ماں سے معاشرہ

تحریر: عائشہ یاسین
گھر کے امور سے فراغت کے بعد جب t.v. چینل پر نظر پڑی تو اک چار بچے کی ماں کے قتل کی خبر نے دل و دماغ کو سن کر ڈالا۔ آج پھر گھریلو ناچاقی نے اک صنف نازک کی جاں لے لی۔کچھ سمجھ نہیں سکی کہ کیا سوچوں۔ کیا میں اس کو روزانہ کی خبر سمجھ کر گردن جھٹک دوں یا عورت پر اس کے طراری کا الزام دھرکر مرد کی طاقت اور زورآوری کو سلام پیش کروں لیکن نہیں ! اس بار یہ کرنا ممکن نہیں رہا۔روز ایسی خبریں سن سن کر اور دیکھ دیکھ کر روح جیسے چھلنی ہوئی جارہی ہے۔کبھی کبھی سانس رک سی جاتی ہے۔ گھٹن اور تمازت کا احساس شدت پکڑ لیتا ہے۔روز بروز ان واقعات میں کمی کے بجائے صرف اضافہ ہی ہوا جارہا ہے۔

جب ہم ملک و قوم کی ترقی کی بات کرتے ہیں تو مردوں کو سر فہرست رکھتے ہیں اور عورت کی پوزیشن ہمیشہ سے ثانوی ہی رکھی جاتی ہے۔ چاہے ملک کی باگ ڈور ہو، سیاسی و ریاستی امور یا گھر میں جھاڑ پونچھ کا معاملہ ، عورت کو کم عقل اور صنف نازک ہی تصور کیا جاتا ہے۔اس کے کمزور اور ناتواں ہونے کے دلائل دیے جاتے ہیں۔ کبھی بایولاجیکل ٹرمز میں تو کبھی مذہبی دلائل سے۔تو ہم مان لیتے ہیں کہ عورت ہے صنف نازک ، کمزور اور ناتواں ، تو پھر اس پر طاقت اور زورآوری کو استعمال کرنے کی ایسی کیا ضرورت پیش آتی ہے؟کیا اس کا گناہ اس قدر سنگین ہوتا ہے کہ مرد اپنی خود کے عدالت میں خود ہی وکیل اور منصف بن کر عورت کو مورد الزام ٹہراکر قتل کا پروانہ جاری کر دیتا ہے اور جلاد کے فرائض بھی خود انجام دیتا ہے۔عورت کو نہ اپنی صفائی میں وکیل کرنے کی اجازت دی جاتی ہے نہ کسی گواہ کی ۔

اگر عورت نا قص العقل ہے تو اس وقت مرد کی عقل کہاں غائب ہو جاتی ہے جب وہ کبھی بیوی ،بہن یا بیٹی بہو پر بے دردی سے تشدد کرتا ہے۔ جسے وہ دنیا کی نازک ترین شے مانتا ہے۔ غصے کی حالت میں خود کو پہلوان جان کر اس کو کسی حریف کی مانند لاتوں، گھونسوں اور تھپڑوں سے کسی اکھاڑے میں اپنے سارے داؤپیچ آزماتا ہے۔بھلا کیوں؟کیوں وہ اس جیتی جاگتی عورت کو بے حس اور بے جاں سمجھتا ہے؟کیوں اس کو اس کے رونے اور درد سے چلانے کی آواز نہیں آتی؟ کیوں وہ خود کو مرد ہونے کے احساس کو معتبر جانتا ہے؟کس نے اس کو حق دیا کہ وہ اپنا زور بازو کے سارے داو پیچ عورت پر آزمائے؟اس سے انسان کیا کسی جانور سے بھی بدتر سلوک روا رکھے؟ اس بات کی نہ مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ ہمارا قانون۔

تو پھر وہ کون سا plugin ہے جو اس کو عورت پر ظلم و زیادتی کا سرٹیفیکیٹ دیتا ہے؟اس کا بڑا آسان سا جواب ہے ہمارا معاشرہ۔پر کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ معاشرہ کون بناتا ہے؟معاشرہ اک ماں بناتی ہے۔ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ یہ مردوں کا معاشرہ ہے پر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ مرد کی پہلی درسگاہ اس کی ماں ہوتی ہے۔اس کے لاشعور میں ایک عورت ہی اس کے مرد ہونے کا بیج بوتی ہے اور اس کے رگوں میں بر بریت اور برتری شامل کر تی ہے۔اس کی پرورش ایسے ماحول میں کی جاتی ہے جہاں آنسو بہانا عورت کے مقدر میں لکھ دی جاتی ہے اور مرد کو صرف اور صرف غیظ و غضب اور انا کی مورت بنا کر رکھا جاتا ہے۔

معاشرہ ہم عورتیں بناتی ہیں اور ہم ماؤں کی وجہ سے آج تک عورت اس مقام اور عہدے کو حاصل نہ کر سکی جو مذہب اور قانون نے دیا۔ ہم مائیں بیٹے اور بیٹی میں خود تفریق کرتی ہیں۔بیٹے کی تربیت کا انداز بیٹی کی تربیت سے یکسر مختلف ہوتا ہے۔ مرد کو پیدائش سے ہی حاکمیت کی ڈور اس کے ہاتھ میں دے دی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ک ہم عورتیں دوسری عورت کی تذلیل کا بیج مرد کے لاشعور میں خود بوتی ہیں۔وہ صرف ماں کے حقوق کی تو بات کرتی ہے پر بہن کے روپ میں موجود عورت کی تعظیم کا درس نہیں دیتی۔وہ یہ تو باور کرواتی ہیں کہ بہن کی حفاظت کرنا اور ہر ضرورت پوری کرنا پر یہ نہیں سکھاتی کی اس کی طاقت بننا۔ بچپن سے ہی اس کو ہر گناہ کرنے کا پرمٹ دے دیا جاتا ہے اور اخلاقیات کے سارے فرائض عورت کے چھولی میں ڈال دیے جاتے ہیں۔

کبھی ہم نے غور کیا کہ مرد عورت کے معاملے میں اس قدر بے خوف و خطر کیوں ہوجاتا ہے؟ یہ اعتماد ایک عورت میں کیوں نظر نہیں آتی ؟صرف اس لیے کہ ماؤں نے اپنی بیٹیوں کو یہ اعتماد دیا ہی نہیں ہوتابلکہ ہمیشہ اس کی ہر خصوصیت پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے جب کہ بیٹے کی ہر برائی پربھی اسے شہہ دی جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے اک ایسا معاشرہ پروان چڑھتا ہے جہاں جہالت ، درندگی اور نفسا نفسی کی فضاء ہوتی ہے۔

دوسری جانب ہمارا مذہب اسلام ایک مکمل اور جامع مذہب ہے جہاں ہر کسی کے حقوق واضح طور پر بتا دیے گئے ہیں۔ہمارا مذہب کسی پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں دیتا حتی کہ جانوروں کے حق بھی محفوظ ہیں۔مرد کو برتری ضرور حاصل ہے پر دونوں کے حقوق مقرر ہیں۔ مرد کو کہیں کسی گناہ کی آزادی نہیں دی گئی بلکہ حاکم ہونے کے ناطے ذمہ داری اور طاقت کے استعمال کی باز پرس کا بتایا گیا ہے۔قرآن میں مرد و عورت کے اجر و ثواب کو برابر بیان کیا گیا ہے۔جب بھی اجر و سزا کی بات ہوئی تو دونوں کو ایک ساتھ مخاطب کیا گیا جیسا کہ پردہ کرنے والے پردہ کرنے والیاں، نیکی کرنے والے نیکی کرنے والیاں، گناہ کرنے والے ، گناہ کرنے والیاں۔جب اﷲ مرد عورت کے اجر و سزا میں تفریق نہیں کر رہا تو ہم کون ہوتے ہیں اس قانون خداوندی کو رد کرنے والے یا بدلنے والے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اﷲ کے دیے ہوئے حقوق کو دل سے تسلیم کریں۔انسانی حقوق کو لازم کریں۔اپنی اولاد کو صحیح اور حق کی جانب گامزن کریں۔

اپنے بیٹوں کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچائیں۔نہ صرف اپنی ماں بلکہ عورت کی شکل میں موجود ہر رشتے کی عزت کرنا اور حفاظت کرنا سکھائیں۔ ان کو یہ باور کرائیں کہ گناہ گناہ ہے اور ظلم ظلم اور زیادتی کا حساب ہونا ہے کیوں کہ ایک ماں اک فرد کی نہیں بلکہ اک نسل کی پرورش کرتی ہے۔ایک عورت ہی اک معاشرہ کی طاقت ہے۔یہ عورت ہی ہے جس کی تربیت مرد کو اعلی منصب پر فائز کرتی ہے۔اب یہ مرد کی بھی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ عورت کوکم عقل سمجھتا ہے تو خود عقل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو حاکم ثابت کرے۔کمزور اور ناتواں عورت کو بولنے کے اجازت دے۔

اپنے فہم و فراست کو بروئے کار لائے۔اس کو وہ عزت دے جس کے لیے اس کو بنا یا گیا ہے۔ اس کے تقدس کو قائم رکھے اور اپنے اندر برداشت پیدا کرے۔عورت کو اس مقام پر رکھے جہاں مذہب اور قانون نے رکھا ہے۔اس کو مساوی حقوق دے اور عورت کے وجود اور اہمیت کو قبول کرے اور قرآن و سنت کی روشنی میں صلہ رحمی اور شفقت کرے۔پھر یہی معاشرہ ہوگا جہاں کسی صنف نازک کو اس کا شوہراور دیور مل کر نہ مارے گا نہ کوئی بھائی جائداد کی لالچ میں کسی بہن کو قتل کرے گا۔ نہ کوئی باپ اپنی بیٹی کو زہر دے گا اور حضرت عمر اور خالد بن ولید جیسے بیٹوں سے معاشرہ تشکیل پائے گا۔

 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1141506 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.