عوام میں اوابین کی نماز کا بہت چرچا ہے مگر بیشتر اس کی
اصل حقیقت سے ناواقف ہیں اور احناف کے یہاں عموما لوگ یہ نماز مغرب کے بعد
چھ رکعات ادا کرتے ہیں جبکہ اوابین کی نماز کا وقت یہ نہیں ہے ۔ عوام اور
احناف کی اسی غلطی پہ متنبہ کرنے کے لئے میں نے یہ مضمون لکھا ہے ۔
اوابین کا معنی:
اواب مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی کثرت سے اﷲ کی طرف رجوع کرنے والا ، ذکر
وتسبیح کرنے والا، گناہوں پر شرمندہ ہونے والا اور توبہ کرنے والا ہے ۔
اوابین اسی اواب کی جمع ہے۔ قرآن میں اواب اور اوابین دونوں استعمال ہوا ہے،
اﷲ کا فرمان ہے : ہَٰذَا مَا تُوعَدُونَ لِکُلِّ أَوَّابٍ حَفِیظٍ (ق:32)
ترجمہ: یہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ہر اس شخص کے لئے جو رجوع کرنے
والا اور پابندی کرنے والا ہو ۔
اﷲ کا فرمان ہے: رَّبُّکُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِی نُفُوسِکُمْ إِن تَکُونُوا
صَالِحِینَ فَإِنَّہُ کَانَ لِلْأَوَّابِینَ غَفُورًا (الاسراء :25)
ترجمہ:جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے تمہارا رب بخوبی جانتا ہے اگر تم نیک
ہو تو وہ تو رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے ۔
ایک دوسری جگہ اﷲ کا فرمان ہے : وَلَقَدْ آتَیْنَا دَاوُودَ مِنَّا فَضْلًا
یَا جِبَالُ أَوِّبِی مَعَہُ وَالطَّیْرَ وَأَلَنَّا لَہُ الْحَدِیدَ
(سبا:10)
ترجمہ: اور ہم نے داؤد پر اپنا فضل کیا اے پہاڑو! اس کے ساتھ رغبت سے تسبیح
پڑھا کرو اور پرندوں کو بھی ( یہی حکم ہے ) اور ہم نے اس کے لئے لوہا نرم
کر دیا ۔
نماز اوابین اور چاشت کی نماز دونوں ایک ہیں:
نماز اوابین اور چاشت کی نماز دونوں ایک ہی ہیں ، ان دونوں میں کوئی فرق
نہیں ہے ۔ اس سے متعلق کئی احادیث اور ائمہ ومحدثین کے متعدد اقوال ہیں مگر
ایک حدیث ہی اس کے ثبوت کے لئے کافی ہے اور قول محمد ﷺ کے سامنے دنیا کے
سارے اقوال اور لوگوں کی ساری باتیں مردود ہیں ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ
سے روایت ہے:
أوصانی خلیلی بثلاثٍ لستُ بتارکہنَّ ، أن لا أنامَ إلا علی وترٍ ، و أن لا
أدَعَ رکعتی الضُّحی ، فإنہا صلاۃُ الأوّابینَ ، و صیامِ ثلاثۃِ أیامٍ من
کلِّ شہرٍ۔(صحیح الترغیب:664، صحیح ابن خزیمۃ:1223)
ترجمہ: مجھے میرے خلیل صلی اﷲ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی کہ میں
انہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ بغیر وتر پڑھے نہ سوؤں، چاشت کی دوگانہ نہ
چھوڑوں کیونکہ یہی اوابین کی نماز ہے اور ہر ماہ تین روزے نہ ترک کروں۔
٭ اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح الترغیب اور صحیح ابن خزیمہ میں صحیح قرار
دیا ہے ۔ (حوالہ سابق)
اس حدیث میں نبی ﷺ نے واضح طور پر بتلا دیا کہ صلاۃ الضحی(چاشت کی نماز) ہی
صلاۃ الاوابین (اوابین کی نماز) ہے ۔
یہاں ایک اہم بات یاد رکھیں کہ فجر کے بعد سے ظہر کے پہلے تک تین نمازوں کا
ذکر ہے ۔ ایک اشراق کی نماز، دوسری چاشت کی نماز اور تیسری اوابین کی نماز۔
ان تینوں نمازوں میں چاشت اور اوابین کی نماز دونوں ایک ہی ہیں اور اشراق
کی نماز اول وقت پر ادا کرنا چاشت کی نماز ہے یعنی اشراق اور چاشت کی نماز
بھی دونوں ایک ہی ہیں ۔ ہم نے اول وقت پر ادا کرلیا تو اشراق کہلایا اور
ظہر کی نماز سے پہلے وسط یا آخر وقت میں ادا کئے تو چاشت کی نماز کہلائی ۔
گویا طلوع آفتاب کے چند منٹ بعد اشراق کا وقت ہے اور یہی وقت چاشت کا بھی
ہے مگر اسے ظہر سے پہلے پہلے کسی بھی ادا کرسکتے ہیں ، ظہر سے پہلے وسط یا
آخر وقت میں ادا کی گئی نماز کو چاشت کہیں گے پھر اشراق نہیں کہیں گے ۔
نمازاوابین کے فضائل :
چونکہ چاشت کی نماز اور اوابین کی نماز دونوں ایک ہیں اس وجہ سے چاشت کی
فضلیت سے متعلق جو بھی احادیث وارد ہیں وہ سبھی اوابین کی بھی فضیلت میں
ہیں ۔ چند ایک احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔
پہلی حدیث : عَنْ أَبِی ذَرٍّ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ
وَسَلَّمَ أَنَّہُ قَالَ یُصْبِحُ عَلَی کُلِّ سُلَامَی مِنْ أَحَدِکُمْ
صَدَقَۃٌ فَکُلُّ تَسْبِیحَۃٍ صَدَقَۃٌ وَکُلُّ تَحْمِیدَۃٍ صَدَقَۃٌ وَکُلُّ
تَہْلِیلَۃٍ صَدَقَۃٌ وَکُلُّ تَکْبِیرَۃٍ صَدَقَۃٌ وَأَمْرٌ بِالْمَعْرُوفِ
صَدَقَۃٌ وَنَہْیٌ عَنْ الْمُنْکَرِ صَدَقَۃٌ وَیُجْزِءُ مِنْ ذَلِکَ
رَکْعَتَانِ یَرْکَعُہُمَا مِنْ الضُّحَی(صحیح مسلم: 1701)
ترجمہ: حضرت ابو زر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی کہ آپ نے
فرمایا:صبح کو تم میں سے ہر ایک شخص کے ہر جوڑ پر ایک صدقہ ہوتا ہے۔پس ہر
ایک تسبیح (ایک دفعہ "سبحا ن اﷲ" کہنا)صدقہ ہے۔ہر ایک تمحید ( الحمد ﷲ
کہنا)صدقہ ہے،ہر ایک تہلیل (لاالہ الا اﷲ کہنا) صدقہ ہے ہرہر ایک تکبیر (اﷲ
اکبرکہنا) بھی صدقہ ہے۔(کسی کو) نیکی کی تلقین کرنا صدقہ ہے اور (کسی کو )
برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے۔اور ان تمام امور کی جگہ دو رکعتیں جو انسان
چاشت کے وقت پڑھتا ہے کفایت کرتی ہیں۔
دوسری حدیث : عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ أَوْ أَبِی ذَرٍّ عَنْ رَسُولِ
اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنْ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ
أَنَّہُ قَالَ ابْنَ آدَمَ ارْکَعْ لِی مِنْ أَوَّلِ النَّہَارِ أَرْبَعَ
رَکَعَاتٍ أَکْفِکَ آخِرَہُ(الترمذی: 486)
ترجمہ: بوالدرداء ؓ یا ابوذر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲﷺ نے فرمایا: اﷲ
تعالیٰ فرماتاہے: اے ابن آدم ! تم دن کے شروع میں میری رضاکے لیے چار
رکعتیں پڑھاکرو، میں پورے دن تمہارے لیے کافی ہوں گا ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے ۔ ( صحیح الترمذی:475)
تیسری حدیث : عَنْ أَبِی أُمَامَۃَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ
عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ خَرَجَ مِنْ بَیْتِہِ مُتَطَہِّرًا إِلَی
صَلَاۃٍ مَکْتُوبَۃٍ، فَأَجْرُہُ کَأَجْرِ الْحَاجِّ الْمُحْرِمِ، وَمَنْ
خَرَجَ إِلَی تَسْبِیحِ الضُّحَی لَا یَنْصِبُہُ إِلَّا إِیَّاہُ،
فَأَجْرُہُ کَأَجْرِ الْمُعْتَمِرِ، وَصَلَاۃٌ عَلَی أَثَرِ صَلَاۃٍ لَا
لَغْوَ بَیْنَہُمَا، کِتَابٌ فِی عِلِّیِّینَ (ابوداؤد:558)
ترجمہ: سیدنا ابوامامہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جو آدمی اپنے
گھر سے وضو کر کے فرض نماز کے لیے نکلتا ہے تو اس کا اجر و ثواب ایسے ہے
جیسے کہ حاجی احرام باندھے ہوئے آئے اور جو شخص چاشت کی نماز کے لیے نکلے
اور اس مشقت یا اٹھ کھڑے ہونے کی غرض صرف یہی نماز ہو تو ایسے آدمی کا ثواب
عمرہ کرنے والے کی مانند ہے ۔ اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کہ ان دونوں
کے درمیان کوئی لغو نہ ہو علیین میں اندراج کا باعث ہے ۔
چوتھی حدیث : انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم
کا فرمان ہے :من صلی الغداۃ فی جماعۃ، ثم قعد یذکر اﷲ حتی تطلع الشمس، ثم
صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ تامۃ تامۃ تامۃ۔ (صحیح الترمذی: 586)
ترجمہ : جس نے جماعت سے فجرکی نمازپڑھی پھراﷲ کے ذکرمیں مشغول رہایہاں تک
کہ سورج طلوع ہوگیاپھردورکعت نماز پڑھی ، تو اس کے لئے مکمل حج اور عمرے کے
برابرثواب ہے ۔
نمازاوابین کا حکم:
اس نماز کے حکم کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ بعض نے اسے سببی نماز
کہا کیونکہ اس قسم کے بھی دلائل وارد ہیں جیساکہ کسی نے عائشہ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہا سے پوچھا: کیانبی اکرم ﷺ چاشت کی نماز پڑھا کرتے تھے؟ انھوں نے
جواب دیا:نہیں الا یہ کہ سفر سے واپس آئے ہوں۔( صحیح مسلم: 1691)
بعض نے سرے سے اس نماز کا انکار کیا بلکہ عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے
اسے بدعت کہہ دیا ہے ، یہ بات راوی کی عدم رویت پر محمول کی جائے جیساکہ
حافظ ابن حجر نے کہا ہے ۔ بعض علماء نے کبھی کبھار پڑھنے کا جواز ذکر کیا
ہے جبکہ شیخ ابن باز نے چاشت کی نماز کا حکم بیان کرتے ہوئے اسے سنت مؤکدہ
کہا ہے اور بیشتر علماء اوابین کی نماز کو استحباب پر محمول کرتے ہیں ۔
میری نظر میں بھی استحباب کا حکم اولی واقوی ہے۔ اس سلسلے میں چند دلائل
دیکھیں :
(۱)ایک دلیل اوپر سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کو نبیﷺ کی تین ہمیشگی والی
وصیتیں ہیں جن میں چاشت کی نماز بھی مذکور ہے۔
(۲)نبی ﷺ کا فرمان ہے: لا یُحَافِظُ علی صلاۃِ الضُّحَی إلا أَوَّابٌ وہی
صلاۃُ الأَوَّابِینَ(صحیح الجامع:7628)
ترجمہ: نمازِ اشراق کی صرف اوّاب(رجوع کرنے والا، توبہ کرنے والا) ہی
پابندی کرتا ہے، اور یہی صلاۃ الاوّابین ہے۔
یہ حدیث جہاں اس بات کی دلیل ہے کہ چاشت کی نماز اوابین کی نماز ہے وہیں اس
میں چاشت واوابین کی نماز پر ہمیشگی کرنے کی بھی دلیل ہے ، اس لئے اس نماز
کا انکار کرنا یا اسے بدعت کہنا صحیح نہیں ہے ، بڑے اجر وثواب کا عمل ہے اس
پہ ہمیں مداومت برتنی چاہئے۔
نماز اوابین کی رکعات:
اوابین کی نماز کم سے کم دو اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعات ہیں، نبی ﷺ سے دو
رکعت ، چار رکعت اور فتح مکہ کے موقع پر ام ہانی رضی اﷲ عنہا کے گھر میں
آٹھ رکعت پڑھنا ثابت ہے۔ان تمام احادیث کی روشنی میں مسلم شریف میں باب
ہے(بَابُ اسْتِحْبَابِ صَلَاۃِ الضُّحَی، وَأَنَّ أَقَلَّہَا رَکْعَتَانِ،
وَأَکْمَلَہَا ثَمَانِ رَکَعَاتٍ، وَأَوْسَطُہَا أَرْبَعُ رَکَعَاتٍ، أَوْ
سِتٍّ، وَالْحَثُّ عَلَی الْمُحَافَظَۃِ عَلَیْہَا)یعنی باب ہے نماز چاشت
کا استحباب یہ کم از کم دو رکعتیں مکمل آٹھ رکعتیں اور درمیانی صورت چار یا
چھ رکعتیں ہیں نیز اس نماز کی پابندی کی تلقین کے بارے میں ۔
بارہ رکعات صلاۃ الضحی والی روایت ثابت نہیں ہے، الترغیب والترھیب((1/320
للمنذری میں ہے جو دو رکعت نماز چاشت ادا کرے اسے غافل میں نہیں لکھا جاتا
، اس میں آگے یہ ٹکڑا بھی ہے "مَن صلَّی ثِنْتَیْ عَشْرۃَ رَکعۃً بَنی اﷲُ
لہ بیتًا فی الجنَّۃ" کہ جو بارہ رکعات (چاشت کی نماز) ادا کرے اﷲ اس کے
لئے جنت میں ایک گھر بنائے گا ۔ اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف الترغیب
میں( (405میں درج کیا ہے ۔ اور اسی طرح ترمذی میں یہ روایت ہے :" مَن صلَّی
الضُّحی ثنتی عشرۃَ رَکعۃً بنی اللَّہُ لَہ قصرًا من ذَہبٍ فی الجنَّۃِ"
یعنی جو چاشت کی بارہ رکعات ادا کرے گا اﷲ اس کے لئے جنت میں سونے کا ایک
محل تعمیر کرے گا ۔ شیخ البانی نے اس حدیث کو ضعیف الترمذی((473میں درج کیا
ہے ۔
نماز اوابین کا وقت :
نماز اوابین کے وقت سے متعلق مسلم شریف میں ایک واضح حدیث ہے ۔
عَنْ أَیُّوبَ عَنْ الْقَاسِمِ الشَّیْبَانِیِّ أَنَّ زَیْدَ بْنَ أَرْقَمَ
رَأَی قَوْمًا یُصَلُّونَ مِنْ الضُّحَی فَقَالَ أَمَا لَقَدْ عَلِمُوا
أَنَّ الصَّلَاۃَ فِی غَیْرِ ہَذِہِ السَّاعَۃِ أَفْضَلُ إِنَّ رَسُولَ
اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ صَلَاۃُ الْأَوَّابِینَ
حِینَ تَرْمَضُ الْفِصَالُ(صحیح مسلم:1777)
ترجمہ: ایوب نے قاسم شیبانی سے روایت کی کہ حضرت زید بن ارقم رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ نے کچھ لوگوں کو چاشت کے وقت نماز پڑھتے دیکھاتو کہا:ہاں یہ لوگ اچھی
طرح جانتے ہیں کہ نماز اس وقت کی بجائے ایک اور وقت میں پڑھنا افضل ہے۔بے
شک رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا"اوابین(اطاعت گزار،توبہ کرنے والے اور اﷲ تعالیٰ کی
طرف رجوع کرنے والیلوگوں) کی نماز اس وقت ہوتی ہے جب(گرمی سے) اونٹ کے دودھ
چھڑائے جانے والے بچوں کے پاؤں جلنے لگتے ہیں۔
مسلم شریف میں اس حدیث پہ صلاۃ الاوابین کا باب ہے جبکہ صحیح ابن خزیمہ میں
صلاۃ الضحی کا باب ہے اس کی وجہ یہی ہے کہ چاشت اور اوابین دونوں ایک ہی
نماز ہیں جیساکہ اسی حدیث میں مذکور ہے کہ لوگ چاشت کی نماز ادا کررہے تھے
تو رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اوابین کی نماز یعنی چاشت کی نماز فلاں وقت میں
ہے ۔
اوابین کی نماز کا وقت طلوع آفتاب کے چند منٹ بعد سے شروع ہوتا ہے اور ظہر
کی نماز سے کچھ دیر پہلے تک رہتا ہے اور گرمی تک مؤخر کرنا افضل ہے جیساکہ
اوپر والی حدیث میں مذکور ہے ۔
ترمض کا معنی ہے سورج کی گرمی لگنا اور الفصال کا معنی اونٹ کا بچہ یعنی
اوابین کا افضل وقت وہ ہے جب گرمی کی شدت سے اونٹ کا بچہ اپنے پاؤں اٹھائے
اور رکھے ۔ یہ دن کا چوتھائی حصہ یعنی طلوع شمس اور ظہر کے درمیان نصف وقت
ہے۔
مغرب اور عشاء کی نماز کے درمیان نفل پڑھنا:
مغرب کے بعد دو، چار، چھ ، آٹھ اور بیس رکعات نوافل پڑھنے کی متعدد روایات
آئی ہیں ، ان پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔
پہلی حدیث : من صلَّی ستَّ رَکَعاتٍ ، بعدَ المغرِبِ ، لم یتَکَلَّم
بینَہُنَّ بسوء ٍ ، عدَلَت لَہ عبادۃَ اثنتَی عَشرۃَ سنۃً۔ ( ترمذی:
435،ابن ماجہ:256)
ترجمہ:جس نے مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں اوران کے درمیان کوئی بری بات نہ
کی تو ان کا ثواب بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوگا۔
یہ حدیث سخت ضعیف ہے ، علامہ ابن القیم نے تو موضوع کہا ہے اور شیخ البانی
نے متعدد جگہوں پر ضعیف جدا (سخت ضعیف) کہا ہے ۔ حوالہ کے لئے دیکھیں :
(المنار المنیف : 40، ضعیف الترغیب:331، السلسلۃ الضعیفۃ:469، ضعیف
الجامع:5661،ضعیف ابن ماجہ:220، ضعیف ابن ماجہ:256)
دوسری حدیث: مَن صلَّی ستَّ رکعاتٍ بعدَ المغربِ قبل أن یتکلَّمَ ,غُفرَ
لہُ بہا ذنوبُ خمسینَ سنۃٍ۔
ترجمہ: جس نے مغرب کے بعد بغیر بات کئے چھ رکعتیں پڑھیں تو اس کے پچاس سال
کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے بہت ہی ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلۃ الضعیفۃ:468)
تیسری حدیث:حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:
رأَیْتُ حبیبی رسولَ اﷲِ صلَّی اﷲُ علیہ وسلَّم صلَّی بعدَ المغرِبِ ستَّ
رکَعاتٍ وقال مَن صلَّی بعدَ المغرِبِ ستَّ رکَعاتٍ غُفِرَتْ لہ ذُنوبُہ
وإنْ کانت مِثْلَ زَبَدِ البحرِ(المعجم الأوسط:7/191, مجمع الزوائد:2/233)
ترجمہ: میں نے اپنے حبیب رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مغرب کے
بعد چھ رکعات پڑھتے تھے اور فرماتے تھے کہ جس نے مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھیں
تو اس کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں
نہ ہوں۔
امام طبرانی نے اسے معجم اوسط میں ذکرکرنے کے بعد کہا کہ اس حدیث کو عمار
سے بیان کرنے والا اکیلے صالح بن قطن ہے وہ بھی صرف اسی سند سے ۔ اور ہیثمی
نے مجمع الزوائد میں اسے ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ اس میں صالح بن قطن
البخاری ہے جس کا ترجمہ مجھے نہیں مل سکا ۔ ابن الجوزی نے اس حدیث کو العلل
المتناہیۃ ((1/453میں شامل کرکے کہا کہ اس کی سند میں کئی مجہول راوی ہیں ۔
چوتھی حدیث : مَن صلَّی ، بینَ المغربِ والعِشاء ِ ، عشرینَ رَکْعۃً بنی
اللَّہُ لَہ بیتًا فی الجنَّۃِ(ابن ماجہ: 1373)
ترجمہ: جس نے مغرب اور عشاء کے درمیان بیس رکعت نماز ادا کی اﷲ اس کے لئے
جنت میں ایک گھر بنائے گا۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے موضوع کہا ہے ۔ (ضعیف ابن ماجہ:255)
پانچویں حدیث : مَن صَلَّی بعدَ المغرِبَ قبلَ أنْ یَتَکَلَّمَ رکعتیْنِ -
وفی روایۃٍ : أربعَ رَکعاتٍ ؛ رُفِعَتْ صلاتُہ فی عِلِّیِینَ.(مسند
الفردوس، مصنف عبدالرزاق:4833، مصنف ابن أبی شیبۃ:5986)
ترجمہ: جس نے مغرب کی نماز کے بعد بغیر بات کئے دو رکعت ، اور ایک روایت
میں ہے چار رکعت پڑھی تو اس کی نماز علیین میں اٹھائی جاتی ہے ۔
اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ (ضعیف الترغیب:335)
چھٹی حدیث : من صلی أربعَ رکعاتٍ بعد المغربِ کان کالمعقبِ غزوۃً بعد غزوۃٍ
فی سبیلِ اﷲِ(شرح السنۃ للبغوی:3/474)
ترجمہ: جس نے مغرب کے بعد چار رکعات ادا کی گویا وہ اﷲ کی راہ میں پہ درپہ
ایک عزوہ کے بعد دوسرا عزوہ کرنے والا ہے ۔
علامہ شوکانی نے کہا کہ اس کی سند میں موسی بن عبیدہ الزبدی بہت ہی ضعیف ہے
۔ (نیل الاوطار: 3/67)
ابن القیسرانی نے کہا کہ اس میں عبداﷲ بن جعفر متروک الحدیث ہے ۔(تذکرۃ
الحفاظ:335)
ابن حبان نے کہا کہ اس میں عبداﷲ بن جعفر (علی بن مدینی کے والد) ہے جسے
آثار کی روایت میں وہم ہوجاتا ہے اسے الٹ دیتا ہے ، اس میں خطا کرجاتا ہے
۔(المجروحین:1/509)
ساتویں حدیث : منْ رکع عشرِ رکعاتٍ بینَ المغربِ والعشاء ِ، بُنیَ لہ قصرٌ
فی الجنۃِ۔(الجامع الضعیر: 8691)
ترجمہ: جس نے مغرب وعشاء کے درمیان دس رکعات نماز ادا کی اس کے لئے جنت میں
ایک محل بنایا جائے گا۔
شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلۃ الضعیفۃ:4597)
سیوطی نے اسے مرسل کہا ہے ۔ (حوالہ سابق)
ان ساری روایات کے بیان کرنے کے بعد اب دو باتیں جان لیں :
پہلی بات یہ ہے کہ یہ تمام احادیث عام ہیں ،ان میں عام نفل نماز کا ذکر ہے
ان کا اوابین کی نماز سے کوئی تعلق نہیں ہے بطور مثال اس عنوان کے تحت
مذکور پہلی حدیث کو دیکھیں ۔ ترمذی میں اس حدیث کے اوپر باب ہے : "باب مَا
جَاء َ فِی فَضْلِ التَّطَوُّعِ وَسِتِّ رَکَعَاتٍ بَعْدَ الْمَغْرِبِ"
یعنی باب ہے مغرب کے بعد نفل نماز اور چھ رکعت پڑھنے کی فضیلت کے بیان میں۔
اور ابن ماجہ میں اس حدیث پر باب ہے ۔"بَابُ: مَا جَاء َ فِی الصَّلاَۃِ
بَیْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاء ِ" یعنی باب ہے مغرب اور عشاء کے درمیان کی
نماز کے بیان میں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ تمام روایات ناقابل اعتماد اور ضعیف ہیں ۔ شیخ
البانی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں مغرب وعشاء کے درمیان متعین رکعات کے ساتھ جو
بھی احادیث آئی ہیں کوئی بھی صحیح نہیں ہے ، ایک دوسرے سے ضعف میں شدید ہیں
۔اس وقت میں بغیر تعیین کے نماز پڑھنا نبی ﷺ کے عمل کی وجہ سے صحیح ہے ۔
(الضعیفہ:1/481)
خلاصہ یہ ہوا کہ مغرب کے بعد رکعات متعین کرکے کوئی نماز نہیں پڑھ سکتے
ورنہ بدعت کہلائے گی کیونکہ اس سلسلہ میں کوئی روایت صحیح نہیں ہے البتہ
بغیر تعیین کے مغرب وعشاء کے درمیان نوافل پڑھ سکتے ہیں ۔
نماز اوابین اور احناف :
احناف کے یہاں اوابین کی نماز مغرب کے بعد چھ رکعات ہیں اور جن احادیث سے
استدلال کرتے ہیں ان کا حال اوپر گزر چکا ہے کہ سبھی ضعیف ہیں اور ان میں
سے کوئی بھی نماز اوبین سے متعلق نہیں ہے ۔ بعض آثار سے پتہ چلتا ہے کہ
اوابین کی نماز مغرب وعشاء کے درمیان ہے مگر وہ بھی ضعیف ہیں مزید برآں نبی
ﷺ کی صریح احادیث کے ہوتے ہوئے ضعیف اقوال کی طرف التفات بھی نہیں کیا جائے
گا۔
(۱)محمد بن المنکدر سے روایت ہے : من صلی ما بین صلاۃِ المغربِ إلی صلاۃِ
العشاء ِ ؛ فإنہا صلاۃُ الأوابینَ۔
ترجمہ: جس نے مغرب اور عشاء کے درمیان نماز ادا کی وہ اوابین کی نماز ہے۔
اسے شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے ۔ (السلسلۃ الضعیفۃ:4617)
علامہ شوکانی نے اسے مرسل کہا ہے ۔(نیل الأوطار:3/66)
(۲)عبداﷲ بن عمر بیان کرتے ہیں : صَلَاۃُ الْأَوَّابِینَ مَا بَیْنَ أَنْ
یَلْتَفِتَ أَہْلُ الْمَغْرِبِ إلَی أَنْ یَثُوبَ إلَی الْعِشَاء ِ۔ (مصنف
ابن ابی شیبہ)
ترجمہ: اوابین کی نمازکا وقت اس وقت سے ہے جب نمازی نماز مغرب پڑھ کر فارغ
ہوں اور عشاء کا وقت آنے تک رہتا ہے۔
اس کی سند میں موسی بن عبیدہ الزبدی ضعیف ہے ۔
عبد اﷲ بن عمر سے یہ بھی مروی ہے : مَنْ صلَّی المغربَ فی جماعۃٍ ثم عقَّبَ
بعشاء ِ الآخرۃِ فہِیَ صلاۃُ الأوَّابینَ۔
ترجمہ: جس نے مغرب کی نماز جماعت سے پڑھی پھر اسے عشاء کی نماز سے ملایا
یہی اوابین کی نماز ہے ۔
ابن عدی نے کہا کہ اس میں بشر بن زاذان ضعیف راوی ہے جو ضعفاء سے روایت
کرتا ہے ۔(الکامل فی الضعفاء : 2/180)
(۳)ابن المنکدر اور ابوحازم سے تتجافی جنوبھم عن المضاجع کی تفسیر میں مغرب
وعشاء کے درمیان اوابین کی نماز ہے ۔ اسے بیہقی نے سنن میں روایت ہے اور اس
کی سند میں مشہور ضعیف راوی ابن لہیعۃ ہے جبکہ صحیح حدیث میں بغیرلفظ
اوابین کے مغرب وعشاء کے درمیان نماز پڑھنا مذکور ہے۔
(۴)ابن عباس فرماتے ہیں: الملائکۃ لتحف بالذین یصلون بین المغرب والعشاء
وہی صلاۃ الأوابین۔ (شرح السنۃ للبغوی ج 2ص439)
ترجمہ: فرشتے ان لوگوں کو گھیر لیتے ہیں جو مغرب اور عشاء کے درمیان نماز
پڑھتے ہیں اور یہ اوابین کی نماز ہے۔
(۵)بعض مفسرین نے سورہ اسراء میں وارد اوابین کے تحت بھی مغرب وعشاء کے
درمیان نماز پڑھنے والے کو ذکرکیا ہے تفسیرابن کثیر میں بھی کئی اقوال میں
ایک یہ قول ہے ۔
یہ سارے محض اقوال ہیں جبکہ صریح صحیح مرفوع روایات میں اوابین کی نماز وہی
ہے جو چاشت کی نماز ہے اور چاشت واوابین کا وقت طلوع آفتاب کے بعد سے لیکر
ظہر سے پہلے تک ہے تاہم گرمی کے وقت ادا کرنا افضل ہے بنابریں نبی ﷺ کے
ثابت شدہ فرمان کے سامنے ضعیف احادیث اور غیرمستند اقوال کی کوئی حیثیت
نہیں ہے اورتحقیق سے بس یہی ثابت ہوتا ہے کہ اوابین کی نماز چاشت کی نماز
ہے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
|