بچپن سے پڑھتے آ رہے ہیں کہ اﷲ جسے چاہے عزت دے اور جسے
چاہے ذلت دے بے شک عزتوں اور ذلتوں کا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے ،کمپیوٹر
اور انٹر نیٹ نے جہاں ایک طرف دنیا کو گلوبل ولیج بنا دیا وہیں اگر کوئی
چاہے تو اس پر موجود دنیا جہا ں کا علم اور تحقیق سے اپنے دل و دماغ کو
روشن بھی کر سکتا ہے ،بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح مجھے بھی اس کی ایسی لت
لگی کہ ظالم چھوٹتی ہی نہیں کے مصداق ذرا سا بھی وقت ملے تو میں اسے کھول
کے بیٹھ جاتا ہوں گذشتہ روز انتہائی خوش الحان قاری نورین محمد صادق کی
خوبصورت آواز میں تلاوت سن رہا تھ اکہ ساتھ مختلف ونڈوز میں مختلف اسلامی
پوسٹ بلنک ہونا شروع ہو گئیں جو کہ عموماً کود بخود آجاتی ہیں ،تلاوت کے
بعد ایک تفسیر کی ونڈو کو کلک کیا تو یہی آیت سامنے آئی جس کا مطلب ہمارے
ہاں یہی لیا جاتا ہے کہ اﷲ جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے،جب تفصیل
دیکھی تو تقریبا ً ہر مترجم نے یہی مطلب لکھا تھا جو کہ یقیناً ٹھیک بھی ہے
جب مزید تلاش کیا تو اسی آیت کا ترجمہ ایک مصری عالم نے یو ں کر رکھا تھا
کہ جو چاہے اﷲ اسے عزت دیتا ہے اور جو چاہے اﷲ اسے ذلت دیتا ہے گویا عزت
ذلت کا اختیار اﷲ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے مگر دیتا اسی کو ہے کہ جو عزت
یا ذلت لینا چاہتا ہے،یقین کریں بچپن سے یہی سنا اور پڑھا تھا مگر یہ تفسیر
پڑھ کر اس آیت کا مکمل مفہوم سمجھ آگیا کہ قرآن جو بلا شک و شبہ ہر نقص و
عیب سے پاک ہے مکمل آئین اور دستور کے ساتھ ساتھ ظابطہ حیات بھی ہے کی صرف
یہ ایک آیت ہی اپنے اندر حیرتوں کے جہان لیے ہوئے ہے آپ صرف اسی آیت کے
ترجمے پر غور کرنا شروع کر دیں تو دنیا میں ہر ترقی تنزلی عزت ذلت اور
بلندی پستی کی حقیقت آپ کے سامنے کھلتی چلی جائے گی،بہت سے ایسے لوگ اپنے آ
س پاس نظر آئیں گے کہ جو نہایت ہی کم وقت اور زندگی میں ہیرو سے زیر و بن
گئے اور جو کچھ نہ تھے وہ آن واحد میں ہیرو بلکہ کئی ایک ہیروز کے بھی ہیرو
اور ول ماڈل بن گئے،ایسا ہی کچھ اپنے ہاں تلہ گنگ میں بھی ہوا ،جی ہاں میری
مراد حافظ عمار یاسر سے ہے،الیکشن سے دو تین ماہ قبل جب انتخابات اور ووٹ
کا غلغلہ بلند ہوا اور شور مچتے ہی جب پرانے کھلاڑیوں نے لنگوٹ کسنا شروع
کیے تو میں نے ایک عدد کالم لکھ مارا کہ :حافظ عمار یاسر میں کیا برائی
ہے:میں نے عرض کی کیا یہ پرانے بابے اوپر سے لکھوا کے لائے ہیں کہ انہوں نے
ہی ہمارا حکمران بننا ہے کیا ہی اچھا ہو کہ حافظ صاحب اب کی بار خود میدان
میں آئیں بہتر حکمت عملی اپنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اسمبلی میں نہ
پہنچ سکیں ضرورت صرف بروقت ٹھیک ٹھیک اور ناپ تول کر قدم اٹھا کر آگے بڑھنے
کی ہے،کالم چکوالین، روزنامہ نوائے وقت اور ڈیلی اسلام میں شائع ہوا ،چار
دن بعد حافظ صاحب کی شکریے کی کال آگئی کہ آپ دوست راہنمائی کرتے رہیں ہم
عوام کی توقعات پر پورا اتریں گے،میں نے بھی حافظ صاحب کے لیے نیک تمناؤں
کا اظہار کیا اور بات آئی گئی ہو گئی ،الیکشن کا باقاعدہ اعلان ہو ا تو پتہ
لگا کہ حافظ صاحب نے اپنے ممدوح چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ خود بھی میدان
میں اترنے کا فیصلہ کر لیا ہے،حافظ صاحب کا خود میدان میں اترنا تلہ گنگ کے
لوگوں کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوا اور لوگوں کو لگا کہ جب ان میں
سے ان جیسا شخص اقتدار کے ایوانوں میں پہنچے گا تو یقیناً ا ن کے مسئلے
مسائل کا بہتر انداز میں ادراک کر سکے گا،لوگوں نے ہر جگہ انہیں ویلکم کیا
اور ہاتھوں ہاتھ لیا ،حافظ عمار یاسر نے نہایت ہی عمدہ حکمت عملی سے اپنی
الیکشن کمپین چلائی ،یہ حافظ صاحب کی ہی شاندار حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ
تبدیلی تبدیلی کرتی پی ٹی آئی کو بھی حافظ عمار یاسر کے در دولت پہ نہ صرف
حاضری دینا پڑی بلکہ ان کے ساتھ باقاعدہ الائنس کر کے ان کے پیچھے چلنے کی
حامی بھی بھر لی گئی،تبدیلی والے اس سے قبل حافظ صاحب کے لیڈر کے بارے میں
نہایت ہی سخت لہجہ استعمال کرتے تھے مگر مسلم لیگ ق کی جارحانہ انٹری نے نہ
صرف وہ لب و لہجہ تبدیل کروا دیا بلکہ اہم ترین صوبے میں اہم ترین سیٹو ں
پر اپنا قبضہ بھی پکا کر لیا،پور ے ملک میں لوگ پی ٹی آئی کے پیچھے بھاگتے
پھر رہے ہیں او ر یہاں پر ہی ٹی آئی حافظ عمار یاسر کے ڈیرے کا طواف کرتی
نظر پھررہی ہے،نہ صر ف پی ٹی آئی بلکہ تمام بڑے سیاسی پردھان بھی اس وقت
حافظ صاحب سے ملاقات کے مشتاق رہتے ہیں اور تو اور ن لیگ کے بھی بہت سے
لیڈر منافقانہ چلن اپنائے ہوئے اندر ہی اندر حافظ صاحب سے نیاز مندی کے
خواہشمند ہیں جبکہ کچھ بھگوڑے اور لوٹے تو اب باقاعدہ ق لیگ کے راتب پرپل
رہے ہیں ،میں نے کبھی بھی ق لیگ کو ووٹ نہیں دیا نہ ہی کبھی حافظ عمار یاسر
یا ان کے کسی عزیز سے حالیہ سابقہ الیکشن میں ملاقات کی اور تو اور صحافی
ہونے کے باوجود فاصلے پر رہا کہ مبادا ہم پہ بھی مال پانی کا لیبل نہ لگ
جائے ،حافظ صاحب اور حاجی عمر حبیب سے بہت اچھا تعلق ہونے کے باوجود کبھی
بھی ان سے ایک روپے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی نہ آئندہ کوئی ایسا ارادہ
ہے ہم نے تو چکوال کے صحافیوں کی اے ٹی ایم ذوالفقار دلہہ کو اقتدار کے عین
شباب کے دنوں میں جب موصوف ن لیگ کے ایم پی اے تھے چھوڑ دیا تھاتاہم صحافت
کا بنیادی تقاضہ یہی ہے کہ جس کا جو کریڈٹ بنتا ہے اسے دیا جائے
،سردارآفتاب اکبر ،چوہدری حیدر سلطان،یاسر سرفراز راجہ،ملک تنویر اسلم
،کرنل سلطان سرخرواعوان،طارق اسلم ڈھلی،سردار ممتاز ٹمن سمیت بہت سے
سیاستدانوں سے تعلق اپنی جگہ مگر اس وقت اگر چکوال کی سیاست کا مرکز کہیں
ہے تو وہ حافظ عمار یاسر کا ڈیرہ ہے ،حافظ صاحب نے بلاشبہ اﷲ سے عزت مانگی
اور اﷲ نے انہیں بے پناہ عزت سے نواز دیا مگر ان کا اصل امتحان اب شروع ہوا
ہے ، مولا علی ؓ کا قول ہے کہ سب سے بڑی مالداری عقلمندی ہے یعنی مال سے
زیادہ کام آنیوالی چیز عقل و سمجھ ہے جس کا اب تک حافظ صاحب بھرپور مظاہرہ
کر تے آ رہے ہیں تبلیغی جماعت کی بس کو ڈھوک پٹھان کے مقام پر حادثہ ہو یا
دیگر ضروت مندوں کی مدد حافظ صاحب بہت اعلیٰ عملی اخلاقیات کا مظاہر کرتے آ
رہے ہیں آگے فرمایا گیا کہ سب سے بڑی فقیری حماقت اور بے وقوفی ہوتی ہے، جس
سے ہم نے ہر بار دور رہنے کا مشورہ دیا سب سے زیادہ بڑائی مال و دولت کی
فراوانی نہیں بلکہ اچھے اخلاق ہیں اور بے وقو ف کی دوستی سے ہمیشہ بچنا بھی
عقلمندی ہے کیوں کہ وہ بظاہر فائدہ پہنچاتے پہنچاتے آپ کا بے پناہ نقصان کر
دیتا ہے ایک اور جگہ حضر ت علی کرم اﷲ وجہہ کا ہی فرمان ہے کہ جھوٹے کی
دوستی سے ہمیشہ بچنا کہ وہ آپ کے دوستوں کو آپ سے دور اور دشمنوں کو قریب
کر دیتا ہے، ابن الوقت لوگ ڈیرہ حافظ کے آس پاس منڈلانا شروع ہو گئے ہیں ان
سے بھی خبردار رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ لوگوں نے جن سے نجات کے لیے آپ کو
وٹ دیا کہیں ایسا نہ ہو کہ جب لوگ آپ کے پاس آئیں تو آگے سے پھر انہیں انہی
دھتکارے ہوئے لوگوں کا سامنا کرنا پڑے،حافظ عمار یاسرنے جس محنت لگن اور
بہترین کارکردگی کی وجہ سے نہایت کم وقت میں سیاست میں جو مقام پیدا کر لیا
ہے وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آتا ہے،کیوں کہ لوگ کسی نہ کسی طرح اقتدار
کے ایوانوں میں تو گھس جاتے ہیں مگر عزت کا وہ معیار حاصل نہیں کر پاتے جو
حافظ عمار یاسر کو ملا ہے،بطاہر ایک انتہائی عام شخص جو کسی سردار جاگیردار
کی بجائے ایک عام سے انسان کا بیٹا ہے کبھی تنہائی میں سوچتا ضرور ہو گا کہ
جن سرداروں کی مارکیٹوں میں ایک دکان تک خریدناتو دور کی بات فقط کرائے پر
حاصل کرنا جوئے شیرلانے کے مترادف تھی آج وہ لوگ ہمہ وقت اذن باریابی کے
منتظر رہتے ہیں،مگر دھیان رکھیے گا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سوچ تکبر کی
طرف پروان کرنا شروع کر دے کیوں کہ حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ اﷲ کے
رسول ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز کچھ لوگ چونیٹوں کی شکل میں اٹھائے جائیں
گے اور لوگ ان کو روند کر گذر رہے ہوں گے ،پوچھا جاے گا کہ یہ کون ہیں تو
جواب ملے گا یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں تکبر کرتے تھے اور اپنے جیسے
انسانوں کو حقیر جانتے تھے،اﷲ نے حافظ عمار یاسر کو اس وقت مال و دولت کے
ساتھ ساتھ اختیار ،طاقت اقتدار اور بے پناہ عزت سے نواز دیا ہے جسے
سنبھالنا ان کی ذمہ داری ہے یہ ذمہ داری وہ کیسے پوری کرتے ہیں یہ ان پہ
منحصر ہے،اﷲ کی اس عطا سے وہ چاہیں تو اپنے آپ کو مزید نکھا ر لیں حافظ
صاحب اب آپ کا ہر عمل حضرت علیؓ کے اس قول میں تولا اور دیکھا جائے گا کہ
،اقتدار ،طاقت اور دولت ملنے پر لوگ بدلتے نہیں بلکہ بے نقاب ہو تے ہیں
،،،،،اﷲ آپ کا حامی و ناصر ہو ۔
|