تحریر:صدف نایاب، اسلام آباد
آج سب گھر والے ایک رشتہ دار کی طرف جانے کی تیاری میں مصروف تھے۔ میں نے
چھوٹی بیٹی کو بھی ساتھ ہی بھیج دیا کہ چلو سیر ہو جائے گی۔میرا بھی جانے
کا ارادہ تھا مگر چھوٹے بیٹے کی طبیعت خرابی کہ باعث جانے کا ارادہ ترک کر
دیا اور اسے ہسپتال لے کر چلی گئی۔ واپس آئی توگھر بالکل خالی تھا۔ اگرچہ
بالائی منزل پر رشتہ دار موجود تھے۔ مگر نچلی منزل میں میں بالکل اکیلی
اپنے دو سال کے بچے کے ساتھ تھی۔ اوپر والوں نے بھی شاید یہ سمجھا کہ میں
بھی گئی ہوئی ہوں لہذا ان کا دروازہ بھی اوپر سے بند تھا۔اب میں بالکل تن
تنہا،نیچے کا پورشن ہوتا بھی خوب بڑا اور لمبا ہے۔
اﷲ کا شکر ہے کہ بچپن سے ہی کوئی بہت زیادہ ڈرپوک تو نہیں رہی کہ بالکل ہی
اکیلی نہ رہ سکوں مگر اندھیرے اور اکیلے پن کا ایک نفسیاتی ساخوف بہر حال
اعصاب پر طاری ہو ہی جاتا ہے۔ ابھی ساگ بھی رکھا ہے وہ بھی بنانا ہے۔ میں
یہ سوچ ہی رہی تھی اور پالک کی گڈیاں اٹھا کر لائی کہ اب کاٹوں گی کہ اچانک
انتہائی زورو شور سے آندھی چلنے لگی۔ سائیں سائیں کی ہولناک آواز دروازے
کھڑکیاں سب تڑ تڑ بجنے لگے۔ بجلی ایک جھٹکے سے چلی گئی مگر اﷲ کا شکر یو پی
ایس کی بدولت یہ پریشانی بھی ایک لمحہ سے کم کی ہی تھی۔ وینٹ میں رکھے کوڑے
کے ڈبے لڑکھڑانے لگے۔ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور بجلی کی کڑک بادل کی گرج
سے میں سہم گئی۔وینٹ میں ہی لاونج کی جالی میں کولر لگا ہوا ہے اور اس پر
کچھ فالتو تھرما پول کی شیٹیں رکھی ہوئی ہیں جو کہ تیز آندھی کے باعث سر سر
شیشیے سے ٹکرا کر ایک عجیب سی آواز پیدا کر رہیں تھیں۔ پورچ میں کھڑی گاڑی
بھی گرج چمک کی آواز سے بولنے لگی۔ بیٹھک کا دروازہ اگرچہ بند تھا مگر تند
ہوا کے جھونکے اسے دھکا دے رہے تھے،جس کے باعث وہ دھڑ دھڑ بول رہا تھا۔
پانچ دس منٹ کے اس عرصے میں سارا گھر ایک پرسرار حویلی کا نقشہ پیش کرنے
لگا اور ان سب میں میرے کچھ دیر کے لیے ڈر کے مارے اوسان خطا ہونے لگے۔
بیٹا بھی ان آوازوں سے ڈر کر رونے لگا۔ میں نے اپنے میاں کو فون کر کے
پوچھا کہ آپ کہاں ہیں؟ کسی جگہ ضروری کام سے جانا تھا جس کے باعث دیر سے
لوٹنا تھا۔ میں نے تھوڑا برہم ہوتے ہوے کہا کہ ،’’آج جلدی آجائیں چھوڑیں کل
چلے جائیے گا‘‘۔ مگر ان کا کام ضروری تھا اس لیے مجھے سمجھانے لگے۔ میں نے
بھی ’’ٹھیک ہے‘‘ کہہ کر فون کاٹ دیا۔ ابھی میں اسی ٹینشن کی حالت میں تھی
کہ ایک احساس نے دل دماغ میں دستک دی اور میں اپنے آپ کو انتہائی طاقت ور
محسوس کرنے لگی۔
اگرچہ میں ڈر گئی تھی مگر ’’حسبنا اﷲ‘‘ کا ورد بے اختیار زبان پر جاری ہو
گیا۔ ایسے میں اس احساس کا پیدا ہونا کہ چلو کوئی اور ذی روح نہ صحیح مگر
اﷲ تو ساتھ ہے۔ اس احساس نے مجھے بے پناہ حوصلہ اور ہمت بخشی۔ایک اور اتفاق
یہ ہوا کہ دن میں میں اپنی بیٹی کو یہ بتا رہی تھی کہ ’’بیٹا چاہے ماما
بابا آپ کو دیکھیں نہ دیکھیں مگر اﷲ آپ کی ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے‘‘۔ بس اس
بات پر عمل کا وقت اس وقت مجھ پر آیا اور اﷲ نے شاید مجھے چیک کرنے کے لیے
ہی مجھے ان حالات میں رکھا کہ میں اپنے اس کہے پر کتنا ایمان رکھتی ہوں۔
اﷲ کے ہونے کا احساس بہت ہی زبردست تھا۔ بالکل ایسا لگا کہ کوئی میرے ساتھ
ہے، میرے دل کہ بالکل قریب ۔ ایسے والہانہ جذبات نے مجھے حقیقی خوشی دی۔
مجھے خود کو سنبھالنے میں مدد دی۔ ورنہ سچ پوچھیے مجھے تو عاد وثمود کی
آندھیاں یاد آنے لگیں تھیں۔ شاید ڈر و خوف کا ایسا عالم تھا کہ شیطان نے
فوراً دماغ میں بسیرا کر لیا۔ بس اس ایک احساس کا آنا تھا کہ اﷲ دیکھ رہا
ہے۔ اس نے میرے حواس بحال کر دیے۔ اور میں نے سکون سے جا کر نماز مغرب ادا
کی۔پھر واپس کچن میں آ کر کام نمٹائے۔اتنی دیر میں آندھی کا زور بھی ٹوٹ
گیا اور ابر رحمت برسنے لگے۔
آج کے اس واقعے نے مجھے احساس دلایا کہ اگر آج ہم میں سے ہر کوئی اس بات کو
سمجھ لے کہ وہ ذات جس کو اونگھ آتی ہے، نہ نیند وہ ہر پل ہماری نگرانی کر
رہا ہے۔ تو ہر انسان اپنے ہاتھوں سے کمائی جانے والی برائیوں کا بیشتر حصہ
اپنی زندگی سے ختم کر دے بلکہ اﷲ کی توفیق سے حسب استطاعت برائی کو حددرجہ
دبا دے یہاں تک کہ وہ ہماری زندگیوں سے حذف ہی ہو جائے۔آمین اور ہر طرف
نیکی کا دورے دورہ ہو۔ |