تماشہ دیکھنے والوں میں بھی شامل تھا ۔ عامل نے ْ جن ْ کو
حاضر کر لیاتھا، جن نے عامل کو دھمکیاں دینی شروع کی تو عامل کے چہرے پر
مسکراہٹ ابھری، اس کا اعتماد بتاتا تھا کہ اس کا علم کامل ہے ، عامل نے
تماشائیوں پر نظر ڈالی اور کہا ْ خونی رشتہ دارباہر جائیںْ اور اپنے عمل
میں محو ہو گیا۔ پھر ہم نے کانپتے لہجے میں دھمکی سنی ْ اس کی جان لے لوں
گا ْ میں نے دل ہی دل میں عامل کی فراست کی داد دی جس نے ماں کو باہر نکال
دیا تھا ورنہ ْ جن ْ کی یہ دھمکی ماں کا کلیجہ ہی چیر دیتی۔
ماں کا رشتہ رحمت کا استعارہ ہے۔ پاکستان میں تحریک بحالی عدلیہ، جو عوام
نے ، چیف جسٹس افتخار چوہدری کو بحال کرانے کے لیے شروع کر رکھی تھی۔ اس
میں بیرسٹر اعتزاز احسن کی ْ ماں جیسی دھرتی ْ بہت مقبول ہوئی تھی۔ماں کا
لفظ ہی ایسا ہے کہ اس پر جوان گرم انسانی خون قربان ہو جاتا ہے۔ اور گھر کی
حفاظت کے جذبے کو جوان رکھنے کے لیے ْ دھرتی ماں ْ کا لفظ استعمال کیا جاتا
ہے۔
۱۹۷۰ کے انتخابات میں ذولفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے روٹی ، کپڑا اور
مکان کا نعرہ لگایا تو اس پر کفر کے فتووں کے باوجود عوام نے ووٹ روٹی ،
کپڑے اور مکان ہی کو دیا تھا کہ انسان کی فطری ضروریات ہیں،۔ لاہور والے
واصف علی واصف سے کسی نے گلہ کیا تھا کہ لوگ خدا سے زیادہ بھوک سے ڈرتے ہیں
تو جواب آیا تھا پہلے بھوک ہی ختم کر لو۔
جب بھٹو نے دوبارہ الیکشن جیت لیا تو پاکستان میں ْ مقتدرہ ْ کو ْ جنْ نے
گھیر لیا کہ یہ تو مطلق العنانی کی طرف جا رہا ہے۔ عامل جو آیا کتاب اس کی
بغل میں تھی۔سایہ اتارنے میں دس سال لگ گئے ۔ مگر معاشرہ ایسا تقسیم ہوا کہ
ہر مرض نظر آتی بیماری کا علاج کلاشنکوف کی گولی سے ہونا معمول بن
گیا۔فتوئے عام ہو گئے اور مسلمانوں میں ڈہونڈ ڈہونڈ کر کافروں کو علیحدہ
کیا گیا۔اور عوام کے ذہن میں راسخ کیا گیا کہ کوڑے کا استعمال ہی اصل دین
ہے ۔
اندازہ لگایا گیا کہ سایہ ختم ہو گیا ہے لہذبھٹو کی بیٹی کووزیر اعظم تو
بنا دیا گیا مگر پتہ چلا انھوں نے خالصتان بنانے والے سکھو ں کی فہرستیں
انڈیا کے حوالے کی ہیں۔ اس کی پاکستان سے وابستگی پر طنز کرنے والوں نے اسے
اپنے باپ کی چنیدہ اس جگہ کا دورہ کرنے سے روک دیا جہاں ذولفقار علی بھٹو
نے ایٹمی پاکستان کی پہلی اینٹ رکھی تھی ۔ البتہ اس کی شہادت کے بعد معلوم
ہوا کہ پاکستان کے میزائلی دفاع کی مضبوطی میں اس کا کردارکتنا منفرد اور
قابل تحسین تھا۔
بے نظیر اور نواز شریف کی جمہوری حکومتوں مضبوط ہوتا دیکھ کر پھر ْ مقتدرہ
ْ کو ْ جنْ نے گھیر لیا۔ اس بار عامل ایسا لبرل تھا کہ کتے بغل میں دبا کر
بلندیوں سے نازل ہوا۔مگر ہم نے دیکھا کہ پاکستان کے شہر راولپنڈی ، جہاں
ہماری بہادر اور قابل فخر افواج کا ہیڈ کوارٹر ہے وہاں بھی ہمارے بیٹے فوجی
وردی پہن کر باہر نہیں نکل سکتے تھے۔ شہریوں کو ڈالروں کے عوض بیچنا قابل
فخر عمل ٹھہرا۔ ہر وہ کام جس کے عوض ڈالر مل سکتے تھے کیا گیااورمعترضوں کو
افواج پاکستان کا دشمن بتایا گیا۔ اپنے محسنوں کو بے عزت کرنا ہمارا شیوہ
بن گیا۔ جب ہم ڈاکٹر عبد القدیر خان جیسے شخص کو ٹی وی پر لا رہے تھے ۔
دراصل یہ ہمارے دلوں کی سختی کا اظہار تھا۔ ارادے مضبوط ہونے اور دل سخت
ہونے کافرق کوئی لاپتہ افراد کے لواحقین سے بے شک نہ پوچھے عافیہ صدیقی کی
بہن ہی سے پوچھ لے۔عاصمہ جہانگیر مرحومہ جب عافیہ کے بیٹے کے دفاع میں آمر
کے سامنے کھڑی ہوئی تو ہمیں معلوم ہوا وہ عورت بے دین، فوج کی دشمن اور
بھارت کی ایجنٹ تھی۔ ہمارے بیانئے ایسے ہی تراشے جاتے ہیں اور توقع کی جاتی
ہے کہ ان پر دل کی گہرائیوں سے ایمان بھی لایا جائے۔اور ایمان لایا جاتا
رہا ہے۔
جب عوام نے آصف زرداری کو اعتماد بخشا تو ان کے وزیر اعظم کو خط نہ لکھنے
پر بے عزت کر کے گھر بھیج دیا۔ ۔البتہ دوسرے شریف اور کارکن راجہ پرویز کو
راجہ رینٹل کا خطاب عطا کر دیا گیا۔ نواز شریف کو عوام نے اکثریت سے منتخب
کیا۔ الیکشن سے چھ ماہ قبل تمام اعشاریے بتا رہے تھے کہ یہ دوبارہ مقبولیت
حاصل کرے گا ۔ ایک بار ظالم ْ جن ْ پھر سایہ بن کر نازل ہوا۔ تین سوارب کی
کرپشن تو عدالت میں ثابت نہ ہو سکی ۔ البتہ پتہ چلا پاکستان میں مودی کا
یار وہی تو ہے، وطن کا غدار بھی ہے، اور پاکستان کی ۷۰ سال میں سے ۴۰ سال
کی محرومیوں کا ذمہ دار وہی ہے۔ اور یہ کہ عوام نے اسے مسترد کر دیا ہے۔
عوام البتہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں یہ مسترد کنندگان کہا ں بستے ہیں۔ ۳۰۰
۱ سو مبلغین کی وعظ پر یقین کرنے کرنے کے لیے جب عوم تیار ہی نہیں تو ان کو
مومن کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
کرپشن کا شور ذولفقار علی بھٹو کے وقت میں بھی اٹھایا گیا تھا۔ ریلوے کی
وزارت کرپشن کا گڑھ بتائی گئی اور ایک کارکن خورشید حسن میر جو وزیر ریلوے
تھا پر الزام لگایا گیا کہ اس نے پورا انجن غائب کر دیا ہے ۔مگر رات گٗی
بات گئی۔ آصف زرداری نام کا شخص جس نے وزیر اعظم ہاوس میں ایسے گھوڑے پال
رکھے تھے جو صبح جام کھا کر دن کی ابتداء کرتے تھے اور رات کو بادام کھا کر
سوتے تھے۔ مگر سورج غروب ہو کر چڑہا تو یہ داستان بھی بھلا دی گئی۔نواز
شریف پر تین سو ارب کی کرپشن عدالت میں ثابت نہ ہو سکی تو پنامہ اور اقامہ
کو گڈ مڈ کر کے داد طلب کی جاتی ہے۔ |