسے اقبال حسن شیر خان کے آخیر میں مسکراتے ہوئے ریڑھے کے ساتھ
پیٹھ لگا کر بیٹھ جاتا ہے.
بچیاں غریب گھر کی ہوں یا امیر کی گڈیاں پٹولے کھیلنے والا کھیل سبھی ہی
کھیلتی ہیں انہی کی شادیاں کراتے ہوئے پتہ ہی نہیں چلتا کہ خود ان کی شادی
کے دن آ جاتے ہیں گھر میں بڑی عمر کی عورتوں کی کُھسر پٌھسر سے پتہ چل ہی
جاتا ہے کہ بابل کے ویڑا اب بیگانہ ہونے والا ہے. پھوپھو کے اپروتلی(یکے
بعد دیگرے) کے دو تین پھیرے سہیلیوں کی پیشن گوئی کے تعبیر ہو رہے تھے. آخر
وہ وقت آ ہی گیا جب قاضی دو تین گواہوں کی موجودگی میں قبول ہے قبول ہے، کا
اقرار کرانے پر بضد ہوتا ہے. آج سچ مچ بیٹی رخصت ہو رہی تھی سب ہی پیار سے
وداع کر رہے تھے لیکن وہ نہیں تھا جو چھوٹی چھوٹی بات پر سر پکڑ کر سینے سے
لگاتا اور کہتا تھا پتری میں تساں ناں ابا آں ناں. |