آنرایبل استاد کا استحقاق مجروح کیوں ؟

اساتذہ کی تذلیل و تحقیر کا جو سلسلہ گزشتہ کچھ عرصے سے چلنے لگا ہے اس میں کمی کے بجائے اضافہ ہی دیکھنے کو ملا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انہی اساتذہ سے پڑھ کر بیوروکریسی کی کرسیوں پر بیٹھنے والے لوگ اپنے انہی اساتذہ کی تذلیل کرتے ہیں۔ ان کے خلاف ببانگ دہل پالیسیاں بناتے ہیں۔ قوانین لاگو کرتے ہیں۔جس نے انہیں تعمیرکیاان کی عمارت کھڑی کی اسی کی بنیاد ہلا دیتے ہیں۔اکثر معلوم پڑتا ہے کہیں بروقت چھٹی نہ ملنے پہ کوئی آن ڈیوٹی جاں بحق ہوگیا کسی کا بچہ خالق حقیقی سے جا ملا تو کسی کی بیوی، کسی کی ماں اور کسی کا باپ،غرض کوئی بھی رشتہ۔ ٹھیک ہے یہ بات ماننے میں آتی ہے کہ ہر ادارے کے کچھ اصول و ضوابط ہیں اور ان پر عمل پیراہونا ہر ملازم کی ذمہ داری۔ اتفاقیہ رخصت کا قانون ہر جگہ موجود ہے اور ہر جگہ یہی ہے کہ کہیں کسی ایمرجنسی کی صورت میں آپ سربراہ ادارہ کو بتائیں۔کوئی بھی ناگہانی آفت خدانخواستہ پوچھ کر یا بتا کر تو نہیں آتی۔حکومتی حکام ذرا یہ بتائیں کہ کبھی ان کے گھروں میں آفات یا پریشانی ان کو پہلے سے بتا کے آتی ہے؟؟؟۔کچھ دن پہلے کسی افسر کا لاگ بک پہ لکھا ہوا انتہائی بے وقوفانہ تبصرہ نظر سے گزرا۔محترم/محترمہ نے لکھا کہ گاؤں والوں کو پابند کیا جائے کہ ایم ای اے کے آنے سے پہلے کوئی شادی کی تاریخ نہ رکھے۔اب بندہ اس عقل کل ذی روح سے پوچھے کہ آپ عزرائیل کو پابند کر لیں کہ وہ ایم ای اے کے وزٹ سے پہلے کسی کی روح قبض کرنے بھی نہ آئے۔اور یہ ایم اے ای نہ جانے اتنے زمینی خداؤں کا روپ کیوں دھار لیتے ہیں۔حکومتی حکام کا کہنا ہے کہ اتفاقیہ رخصت سے بچوں کی پڑھائی کا حرج ہوتا ہے تو حکام بالا ذرا ایک نظر ادھر بھی، جب اساتذہ کو یو پی ٹارگٹ کے لیے گلی گلی گھر گھر خواری کے لیے بھیجا جاتا ہے تب بچوں کو کونسی خلائی مخلوق آ کر پڑھاتی ہے؟؟؟حالانکہ یہ سراسر ایک استاد کی تحقیر ہے کہ وہ گھر گھر جائے بچوں کو سکول بلائے دفتروں میں یہ مواد مہیا کرے کہ کس علاقے میں کس گھر میں کتنے بچے ہیں۔حکام اعلی آپ کی سروے ٹیمز مر گئی ہیں ؟؟؟؟ یونیسف،یونیسکو اور دوسری تنظیمیں جن سے اربوں کا فنڈ بھیک میں ملتا ہے آپ کو وہ کیا کسی قرضے کو اتارنے میں استعمال کیا جاتا ہے؟؟؟ اگر ایسا ہے تو پھر قرض کی شرح بڑھی کیوں؟؟؟۔ جب پولیو ڈیوٹیز، الیکشن ڈیوٹیز،مردم شماری اور دیگر کئی اقسام کی ڈیوٹیز کے لیے اساتذہ کو جبری طور پر بھیجا جاتا ہے تب کیا بچوں کے فوکس کا ٹارگٹ کہیں دفن ہوجاتا ہے یا اسکا وجود ہی مٹ جاتا ہے؟؟؟جناب عالیٰ! آئیے ذرا ایک نظر زمینی حقائق پہ بھی ڈالیے۔مغرب کے سہولیاتی ماحول سے پی ایچ ڈیز کی ڈگریاں لے کر آنیوالے جب وزارت کے عہدوں پر آ کر بیٹھتے ہیں تو وہ پاکستان کے زمینی حقائق کو فراموش کر دیتے ہیں مغرب کی ماحول دوست پالیسیاں بناتے ہوئے کیا آپ یہ مدنظر رکھتے ہیں کہ یہ مغرب نہیں مشرق کا افلاس زدہ علاقہ ہے جہاں اکثریت افلاس کی لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کررہی ہے جہاں دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو وہاں والدین بچے کو تعلیم دلانے کا کیسے سوچیں؟؟؟ اساتذہ سے سو فیصد داخلے کے طلبگارو:
وہ جس کا ایک ہی بیٹا ہو بھوکا آٹھ پہروں سے
بتاؤ اہل دانش تم وہ گندم لے یا تختی لے۔

نہ جانے کیوں ہمارے یہ مغرب زدہ لوگ بھول گئے ہیں کہ مغرب کا تعلیمی نظام کن کی قدروں پہ پل کر اتنا ترقی یافتہ ہو گیا۔کچھ ماہ قبل سابق سیکرٹری تعلیم محترم ڈاکٹر اﷲ بخش ملک کا جاری کردہ ایک مراسلہ تھا کہ استاد کے نام کے ساتھ عزت مآب(آنرایبل) کا لفظ لکھا جائے تو سوال یہ ہے جناب کیا عزت مآب کا لفظ لکھ دینے سے استاد کی کی ہوئی تحقیر کا ازالہ ہو جائے گا۔؟؟؟اساتذہ کی کھوئی ہوئی عزت بحال ہو جائے گی؟؟؟مار نہیں پیار کے نعرے سے جو آپ نے جزا وسزا کا تصور ختم کرکے طلبہ کے دل سے اساتذہ کی تکریم کے جذبے کا جو خاتمہ کردیا ہے کیا آپ وہ بحال کر سکیں گے؟؟؟یہ سچ ہے کہ معماران قوم مسمار وقت کی زد میں ہیں۔
میری یہ نظم
معلمین وقت کے نام۔
معمارقوم ہیں ہم لیکن
مسماروقت کی زد میں ہیں
اے بھولے بھالے استادو
تم کس سے عزت مانگتے ہو؟
کس سے تکریم کے طالب ہو؟
جو ناواقف تکریم سے ہیں
جو خودتعظیم کے معنی کو
گر لغت اٹھائیں تو جانیں
اے ہم نفسان سوختہ جاں!
یہ عہد رشید نہیں جس میں
ہارون کے بچے جوتوں پہ
استاد کی لڑتے دکھتے ہوں
نہ روم کا ہے ایوان کوئی
جہاں ایک معلم کو پا کر
تعظیم کی خاطر خود منصف
ایوان عدل میں جھکتے ہوں
اس ملک کے حاکم کے بچے
مامون نہیں امین نہیں
اس وقت کے منصف کے دل میں
تعظیم نہیں تکریم نہیں
یہاں بیچ چوراہوں میں اکثر
استاد کی عزت لٹتی ہے
یہاں ڈانٹ ڈپٹ کے بدلے میں
سینے میں گولی اترتی ہے،
یہاں ایک وڈیرے کے ہاتھوں
جب ایک معلم پٹتا ہے
ایوان عدل کی کرسی پر
انصاف ٹکوں میں بکتا ہے
اس وقت کے منصف سے ہم تم
تعظیم کے طالب کیونکر ہیں
جہاں ظلم کی پشت پناہی ہو
مظلوم کا کوئی نہ حامی ہو
اس وقت کے حاکم سے ہم تم
تکریم کے طالب کیونکر ہیں
معمار قوم یہاں فی الوقت
مسمار وقت کی زد میں ہیں

Tasneem Sehar
About the Author: Tasneem Sehar Read More Articles by Tasneem Sehar: 9 Articles with 6627 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.