قوموں کے مزاج میں ارتقا اور تنزل کے مرحلوں سے
گذرتے ہوے ایک نفسیاتی اور ذہنی کیفیت کے سبب ایک سوچ جنم لے لیتی ہے۔اور
یہ سوچ قوموں کی نفسیات پر اسقدر حاوی ہو جاتی ہے۔کہ قومیں اپنے مستقبل کا
رخ اسی سوچ کی سمت میں طے کرتی ہیں۔اور پھر حالات یہاں تک پہنچ جاتے ہیں کہ
قوموں کے فکر و خیال اور مزاج میں ہمیشہ کے لیے حاکم اور محکوم فاتح اور
مفتوح کا ایک بنیا دی فرق حائل ہو جا تا ہے ۔ فاتح قومیں ہمیشہ بیدار
مغز،روشن دماغ،شاہانہ انداز زندگی، عزم و ثبات سے لبریز۔ ہمت وحوصلے کی پا
بنداور اس کے ساتھ ساتھ جہا ں بینی، نور بصیرت ، جیسے اوصاف سے اپنے دامن
کو بھر لیتی ہیں۔ عظیم مؤرخ ابن خلدون نے ان اوصاف کی نشاندہی کی ہے جو
فاتح قوموں کا حصہ ہو تی ہیں ۔ اگر چہ ابن خلدون نے ان اوصاف کو قو موں کے
اخلاق سے تعبیر کیا ہے۔ لیکن پھر بھی زندہ قومیں ان خصوصیات کی حامل ہو تی
ہیں۔ ’’عمدہ اور اچھی عادتیں ،مظلوم اور بے کسوں کا خیال رکھنا ،مکروہات
اور مصائب پر صبر،محنت ، مشقت اور جدوجہد سے جی نہ چرا نہ ،حق بات کو بغیر
کسی رعونت کے سننا اور اسے ماننا عہد اور وعدوں کو پورا کرنا ،کمزوروں کے
ساتھ انصاف اور شفقت کا برتا ؤ کرنااور فیا ضی سے کام لینا ،مسکینوں سے
تواضع سے ملنا ،داد خواہوں کی فریاد رسی کرنا،عزت کی حفاظت کے لیے جا ن کی
پروا نہ کرنالو گوں سے کرم و عفو کے ساتھ پیش آنامکر و دغا اور وعدہ خلا فی
سے پر ہیز کرنا ‘‘۔ واقعہ یہ ہے زندہ اور متحرک قومیں حالات اور زمانے کی
تیز رفتاری پر ہمیشہ اپنی نظر رکھتی ہیں۔ہر بدلتے ہوے حالات کو بھا نپنا
پھر اس کے مطابق اپنے آپ کو تیار کرنا زندہ قوموں کی مثالوں میں شامل
ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ قومیں اپنے وجود کی بقاء اور استحکام اس وقت تک کر
سکتی ہیں جب تک وہ بیدار اور فعال رہتی ہیں۔ ان کی فکری قوت ان کے ارادوں
کی پابند ۔ان کی سیاسی طاقت ان کے مضبوط فیصلوں کے تابع ۔ان کے آلات حرب
کبھی زنگ آلود نہیں ہو تے۔وہ کبھی ساحل کی تماشائی نہیں ہو تی بلکہ وہ دریا
میں کو د جانے کو تر جیح دیتی ہیں۔
جب کوئی قوم کسی ملک میں فاتحانہ داخل ہو تی ہے ،تو ا س کا مزاج اور
طبیعتیں خود اعتمادی اور عالی ہمتی کے ساتھ ساتھ طاقت اور جوش جنوں سے بھری
رہتی ہیں۔ دراصل فاتح قوموں کے سامنے یہی وہ جذبہ ہوتا ہے جو انہیں دنیا
میں ممتاز رکھتا ہے، جب تک قومیں اس جذبے کو برقرار رکھتی ہیں تو وہ تاریخ
میں سرفراز رہتی ہیں، اور دنیا کی قیادت ان کے ہاتھوں میں ہوتی ہے۔ لیکن جب
قوموں کی طبیعتیں بوجھل ہوجاتی ہیں اور قویٰ سست ہو جاتے ہیں۔حرکت کی جگہ
جمود آجاتاہے ۔ عقلیں سوچنا بند کردیتی ہیں۔ فکریں پسپا ہوجاتی ہیں۔ دل
اندیشہ طوفاں سے کا نپنے لگتا ہے اور بقو ل علامہ اقبال’’ محکوم کا سر مایہ
فقط دیدہ نمناک‘‘ کا عملی مصداق قومیں بن جاتی ہیں۔ تو اس وقت یہ لمحات
فاتح قوموں کے لیے جاں بلب ہوجا تے ہیں اور وقت کی رفتار کے ساتھ ذلت و
رسوائی قوموں کا مقدر بن جاتی ہے۔ تاریخ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں
کہ فاتح اور حاکم قومیں آسمان کی بلندی سے زمین میں آکر ایسی گری کہ ان
کانام و نشان تک باقی نہ رہا۔ ’’ستر ہویں صدی عیسوی مسلمانوں کے عروج کی
آخری صدی تھی اس صدی میں مسلمان اپنے عروج کی انتہا کو پہنچ چکے تھے ،اسلام
دنیا کی سب سے بڑی طاقت اور سب سے بڑی تہذیب تھی مشرق میں انڈونیشیا سے
لیکر مغرب میں بحر اوقیا نوس کے ساحل تک اور شمال میں ہنگری سے لیکر جنوب
میں ایک طرف راس کماری اور دوسری طرف غانہ تک مسلمانوں کی حکومتیں قائم
تھیں پا کستان و ہند میں تیموریوں کی عظیم الشان سلطنت قا ئم تھی ایران میں
صفوی کا زور تھا بغداد سے الجزائز تک اور ہنگری سے عدن تک عثمانی سلطنت کا
پر چم لہرا رہا تھا اور مغرب اقصی میں مراکش سے سوڈان تک مراکش کے خاندان
فلالی کی حکومت قائم تھی گویا اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ چار بڑی حکومتوں
میں منقسم تھا‘‘( ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ ج ۲ ص ۳۵۲ )
تقریباً ایک ہزار سال سے زائد مدت تک مسلمانوں کو یہ عروج حاصل رہا ۔دنیا
کی کسی قوم کو اتنے بڑے خطے پر اتنا عروج اتنے لمبے وقت تک نہیں رہا
۔عثمانی ترکو ں کی حکومت ایشیا ،افریقہ اور یوروپ تین بر اعظموں تک پھیلی
ہو ئی تھی ۔ لیکن یہ سب کچھ اپنے ہی ہاتھوں سے تباہ و برباد ہوگیا’’ ۱۷۹۹ء
میں کارلو وٹز کی جنگ میں شکست کھانے کے بعد عثمانی ترکوں کا زوال ہوا پا
کستان اور ہند میں اورنگ زیب کے انتقال کے بعد ۱۷۰۷ء بتر کوچک میں
مسلمانوں کا زوال شروع ہوگیا ۱۷۲۷ء میں سلطان اسمعیل کے انتقال پر مراکش
کمزور ہو گیا اور تقریباً اسی زمانے میں ایران کی صفوی سلطنت ختم ہو گئی
‘‘( ملت اسلامیہ کی مختصر تاریخ ج ۲ ص۳۵۵)
قوموں کے زوال کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں ۔دینی، اخلاقی، سیاسی،
فکری،سماجی، اقتصادی ،علمی ،تحقیقی اور تخلیقی وغیرہ ان میں ہر اسباب اپنی
جگہ مسلم ہے ۔زندگی ا ور انسانیت کی بقاء انہیں تمام اسباب میں مضمر ہے
،اگر انسانیت ان تمام یا بعض چیزوں کو دوسرے درجے میں رکھے گی تو مثال اس
جسم کے ما نند ہو جا ئیگی جو قلب تو رکھتا ہے لیکن سر دماغ ہاتھ پا ؤں آنکھ
،کان ،گرد ہ ،اور جگر نہیں رکھتا ، تو اس موقع پر انصاف کا مکمل تقاضہ یہی
ہو گا کہ تنہا دل ان دوسر ے اعضا ء کے بغیر کام نہیں کر سکتا ۔ یہ پورا ایک
مجموعی نظام ہے ہر اعضا ء ایک دوسرے سے مربوط ہے۔ اسی طرح ہمیں بھی اپنا
محاسبہ کر نا ہے اور ان اسباب کا پتہ لگا نا ہے کہ زندگی میں کوئی چیز ایسی
تو نہیں جو غفلت کے سبب یا اس کے کمتر ہو نے کی وجہ سے نظر انداز کر رکھی
ہو ۔ حا لانکہ وہ بہت اہم ہو۔لیکن افسوس! یہ ہما ری سب سے بڑی کمزوری ہے کہ
ہم ان باتوں کو سننا یا ما ننا با لکل نا پسند کرتے ہیں جو ہماری طبعیت اور
مزاج کے خلاف ہو ،یہ بھی ہماری مغلوبیت بلکہ زوال کی ایک بڑی نشانی ہے جس
سے ہم صدیوں سے جھوجھ رہے ہیں۔ جبکہ ہمیں اپنی بقا ء کے لیے زند گی کے تمام
شعبوں میں جہاں جہاں کمزوری ہے اس کی تشخیص کر کے اس بیماری کا علاج کرنا
ہے ۔ کیونکہ بغیر تشخیص کے بیماری کا علاج ناممکن ہے ویسے بھی یہ ایک حساس
مسئلہ ہے کہ یہ پوری اسلامی مملکت ایک ساتھ کیسے ختم ہوگئی ۔جبکہ سب کچھ
طاقت ان کے پاس تھی جو سربراہ مملکت تھے۔اس کے باوجو د و ہ حالات کا مقابلہ
نہ کرسکے ۔ہمت ہار گئے ۔آخر نو بت یہاں تک پہنچی کہ ہزاروں سال کے عروج کے
بعد اسلامی مملکت یا خلافت کا خا تمہ عثمانی ترکوں پر ہوا ۔
قوموں کی زندگی میں ’’حرکت‘‘ ناگزیر ہے،کیونکہ تحرک کے بغیر قوموں کی بقا ء
خطرے میں پڑجاتی ہے ۔ پوری مسلم دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جب تک
مسلما نوں میں ذہنی ، فکری اور اس کے ساتھ جسمانی تحرک باقی رہا تو وہ دنیا
کی قیادت کرتے رہے بلکہ پوری دنیا ان کی مٹھی میں رہی۔ لیکن جب فکروں پر
دھول جم گئی اور جسم مسلسل آرام کی وجہ سے فالج زدہ ہو گیا،تو پھر فاتح،
مفتوح ۔غالب، مغلوب اور حاکم محکوم ہو گئے ۔اور یہ سب اسی عام دستور کے
مطابق ہوا جو عموماً ہوتا رہا ہے ۔مثلا کسی ندی یا تالاب کا پانی اسی صورت
میں اپنی اصلیت اور شفافیت کو برقرار رکھ سکتا ہے جب تک اس کے پانی میں
حرکت رہتی ہے ،لیکن اگر پا نی ایک جگہ پڑا رہے ، بہا و ٔ کے تمام راستوں کو
مسدود کردیا جائے۔ تو یقینی طور پر وہ پانی کچھ وقت کے بعد خراب ہو جا یئگا
بلکہ اس کے اندر بد بو ہو جا ئیگی ،یہی صورت حال قوموں کی سوچ و فکر کی ہے
۔اور اسی پر ان کے عروج و زوال کا مدار ہے ۔کسی کو اس سے اختلاف ہو سکتا ہے
لیکن یوروپ اور مغرب کی مو جودہ تر قی ان کی اس جدوجہد اور حرکت کا نتیجہ
ہے ۔زندگی کے وہ تمام شعبے جو کل تک ہمارے پاس تھے ۔آج ہم ان سے یکسر محروم
ہیں ۔علم و تحقیق صنعت و حرفت تجارت و معیشت اور ساتھ ساتھ تخلیقی قوت
وغیرہ کے ہم مکمل مالک تھے بلکہ ان کے تصرف کا بھی ہمیں بخوبی علم تھا۔
لیکن آج خالی ہاتھ ،لاچار و مجبور ساحل کے تماشائی بنے ہوے اپنے اوپر ماتم
کناں ہیں۔ہمتیں جواب دے گئی ،حوصلے پست ہو گئے ۔اب کشتیوں کو کون جلائیگا ۔
اور دریا میں کو دے گا ۔بس اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ اہل مغرب فاتح ہو گئے
اور ہم مفتوح ۔جاری |