ذوالفقارعلی بھٹو نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ
لگایاتو قوم نے دیدہ ودل فرشِ راہ کیے لیکن حصولِ اقتدار کے باوجود یہ
ادھورا نعرہ کبھی پورا نہ ہوسکا۔آصف زرداری نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کہا تو قوم
نے بغلیں بجائیں کہ ایک اچھا رَہنما مل گیالیکن اپنے دَورِاقتدار میں انہوں
نے پوری قوم کو ’’کھپا‘‘ کے رکھ دیا۔ مشرف ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا اعلان
کرتے ہوئے مسندِاقتدار پر براجماں ہوا۔ اُس نے اپنا کہا سچ کر دکھایا اور
سب سے پہلے پاکستان اور پاکستانیوں کا امریکہ کے ساتھ سودا کر ڈالا۔ پھر 30
اکتوبر 2011ء کو مینارِپاکستان کے سائے تلے تبدیلی کی ایک لہر اُٹھی اور
2018ء میں تبدیلی کا سونامی پورے ملک پر چھا گیا۔ تحریکِ انصاف کا تبدیلی
پروگرام بھٹو کے نعرے کا چربہ ہی ہے۔ بھٹو کا وعدہ ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘
تھا جبکہ تحریکِ انصاف بے روزگاروں کو ایک کروڑ نوکریاں اور بے گھر وں کو
پچاس لاکھ گھر دینے جا رہی ہے۔ کپتان کے مطابق بے روزگاروں کو 60 لاکھ
ملازمتیں تو 50 لاکھ گھر بنانے میں ہی مل جائیں گی۔ سوال مگر یہ کہ جو
حکومت آئی ایم ایف سے تاریخ ِ پاکستان کا سب سے بڑا قرض (12 ارب ڈالر) لینے
کی تگ ودَو میں ہے وہ50 لاکھ گھر وں کی تعمیر کے لیے 180 ارب ڈالر کہاں سے
لائے گی؟۔ شاید حکومت کو نہیں معلوم کہ پاکستان کے شہروں میں کل 49 لاکھ 54
ہزار 215 پکّے مکانات ہیں۔ کیا 50 لاکھ نئے گھر بنا کر حکومت ’’نیاپاکستان‘‘
بنانے جا رہی ہے۔ بسم اﷲ، ضرور بنائیں لیکن آپ کے وفاقی وزیر برائے ہاؤسنگ
طارق بشیرچیمہ نے تو ابھی سے ہاتھ کھڑے کر دیئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 50
لاکھ گھر بنانا مشکل ہے۔ انویسٹرز اورڈویلپرز سے حکومت کوئی اُمید نہ رکھے
کہ آشیانہ ہاؤسنگ سکیم کا حشر دیکھ کر وہ کانوں کو ہاتھ لگا چکے ۔
کپتان کہا کرتے تھے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے بہتر ہے کہ بندہ خود کشی
کر لے لیکن اب کہتے ہیں ’’گھبرائیں نہیں، حوصلہ رکھیں، قوموں کی زندگی میں
اونچ نیچ آتی رہتی ہے، اِن حالات سے میں ہی نکالوں گا۔ آئی ایم ایف کے پاس
جانے سے قیامت نہیں آگئی‘‘۔ جی ہاں! سرمایہ داروں کے لیے تو واقعی قیامت
نہیں لیکن آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بعد ’’مہنگائی کے طوفان‘‘ میں
مجبورومقہور پِس کر رہ جائے گا۔ اگر اِسی کا نام تبدیلی ہے تو پھر ایسی
تبدیلیاں دھڑادھڑ آتی رہیں گی۔
’’ تبدیلی‘‘ کے پہلے پچاس دنوں میں ہی سونامیوں کو ’’آٹے دال کا بھاؤ‘‘
معلوم ہو چکا۔ بجلی، گیس، سی این جی، ایل پی جی، آٹا، دال، چاول، سبزی، سب
کچھ اتنا مہنگا کہ بھاؤ پوچھتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے۔ ڈالرنے یکلخت 9 روپے
کی اُڑان بھری، جس سے پاکستان کے قرضے 900 ارب روپے بڑھ گئے، سونا اپنی
بلندترین سطح (62 ہزار روپے تولہ) پر پہنچ گیا۔ 50 دنوں میں اسٹاک
مارکیٹ5000 پوائنٹ گِر گئی اور انویسٹرز کے اربوں ڈوب گئے۔ شاید اِسی لیے
تحریکِ انصاف کے زبردست حامی ، معروف صحافی ارشادبھٹی کو بھی اپنے کالم میں
لکھنا پڑا ’’کیا کہا جائے 50 روزہ حکومت ایسی کہ صبح فیصلہ ہوا، شام کو
واپس۔ معیشت سنبھل نہیں رہی، زبانوں بیانوں پر کنٹرول نہیں۔ حالت یہ کہ
خواب ہے تعبیر نہیں، قول ہے فعل نہیں، کھوپڑیاں ہیں مغض نہیں، حرکت ہے برکت
نہیں‘‘۔ بھٹی صاحب! یہی تو وہ ’’تبدیلی‘‘ ہے جس کی چاہ میں آپ دِن رات
نوازلیگ کو ’’رَگڑا‘‘ دیتے رہے۔
یہ بھی تو تبدیلی ہی ہے کہ ’’چور مچائے شور‘‘ ۔ وزیرِاعظم کہتے ہیں کہ چور
کو چور اور ڈاکو کو ڈاکو نہ کہیں تو اور کیا کہیں۔ یہی جملہ فوادچودھری دِن
میں کم از کم 10 مرتبہ دہراتے ہیں۔ سوال مگر یہ کہ اِس وقت چوروں اور
ڈاکوؤں کی آماجگاہ کون سی سیاسی جماعت ہے؟۔ سارے چوروں اور ڈاکوؤں کو تو
کپتان کی ’’مقناطیسی کشش‘‘ تحریکِ انصاف میں کھینچ لائی۔ موجودہ تحریکِ
انصاف تو بھان متی کا کنبہ ہے جس میں نوازلیگ، پیپلزپارٹی اور قاف لیگ کے
لوٹوں کی بھرمار ہے۔ خود آمر پرویزمشرف کی گود کے پالے ہوئے فوادچودھری بھی
پیپلزپارٹی سے ہوتے ہوئے تحریکِ انصاف میں وارد ہوئے ہیں۔ ہمیں تو چیئرمین
تحریکِ انصاف اور موجودہ وزیرِاعظم عمران خاں کے علاوہ پرانی تحریکِ انصاف
کے بس چند لوگ ہی نظر آتے ہیں۔ اگر پیپلزپارٹی اور نوازلیگ میں چورڈاکو
بیٹھے ہیں تو سونامیوں کو مبارک ہو کہ یہ ’’الزام‘‘ اُن پر بھی آتا ہے۔
حکومت ملنے کے بعد زبانیں گز، گز بھر کی ہوچکیں حالانکہ خیال یہی تھا کہ
تحریکِ انصاف کا لہجہ نرم ہوجائے گا لیکن وہ تو ابھی تک اپوزیشن کے نَشے سے
باہر نہیں نکلی۔ کپتان کا لہجہ ایسا کہ جیسے وہ ابھی تک ڈی چوک اسلام آباد
میں کنٹینر پر کھڑے ہوں، فوادچودھری لال حویلی والے شیخ رشید کی سیٹ
سنبھالے ہوئے۔ مغرورومتکبر فوادچودھری نے کہا ’’بیوروکریسی پر منتخب
نمائندوں کا احترام لازم ہے۔ کوئی ایم این اے یا ایم پی اے آپ کو فون کرے
اور جواباََ آپ اُن کو فون نہ کریں، ایسا نہیں ہو سکتا۔ جو بیوروکریٹ ہماری
پالیس پر نہیں چلے گا، گھر جائے گا‘‘۔ بجا کہ بیوروکریسی پر منتخب نمائندوں
کا احترام لازم، شرط مگر یہ کہ منتخب نمائندے آئین وقانون کے دائرے میں
رہیں۔ فوادچودھری کو شاید یاد نہیں کہ کپتان دھرنے کے دنوں میں کنٹینر پر
کھڑے ہو کر اِسی بیوروکریسی کو نوازلیگ کی حکومت کے احکامات ماننے سے انکار
کرنے کی نہ صرف تلقین کرتے بلکہ دھمکیاں بھی دیتے رہتے تھے۔بیوروکریسی اُن
کے غیرقانونی احکامات کیسے مان لے کہ پاکپتن کے ڈی پی او رضوان گوندل کے
تبادلے کا معاملہ سب کے سامنے جس میں بابا رحمت نے وزیرِاعلیٰ پنجاب عثمان
بزدار، آئی جی پنجاب اور احسن جمیل گجر کی خوب ’’کلاس‘‘ لی اور اُن تینوں
نے تحریری معافی کے بعد اپنی جان چھڑائی۔ نئے آئی جی پنجاب کا تبادلہ
الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخاب تک منسوخ کر دیا۔ اِن حالات میں فوادچودھری کی
’’تَڑیوں‘‘ کا بیوروکریسی پر کچھ اثر نہیں ہونے والا۔ ویسے بھی فوادچودھری
کی نوکری ’’کچی‘‘ اور بیوروکریٹس کی ’’پکّی‘‘۔ تحریکِ انصاف کی ’’چاردِن کی
چاندنی‘‘ جبکہ بیوروکریٹس سدابہار۔ اِس لیے ذرا بچ بچا کے۔
ایک تبدیلی یہ بھی کہ عمران خاں کی چیئرمین نیب سے ملاقات کے بعد نیب میں
’’بجلیاں‘‘ بھر گئیں، پکڑ دھکڑ کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ رُکنے کا نام ہی
نہیں لیتا۔ ڈی جی نیب لاہور جس پر خود جعلی ڈگری کا کیس ہے، نے سابق وی سی
پنجاب یونیورسٹی اور 6 اساتذہ کو گرفتار کرنے کا حکم دیا جنہیں بعد ازاں
ہتھکڑیاں لگا کر احتساب عدالت میں پیش کیا گیا جس سے پوری قوم کے سر شرم سے
جھک گئے۔ وی سی اور 6 اساتذہ ’’ملزم‘‘ ہیں ’’مجرم‘‘ نہیں۔ اُن کے ساتھ ایسا
توہین آمیز سلوک کرنے والے ڈی جی نیب کو شاید علم نہیں کہ دینِ مبیں میں
اُستاد کو ’’روحانی باپ‘‘ کا درجہ دیا گیا ہے۔ جو شخص اپنے روحانی باپ کو
ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیتا ہے، کیا وہ اِس عہدے پر
رہنے کے قابل ہے؟۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثارصاحب نے اَزخودنوٹس لے لیا ہے،
اُن سے بہتر فیصلے کی اُمید ہے۔ اَزخودنوٹس کے بعد خوابِ خرگوش کے مزے لیتے
چیئرمین نیب بھی ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھے اور معاملے کی انکوائری کا حکم دے
دیا۔ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ جہاں اُستاد کی عزت نہیں،وہاں بہتری کی
اُمید عبث۔
|