تحریر: ام محمد عبداﷲ، جہانگیرہ
عوامی مرکز اہل علم و دانش اور نوجوان طلبہ سے بھرا ہوا تھا۔ دور تک کوئی
نشست خالی نہ تھی۔ اسٹیج پر ایک بڑا بینر آویزاں تھا۔ جس پر نقش تھا
انسانیت سے پیار کریں۔ مرکز میں ایک مقرر کی آواز گونج رہی تھی، میں ہندو
کے گھر پیدا ہوا تو ہندو کہلایا۔ آپ مسلمان کے گھر پیدا ہوئے تو مسلمان
کہلائے گویا یہ فرق بس اس وجہ سے ہے کہ ہماری پیدائش اتفاقا الگ گھرانوں
میں ہوئی۔ اس فرق کی بنا پر ہم صدیوں لڑتے رہے۔ کبھی ایک دوسرے کو انسان کی
نگاہ سے نہ دیکھ سکے۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں اضافہ کا باعث بنتے ایک
دوسرے کی فلاح سے منہ موڑتے رہے۔ آج اکیسویں صدی میں آؤ اس مذہبی تفریق کو
گھروں میں مقید کر دیں۔ ہر ایک چاہے وہ جو بھی ہو اپنا مذہب اپنے گھر چھوڑ
آئے۔ گناہ و ثواب کے فلسفے اپنے کمرے میں مقید کر آئے۔
جزا و سزا کے فیصلے کل تک کے لیے موخر کر دے۔ کل کس نے دیکھی ہے؟ قیامت کا
کون شاہد ہے؟ جب ہم گھروں سے نکلیں تو ہماری ایک ہی شناخت ہو، انسان۔ ہم
انسانیت کی فلاح کے لیے کمر بستہ ہوں۔ انسان کو صحت، تعلیم اور زندگی کی
دیگر سہولیات کی فراہمی ہمارا نصب العین ہو۔ اس دھرتی کی سب سے بڑی حقیقت
انسان ہے۔ انسانوں کے مابین دنیا کا حسین ترین رشتہ انسانیت ہے بلکہ میں تو
کہتا ہوں آج کا سب سے سچا دین ہی دین انسانیت ہے۔
مقرر کی شعلہ بیانی عروج پر تھی۔ حاضرین دلچسپی سے سن رہے تھے، سلمان نے بے
چینی سے اپنی نشست پر پہلو بدلا۔ جناب! میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ وہ منتظمین
سے مخاطب ہوا۔ بھرے پنڈال میں آزادی اظہار رائے پر یقین رکھنے والے منتظم
اعلی کے ماتھے پر تیوری تو چڑھی مگر فی الوقت اس کے لیے سلمان کو انکار
کرنا ممکن نہ تھا۔ سلمان مکمل اعتماد کے ساتھ مائیک کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
پیارے انسانو! انسانیت کی فلاح کے لیے آپ کو کوئی نیا دین ایجاد کرنے کی
ضرورت نہیں۔ یہ کام آج سے چودہ سو برس پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ ضرورت اس
امر کی ہے کہ اسے مکمل طور پر اپنی زندگیوں میں نافذ کیا جائے۔ جناب والا!
انسانیت کے نام پر کیا جانے والا کوئی بھی فلاحی کام استقامت نہیں دکھا
پائے گا۔ آپ کو ثابت قدم رہنے کے لیے اس کے ساتھ کوئی نفع جوڑنا ہو گا۔ آپ
کے نزدیک سب سے بڑی سچائی مادی زندگی ہے تو یہ نفع بھی مادی نوعیت کا ہوگا۔
یہ نفع آپ کو بے غرض نہیں رہنے دے گا۔ آپ انسانیت کے نام پر گالیاں دینے
والے کو زیادہ دیر مسکرا کر نہ دیکھ پائیں گے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ
انسان بھلائی کے بدلے بھلائی کرنے میں ہمیشہ ناقص رہا ہے۔ ہم میں سے اکثریت
ان کی ہے جن پر ہم احسان کر چکے ہیں۔
ایسے میں انسانیت کے نام پر فلاح اور بھلائی سسکتی ہے، دم توڑ دیتی ہے۔ آپ
اپنے مذاہب چار دیواری میں بند کرنا چاہیں تو شوق سے کریں لیکن اسلام صرف
چند عبادات پر مشتمل ایک مذہب ہی نہیں، ایک دین کامل ہے جو ہرشعبہ ہائے
زندگی میں مکمل رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ ایسے میں اسے میں اپنے گھر کی چار
دیواری میں بند کر دوں تو مجھے اندیشہ ہے کہ میں اپنی ذات ہی پر نہیں اقوام
عالم پر ظلم کا مرتکب ٹھہروں گا۔ آئیے میں آپ کو بتاؤں وحدت انسانی کا اصل
تصور کیا ہے؟ میرے رسول صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں۔ ’’اے لوگو!
تمہارا رب ایک اور تمہارا پروردگار ایک۔ تم سب آدم کے بیٹے ہو اور آدم مٹی
سے پیدا کیے گئے تھے۔ تم میں اﷲ کے نزدیک سب سے شرف والا وہ ہے جو سب سے
زیادہ متقی ہے‘‘۔
میرے پیارے پیغمبر صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ مسلمان بہترین ہے جس کی
زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔ پس جب میں اپنے گھر سے نکلتا
ہوں تو میں ایک بہترین مسلمان بن کر نکلتا ہوں۔ میں راستے میں ہر اجنبی و
مانوس کو مسکرا کر سلامتی کی دعا دیتا ہوں۔ میں جس رستے سے گزرتا ہوں اس کے
حقوق مجھے ذہن نشیں ہیں۔ میں رستے میں پڑی ہر تکلیف دہ شے خوش دلی سے
اٹھاتا ہوا آگے بڑھتا ہوں۔ کتنا خوش کن ہے یہ احساس ہے کہ میں نافع علم
حاصل کرنے چلا ہوں تو فرشتے میرے اکرام کو پر بچھا رہے ہیں۔
میں کسب حلال میں مصروف ہوں تو خدائے واحد کا دوست ہوں۔ میں اپنی ابدی فلاح
کے لیے عطا کردہ علم و دولت میں سے خرچ کرنے کا پابند ہوں۔ انسانیت پر
احسان چڑھانے کے لیے نہیں فقط اپنی ابدی فلاح کے لیے۔ مجھے عطا کردہ رزق
میں چاہے وہ مادی ہو یا معنوی میرے قرابت داروں، ہمسائیوں، مسافروں، قیدیوں،
یتیموں اور مسکینوں کا حق رکھا گیا ہے۔ آپ انسانیت کی بات کرتے ہیں میرے
دین کی تعلیمات میں تو پودوں اور جانوروں کی فلاح کے احکامات بھی شامل ہیں۔
سلمان بول رہا تھا اور حاضرین 2 طبقوں میں بٹتے جا رہے تھے۔ ایک وہ نام
نہاد اہل فکر جن کا میلہ سلمان لوٹ چکا تھا۔ ماتھے پر پسینہ اور دل میں
گھٹن لیے وہ نہ پائے ماندن نہ جائے رفتن کی تصویر بنے بیٹھے تھے۔ دوسرے وہ
جن کے دل قبول حق کے لیے کھلتے جا رہے تھے ۔ وہ جان گئے تھے کہ ایمان ان کی
زندگیوں کا قیمتی اثاثہ ہے جس کی حفاظت ان پر لازم ہے۔ ہر دل وہ مسلمان
بننے کی لگن محسوس کر رہا تھا جس کی زبان اور ہاتھ انسانیت کی سلامتی کے
ضامن ہیں۔ سب سمجھ رہے تھے کہ یہ دین گھروں میں مقید ہونے کے لیے نہیں کرہ
ارض میں نافذ ہونے کے لیے اتارا گیا ہے۔
|