شہر کراچی مدارس دینیہ کے حوالہ سے بہت زیادہ اہمیت کا
حامل ہے۔ملک کے بڑے بڑے دینی ادارے اس شہر میں قاٸم ہیں ہیں۔انہی میں ایک
معروف نام *جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاٶن* کا بھی ہے۔جو نہ صرف
ملک پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اپنی پہچان آپ ہے۔اس مقبولیت کی وجہ بانیِ
ادارہ کا اخلاص و للّٰہیت ہے۔ذیل کی سطور میں ہم اسی عبقری شخصیت کی حیات و
خدمات پہ چند معروضات پیش کرتے ہیں۔
بانی جامعہ علوم اسلامیہ محدث العصر حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ
اللہ بروز جمعرات ۶ ربیع الثانی ۱۳۲۶ئھ مطابق ۱۹۰۸ءء ضلع مردان میں شیخ
ملتون ٹاوٴن کے مشرق میں واقع ”مہابت آباد“ نامی بستی میں بوقت سحرپیدا
ہوئے آپ سلسلہٴ عالیہ نقشبندیہ کے مشہور شیخ حضرت سید آدم بنوری رحمہ اللہ
کی اولاد میں سے تھے، سلسلہٴ نسب حسب ذیل ہے :سید محمد یوسف بن محمد زکریا
بن میر مزمل شاہ بن میر احمد شاہ بن میر موسی بن غلام حبیب بن رحمت اللہ بن
عبد الاحد بن حضرت محمد اولیاء بن سید محمد آدم بنوری ، سلسلہٴ نسب نویں
جدِّامجد عارف محقق حضرت سید آدم بنوری کی وساطت سے حضرت سیدنا حسین رضی
اللہ تعالی عنہ سے جا ملتا ہے ۔
ہندوستان کی ریاست پٹیالہ میں سرہند کے قریب ایک قصبہ ہے ، اس مقام بنور(با
کے زبر اور نون کے پیش کے ساتھ) کی نسبت سے آپ کے جد امجد سید آدم بنوری
کہلاتے تھے ، اس لیے ان کی اولاد بنوری کہلانے لگی ، سید آدم بنوری رحمہ
اللہ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کے اجل خلفاء میں سے تھے ، اللہ تعالی
نے حضرت مجدد رحمہ اللہ کے تجدیدی کارناموں کا وافر حصہ حضرت سید آدم بنوری
رحمہ اللہ کو بھی عطا فرمایا تھا جو ورثہ میں منتقل ہوتے ہوئے حضرت علامہ
سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ تک آپہنچا ، چنانچہ اللہ تعالی نے حضرت سے
اپنے دور میں عظیم اصلاحی و تجدیدی کام لیے۔
ہندوستان میں سکھوں کے غلبہ کے دور میں حضرت سید آدم بنوری رحمہ اللہ کے
خاندان کے کچھ لوگ سرحد آ کر آباد ہوگئے ، آپ کے پر دادا میر احمد شاہ بڑے
وجیہہ بزرگ تھے ، انہوں نے پشاور میں ایک محلہ آباد کیا جوان کے نام پر
گڑھی میر احمد شاہ کے نام سے معروف ہے ، آپ کے خاندان کے بیشتر لوگ یہیں
آباد ہیں جبکہ بعض کوہاٹ وغیرہ کی طرف منتقل ہوگئے ہیں ۔
آپ کے والد ماجد مولانا سید محمد زکریا بنوری رحمہ اللہ جید اور پختہ عالم
ہونے کے علاوہ حاذق طبیب ، تعبیر روٴیا کے امام اور صاحب حال بزرگ تھے ،آپ
نے عربی اردودونوں زبانوں میں نہایت قیمتی اور علمی کتابیں لکھیں ،جو موضوع
کے ساتھ ساتھ تحقیق میں بھی اپنا منفرد مقام رکھتی ہیں ۔
آپ نےقرآن کریم اور ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد رحمہ اللہ اور ماموں
مولانا فضل صمدانی بنوری رحمہ اللہ سے اپنے گھر پر گڑھی میر احمد شاہ پشاور
میں حاصل کی ،صرف ونحو اور دیگر فنون کی ابتدائی کتابیں شیخ مولانا حافظ
عبد اللہ شہید بن خیر اللہ پشاوری متوفی ۱۳۴۰ئھ کے پاس گاوٴں ارباب لنڈی
پشاور میں پڑھیں ،پھر امیر حبیب اللہ خان کے دور میں کابل (افغانستان) کے
ایک مدرسہ میں تعلیم حاصل کی ، فقہ، اصول فقہ ، منطق ادب ، بیان اور دیگر
علوم وفنون کی متوسط کتابیں پشاور اور کابل کے علماء سے پڑھیں ،آپ کے اس
دور کے اساتذہ میں قاضی القضاة مولانا عبد القدیر افغانی لمقانی (افغانستان
جلال آباد کے محکمہٴ شرعیہ کے قاضی مرافعہ) اور شیخ محمد صالح القیلغوی
افغانی وغیرہ زیادہ مشہور ہیں ،قاضی عبد القدیر صاحب رحمہ اللہ سے آپ نے
میر زاہد ، ملا جلال ، کنز ثانی ، ہدایہ اخیرین اور بعض دوسری کتابیں بھی
پڑھیں۔
کابل سے واپسی کے بعد دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اورباقی ماندہ علوم
وفنون کی کتابیں علماء دیوبند سے پڑھیں ، چنانچہ ۱۳۴۵ء ھ سے ۱۳۴۷ئھ تک
دارالعلوم دیوبند میں طالب علم رہے ، اور وہاں امام العصر محدث جلیل حضرت
مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ اور محقق العصر مولانا شبیراحمد
عثمانی رحمہ اللہ آپ کے اجلہ مشایخ میں سے تھے ۔حوادث ایام اور ابتلاآت
زمانہ کی وجہ سے جب مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ اور مولانا شبیر احمد
عثمانی رحمہ اللہ دارالعلوم دیوبند چھوڑ کر ڈابھیل منتقل ہوگئے تو حضرت
بنوری رحمہ اللہ بھی اپنے ان اساتذہ کے ساتھ ڈابھیل چلے آئے اور پھر جامعہ
اسلامیہ ڈابھیل سے ہی ۱۳۴۷ئھ میں فارغ التحصیل ہوئے ۔
دنیا کا تجربہ شاہد ہے کہ محض کتابیں پڑھ لینے سے کسی کو علم کے حقیقی
ثمرات حاصل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لئے کسی مرد کامل کی صحبت بھی از حد ضروری
ہے ، حضرت بنوری رحمہ اللہ کو بھی اللہ نے جو بلند مقام نصیب فرمایا وہ ان
کی ذہانت وذکاوت اور علمی استعداد سے زیادہ حضرت کشمیری رحمہ اللہ کے فیض
صحبت کا نتیجہ تھا ، دورہٴ حدیث کی تکمیل کے بعد آپ حضرت مولانا محمد انور
شاہ کشمیری رحمہ اللہ ہی کی خدمت میں مستقل رہ پڑے اور شب وروز کی مصاحبت
میں کمالات انوری سے بھر پور استفادہ کیا،حضرت کشمیری رحمہ اللہ آپ کے
خصوصی اور سب سے بڑے شیخ تھے اور حضرت بنوری رحمہ اللہ اپنے شیخ کے سچے
عاشق اور محب صادق تھے، ان کی ایک ایک ادا کو اپنے اندر جذب کرلیا تھا ، ان
کی محبت سے آخر دم تک سرشار رہے اور کسی نہ کسی مناسبت سے اس والہانہ انداز
سے ان کا ذکر خیر فرماتے کہ معلوم ہوتا تھا کہ ابھی اپنے شیخ سے مل کر آرہے
ہیں ،ان کے ملفوظات ایسے محفوظ کر رکھے تھے کہ ہو بہو انہیں الفاظ میں بیان
کرتے تھے ، ان کے ذکر خیر کے وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ گویا ہرلفظ وحرف
سے محبت وعقیدت کا چشمہ ابل رہا ہے،حضرت بنوری رحمہ اللہ ویسے تو اپنے تمام
اساتذہٴ کرام کے منظور نظر تھے لیکن امام العصر حضرت علامہ شاہ صاحب کشمیری
رحمہ اللہ سے آپ کو جو خصوصی تعلق رہا اس کی مثال شاید حضرت شاہ صاحب رحمہ
اللہ کے دوسرے تلامذہ میں نہ ملے،آپ نے امام العصر رحمہ اللہ سے ہی اعلی
تعلیم کے مراحل طے کئے اور سب سے زیادہ فیض یاب ہوئے ، سفر وحضرمیں ان کے
خادم اور ایک سال سے زیادہ عرصہ تک شب وروز ہمہ دم ان کے رفیق رہے ، شیخ نے
ان کی جانفشانی ،لگن ، محبت ، عقیدت اورخدمت کو دیکھ کر اتنا اثر لیا کہ آپ
کو اپنے ساتھ ملحق کرلیا اور۱۳۴۸ئھ میں آپ کو اپنے ساتھ کشمیرلے گئے ، آپ
چوبیس گھنٹے میں دو گھنٹے آرام کرتے اور بقیہ سارا وقت اپنے شیخ کی خدمت
اور ان سے علوم کے اخذو اکتساب میں صرف کرتے ، اللہ تعالی نے اس خدمت کا
صلہ یہ دیا کہ آپ کو بھی اپنے شیخ کے رنگ میں رنگ دیا اور بے نظیر محدث ،
بے بدل عالم ، جلیل القدر محقق ، بلند پایہ فقیہہ ، اعلی درجے کا مفسر اور
اونچے درجے کا ادیب وشاعر بنادیا، اس سفر کے بعد حضرت بنوری رحمہ اللہ اپنے
وطن پشاور چلے گئے اور وہیں اقامت کی۔
فراغت کے بعد۱۳۵۰ئھ مطابق ۱۹۳۰ءء میں اپنے والد ماجد رحمہ اللہ کے اصرارو
خواہش پر ایک ماہ کی قلیل مدت میں تیاری کر کے امتیازی نمبروں کے ساتھ
پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا ، اسی درمیان آپ چار سال
تک پشاور میں جمعیت علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر سیاسی ودینی خدمات انجام
دیتے رہے اورجمعیت علماء اسلام پشاور کے صدر بنادیے گئے ،چونکہ آپ کی طبیعت
کا خمیر علم ودانش کی بنیاد پر گوندھا گیا تھا اس لئے کچھ ہی عرصہ بعد حضرت
بنوری رحمہ اللہ نے سیاست سے عملی طور پر کنارہ کشی اختیار کر لی، بعد میں
اپنی جوانی کے اس قیمتی وقت کے سیاست کے نذرہونے پر افسوس کا اظہار فرمایا
کرتے تھے ، پشاور کے قیام کے دوران آپ مدرسہ رفیع الاسلام بھانہ ماڑی میں
تدریس کے فرائض نہایت خوش اسلوبی اور تحقیق وتدقیق کے ساتھ انجام دیتے رہے۔
جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں تدریس اور مجلس علمی کی طرف سے عالم عرب کا سفر
علامہ کشمیری رحمہ اللہ کی بے لوث خدمت ہی کا صلہ تھا کہ شیخ کی وفات کے
بعد حضرت بنوری اپنے شیخ کے لگائے ہوئے باغ کے رکھوالے بنے اور ڈابھیل کے
جامعہ اسلامیہ کا شیخ الحدیث وصدر مدرس بننے کا شرف حاصل ہوا، نیز جامعہ
اسلامیہ ڈابھیل کی مجلس علمی نے آپ کو مجلس کا باقاعدہ رکن بنایا اور۱۳۵۶ئھ
مطابق ۱۹۳۷ءء میں اپنی بعض کتب کی طباعت کے سلسلہ میں قاہرہ بھیجا ، آپ کی
زیر نگرانی ”نصب الرایہ “ ، ”فیض الباری“اور ”بغیة الاریب “ جیسی بلند پایہ
علمی وتحقیقی کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوئیں ، جن کے حسن طباعت کی آج بھی
دنیا داد دینے پر مجبور ہے ،تینوں کتابوں کی طباعت ایسے عمدہ کاغذ اور دیدہ
زیب ٹائپ پر کروائی کہ ہندوستان کے لوگ اس زمانہ میں اس کا تصور بھی نہیں
کرسکتے تھے ، ان کی طباعت پر حضرت نے بڑی محنت کی ، طباعت کے سلسلے میں یہ
آپ کا پہلا تجربہ تھا ، لیکن قدرت نے آپ کو ہر فن میں بہت اونچا ذوق عطا
فرمایا تھا ، چنانچہ مصر پہنچنے کے بعد آپ نے مختلف مطابع سے رابطہ قائم
کیا اور مذکورہ بالا کتابوں کے لیے ان کا سائز کاغذ اور حروف کا تعین
فرمایا ، اور کئی روز کی جدوجہد کے بعد ایک ایسا مطبعہ ان کو مل گیا جو ان
کی شرائط اور ذوق کے مطابق کام کرنے پر آمادہ ہوگیا، طباعت سے پہلے کتاب
”نصب الرایہ “کی تصحیح کے سلسلہ میں آپ نے بہت محنت فرمائی ، چونکہ یہ سفر
حج سے شروع ہوا تھا اس لیے حج کے بعد حرمین شریفین میں مختلف دو کتب خانوں
میں ”نصب الرایة“ کے قلمی نسخوں سے اپنے نسخے کا مقابلے فرمایا اور جب مصر
پہنچے تو ”دار الکتب المصریة“ میں دو نسخوں سے اس کا مقابلہ کیا جس کی
تفصیل نصب الرایة کے مقدمہ میں ”نصب الرایة والعنایة بحاشیة والعناء فی
تصحیحہ وطبعہ “ کے عنوان سے پیش کی ہے ۔
دیوبند واکابر دیوبند کا بلاد عرب میں تعارف
حضرت بنوری رحمہ اللہ نے علمائے ازہر اور دیگر علمائے مصر کو شیخ الہند
مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ ، مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ
اللہاور مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ وغیرہ اکابر دیوبند کے علمی مقام
سے متعارف کرایا اور ان کی گرانقدر تصنیفات اور ان کی علمی ودینی اور ملی
وسیاسی خدمات سے آگاہ کیا،اس سلسلے میں آپ کے مختلف مضامین مصر کے ہفت روزہ
”الاسلام“ میں قسط وار شائع ہوئے جن میں آپ نے دارالعلوم دیوبند کے علمی ،
دینی ، اصلااحی اور سیاسی کارنا مے پیش کیے ،اسی سفر میں مصر ، یونان ،
ترکی اور حجاز مقدس کا سفر کیا اور مفوضہ علمی خدمت کونہایت حسن وخوبی کے
ساتھ انجام دیا، آپ تقریبا ایک سال ملک سے باہر رہے، اس سفر میں آپ کی
علامہ طنطاوی ، علامہ زاہد الکوثری ،شیخ خلیل خالدی مقدسی ، شیخ عمران بن
حمدان محرسی مالکی مغربی ،شیخ محمد بن حبیب اللہ بن مأیابی حبکنی شنقیطی
اورشیخ یوسف دجوی سے بھی ملاقات ہوئی۔
اسی دوران ۱۳۵۷ئھ مطابق ۱۹۳۸ءء میں قاہرہ میں فلسطین کے بارے میں علماء
اسلام کی ایک کانفرنس بلائی گئی تو متحدہ ہندوستان سے مفتی اعظم ہند مولانا
مفتی کفایت اللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ مصر تشریف لے گئے ،مفتی اعظم ہند
چونکہ خود علیل تھے اس لیے انہوں نے حضرت بنوری رحمہ اللہ کو اپنا نائب
بنایا ،چنانچہ آپ نے مفتی اعظم ہند کی طرف سے تمام فرائض بحسن وخوبی انجام
دیے۔
طبع شدہ کتابوں کا ذخیرہ ساتھ لے کر آپ واپس ڈابھیل آئے تو ڈابھیل میں حضرت
مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ اور مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ
اللہ دونوں بزرگوں کی مسند حدیث کے وارث ہوئے ،آپ کی علمی شہرت اس زمانے
میں تمام ہندوستان میں پھیل چکی تھی ، آپ نے مدرسہ کے شیخ الحدیث کی مسندکو
زینت بخشی ، بخاری ، ترمذی اور ابوداود کا درس آپ کو تفویض کیا گیا ، تقسیم
ملک تک آپ اسی منصب پر فائز رہے۔
ڈابھیل کے قیام کے زمانہ میں آپ کو دارالعلوم دیوبند کے طبقہ علیا کی مدرسی
کی بار بار پیشکش کی گئی لیکن آپ نے معذرت کردی ، دارالعلوم دیوبند کے منصب
افتاء کے لیے شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ،مولانا شبیر احمد
عثمانی اور مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہم اللہ تینوں حضرات نے اصرار
فرمایا لیکن انکار کردیا ، جامعہ احمدیہ بھوپال کے شیخ الحدیث کے عہدہ کے
لیے مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے دعوت دی لیکن قبول نہ فرمائی ، اس
کا سبب غالبا یہ تھا کہ آپ ڈابھیل کے مدرسہ کو اپنے شیخ رحمہ اللہ کی امانت
سمجھتے تھے اور اس سے مفارقت آپ کو گوارا نہ تھی ۔
حضرت بنوری رحمہ اللہ ڈابھیل میں شیخ الحدیث تھے کہ ملک تقسیم ہوگیا ،
تقسیم کے بعد مشکل یہ پیش آئی کہ جس خطہ میں پاکستان بنا ، وہاں مدرسے نہ
تھے اور جہاں دینی درس گاہیں تھیں وہاں سے مسلمانوں کی اکثریت نے ہجرت کر
لی تھی ،اس لیے ڈابھیل میں حلقہ درس نہیں رہا تھا ، چنانچہ پہلے تو مولانا
بنوری کو دارالعلوم دیوبند آنے کی دعوت دی گئی مگر چونکہ مولانا شبیر احمد
عثمانی رحمہ اللہ مولانا بنوری کے مداح اور ان کے کمالات کے قدر شناس تھے
اس لیے مولانا کو پاکستان منتقل کرانے کے مشورے شروع ہوئے ،ٹنڈواللہ یار
میں دوسرا”دارالعلوم دیوبند“ بنانے کا منصوبہ تھا اور اس مقصد کے لیے چوٹی
کے علماء کو جمع کیا جارہا تھا، اسی سلسلے میں مولانا بنوری کو بھی پاکستان
آنے کی دعوت دی گئی اور۱۳۶۸ئھ میں دارالعلوم ٹنڈواللہ یار میں ”شیخ
التفسیر“ کے منصب پر آپ کا تقرر کیا گیا لیکن پھر کچھ ہی عرصے بعد بعض
مصالح کی وجہ سے آپ کو دارالعلوم ٹنڈواللہ یارسے سبکدوشی اختیار کرنا پڑی۔
نئے ادارے کا قیام اور اس کے لیے کوششیں
آپ نے جب دارالعلوم سے ترک تعلق کیا تو کراچی سے پشاور تک پاکستان کے دسیوں
علمی مراکز سے دعوت نامے موصول ہوئے اور اعلی مناصب کی پیشکش کی گئی لیکن
یہی طے کیا کہ بقیہ تھوڑی سی زندگی ادھر ادھر ضائع کرنے اور نئے تجربات کے
بجائے اپنے طرز کے ادارہ کے قائم کرنے پر صرف کرنا چاہیے،ساتھ ہی یہ بھی
سوچتے تھے کہ اس قسم کے عظیم الشان کام جس اخلاص ، بلند ہمتی ، جہد مسلسل ،
صبر واستقامت ، رفقاء کار کی روحانی ومادی معاونت کے محتاج ہوتے ہیں ، یہ
تمام امور مجھے میسر نہیں اس لیے ضروری سمجھا کہ خود اسی ذات سے مدد مانگی
جائے جس کے ہاتھ میں زمین وآسمان کے خزانے ہیں اور اس کے لیے اس ذات کو
شفیع بنایا جائے جسے رحمة للعالمین فرمایا گیا ہے اور جن سے تعلق ووابستگی
رحمت الہی کی جاذب ہے ، چنانچہ اس مقصد کے لیے حرمین شریفین کے سفر پر
روانہ ہوئے اور حج بیت اللہ وزیارت مدینہ منورہ کو اپنے ”سفر جدید“ کے لیے
ذریعہ بنایا تاکہ استخارہ اور استشارہ کے ذریعہ جو مناسب معلوم ہو اس پر
عمل پیرا ہوں ، اس مقصد کے لیے۴ذی الحجہ ۱۳۷۲ئھ کو آپ ہوائی جہاز سے بصرہ
گئے اور وہاں سے عراقی ائیر لائن کے ذریعہ جدہ پہنچے ،مقدس مقامات اور
دعاوٴں کی قبولیت کی جگہوں پر ، قبولیت کے مخصوص حالات واوقات میں اسی مقصد
وحید کے لیے خصوصی دعائیں کرتے رہے ، بیس روز تک مکہ مکرمہ میں قیام رہا ،
مکہ مکرمہ کے اس قیام میں خود بھی سراپا فقیر بن کر بارگاہ رب العزت میں
دعاء وابتہال میں مشغول رہے اور وہاں کے اربا ب قلوب ، اصحاب باطن اور اہل
اللہ سے خصوصی روابط قائم کیے اور ان سے بھی عقدہ کشائی کے لیے استخاروں
اور دعاوٴں کی فرمائش کی ، معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں آپ پر سپردگی اور
تفویض کی خاص حالت طاری تھی اور جس طرح ایک بے اختیار غلام اپنے مالک کے
چشم و آبرو کا منتظر رہتا ہے ، کسی کام میں وہ اپنی رائے سے قدم نہیں
اٹھاتا ، اسی طرح آپ بھی چاہتے تھے کہ بارگاہ ربوبیت سے آپ کو کوئی مشورہ
ملے ، مکہ مکرمہ سے روضہٴ اقدس (علی صاحبہا الف الف تحیة) پر حاضری دینے کے
لیے روانہ ہوئے ، مدینہ طیبہ میں بتیس (۳۲) روز قیام رہا ، یہاں بھی دعاوٴں
اور استخاروں کا وہی سلسلہ رہا ، حضرت شیخ رحمہ اللہ پر ان دنوں بے قراری و
بے کسی کی عجیب کیفیت طاری تھی ، آپ یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ کیا انہیں
دارالعلوم ٹنڈوالہ یار میں رہنا چاہیے یا اپنا مستقل ادارہ قائم کرنا چاہیے
اور یہ کہ کیا مدرسہ سے مشاہرہ لے کر تعلیم وتدریس کا کام کریں یا طب وغیرہ
کو ذریعہ معاش بنا کر بلا معاوضہ یہ خدمت بجا لائیں ، مسلسل دعاوٴں ،
مشوروں اور استخاروں کے نتیجہ میں بالآخر آپ کی عقدہ کشائی ہوئی اور
مکاشفات کے ذریعہ آپ کو رہنمائی ملی کہ ٹنڈوالہ یار کا مدرسہ چھوڑ کر اپنا
مدرسہ قائم کریں ، کوئی ذریعہ معاش نہ اپنائیں بلکہ مشاہرہ لے کر یکسوئی سے
اپنے تمام اوقات تعلیم وتدریس اور دینی خدمات کے لیے وقف کردیں ۔
یہ صورت حال مدینہ منورہ میں قیام کے پندرہ روز بعد پیش آئی تھی ، جب حضرت
بنوری رحمہ اللہ واپس لوٹے تو فرماتے تھے مجھے کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ
کیا کروں ؟ کیسے کروں ؟ تقریبا ایک سال تک اسی شش وپنج میں رہے ،بالآخر
حضرت نے ٹنڈوالہ یار سے علیحدگی اختیار کر لی اور اپنا ایک الگ مدرسہ جاری
کرنے کا ارادہ فرمایا ، ایک صاحب جن کا نام مولانامحمد طفیل تھا انہوں نے
اس وقت کراچی میں ایک دار التصنیف قائم کر رکھا تھا ، موصوف نے مولانا
بنوری رحمہ اللہ کو ترغیب دی کہ آپ جس طرح چاہیں مدرسہ بنائیں ، مالی
ضروریات کی کفالت میں کروں گا ، مولانا نے ان کی رفاقت میں مدرسہ جاری کرنے
کا فیصلہ کرلیا ، ”ہب ندی “ کے قریب ایک بستی ”لال جیوا“ میں ایک متروکہ
ہندو دھرم سالہ مولانا طفیل کے زیر قبضہ تھا ، وہاں پر مولانا بنوری نے درس
وتدریس کا سلسلہ شروع کردیا ،مادی وسائل کی قلت ،کتابوں کی حصولی میں دقتوں
اور طلبہ کے وظائف ،اساتذہ کے مشاہرات کے حصول میں پیش آنے الی مشکلات کے
سبب حضرت شیخ رحمہ اللہ ابھی کام کی ابتداء کے بارے میں متردد ہی تھے کہ آپ
کی طرف سے اخبارات وجرائد میں یہ اعلان آگیا کہ درس نظامی کے فارغ التحصیل
طلبہ کے لیے درجہ تخصص اور درجہ تکمیل کا افتتاح مذکورہ مدرسہ میں کردیا
گیا ہے ،یہ اعلان ہوتے ہی درس نظامی کے دس فارغ التحصیل طلباء حضرت بنوری
رحمہ اللہ کے پاس پہنچ گئے ، جن میں دار العلوم دیوبند اور مظاہر العلوم
سہارنپور جیسے ہندوستان کے مشہور ومعروف مراکز علم کے طلبہ و فضلاء بھی تھے
، اس وقت صرف دو جماعتیں تھیں ، ایک دورہ حدیث کی اور ایک درجہ تکمیل کی ،
مدرسہ میں چونکہ ابتداء ً کچھ نہیں تھا اس لیے مولانا نے تعلیمی وتدریسی
رفاقت کے لیے اپنے پرانے دوستوں کو دعوت دی اور لکھا کہ فی الحال مدرسہ میں
تنخواہ کی گنجائش نہیں ہے ، توکلا علی اللہ کام کرنا ہوگا ، چنانچہ حضرت
بنوری رحمہ اللہ کی دعوت پر تین اشخاص مولانا محمد یوسف مردانی ، مولانا
لطف اللہ جہانگیروی اور مولانا عبد الحق نافع گل رحمہم اللہ نے لبیک کہی
،یہاں بے سروسامانی کا عالم تھا ، ایک عمارت میں رہائش تھی ، تنخواہ کی تو
ابتداء ہی سے کوئی توقع نہ تھی لیکن سب سے بڑی مشکل طلبہ کے لیے خورد ونوش
اور ضروریات زندگی کا سامان مہیا کرنا تھا ، یہ ویرانہ کراچی سے خاصی دور
تھا ، وہاں کا پانی بڑا کڑوا تھا ، پینے کا پانی بھی کراچی سے لانا پڑتا
تھا ، اس عمارت کے گرد وپیش غلاظت کے ڈھیر تھے ، جہاں مکھیوں کا ہجوم رہتا
تھا، درخت کے نیچے بیٹھ کر درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا گیا ،حضرت بنوری
رحمہ اللہ کراچی جا کر طلبہ کے لیے خوراک کا سامان خود لاتے ، الغرض یہاں
کا قیام ایسا تکلیف دہ تھا کہ اس کی تصویر کھینچنا ممکن نہیں ، یہ زمانہ
مولانا کے صبر واستقامت کے امتحان کا تھا ، ان دنوں مولانا مرحوم سراپا بے
کسی وبے چارگی کا مجسمہ تھے ، انہوں نے ان حالات کا بڑی جانکاہی اور پامردی
سے مقابلہ کیا ، اسی دوران مولانا محمد یوسف مردانی اور مولانا عبد الحق
نافع گل رحمہما اللہ واپس تشریف لے گئے اور حضرت بنوری اور مولانا لطف اللہ
جہانگیروی رحمہما اللہ اکیلے رہ گئے ، ابھی زیادہ وقت نہ گذرا تھا کہ آپ کو
یہ احساس ہوا کہ جن صاحب کی رفاقت میں یہ کام شروع کیا تھا ان کے ساتھ شریک
رہ کر اپنے مقصد کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتا ، نہ اپنی صوابدید کے مطابق
طلباء کی علمی ، اخلاقی ، عملی ، دینی اور دنیوی اعتبار سے صحیح تربیت
کرسکوں گا ، اس لیے کہ دونوں کے ذوق ، طبیعت اور خیالات میں بہت فرق اور
بُعد نکلا ۔
موجودہ صورت حال کے پیش نظراس جگہ اور اس ساتھی کو خیر باد کہہ کر یہ فیصلہ
ہوا کہ ان طلباء کو ساتھ لے کر یہاں کے بجائے مدرسہ کے لیے کوئی اور جگہ
ڈھونڈی جائے ،اور یہ سوچا گیا کہ ملک کے دار الخلافہ کراچی میں کوئی مناسب
جگہ دیکھ کر وہاں کام شروع کیا جائے اور اپنے طرز کے مدرسے کا آغاز کیا
جائے ،اس مقصد کے لیے آپ نے مرکز ایسے مرکزی مقام پر قائم کرنے کا ارادہ
فرمایا جہاں سے الحاد و بے دینی کے یہ فتنے پھوٹتے ہیں اور ملک میں پھیلتے
ہیں تاکہ ان نو بنو فتنوں سے بروقت آگاہی آسان ہو اور ظاہر ہے کہ ایسے مرکز
کے لیے کراچی سے زیادہ موزوں کوئی جگہ نہیں ہوسکتی تھی ، کیونکہ اس کو ایک
بین الاقوامی شہر کی حیثیت حاصل ہے ، حضرت بنوری رحمہ اللہ نے بھی ”مدرسہ
کی سہ سالی زندگی کا اجمالی خاکہ“میں اسی جانب اشارہ فرمایا ہے :
”پاکستان کے مرکز کراچی میں جو آئے دن مغربی تہذیب وتمدن کا جو جال پھیلتا
جارہا ہے اور مختلف طاقتیں اس کے دائرہ اثر کو روز بروز وسیع کرنے کی فکر
میں مشغول ہیں ، اگر دینی حفاظت کے ادارے دین اسلام کے متاع گراں مایہ کی
حفاظت کے لیے جدوجہد نہ کریں تو جو اس کا حشر ہوگا وہ ظاہر ہے “۔
اس کام کے لیے جمشید روڈ پر ایک زیر تعمیر جامع مسجد کا انتخاب کیا گیا
،حضرت بنوری رحمہ اللہ محض اللہ تعالی پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے رفیق غربت
اور یار غار مولانا لطف اللہ جہانگیروی رحمہ اللہ اور درجہ تکمیل کے دس
طلباء کے ساتھ اس جامع مسجد میں منتقل ہوگئے ،مسجد کے ساتھ ہی زمین کا ایک
قطعہ فارغ پڑا ہواتھا،مسجد کے منتظمین اس جگہ پر مسجدمکمل کرنے کے بعد
مدرسہ بنانا چاہتے تھے ، ان حضرت کا خیال تھا کہ مسجد کی تعمیر سے فارغ
ہونے کے بعد جب خدا توفیق دے گا اس جگہ دینی مدرسہ بنایا جائے گا ، حضرت
بنوری رحمہ اللہ مسجد کے سیکریٹری محمد سلیم صدیقی لکھنوی اور خزانچی حاجی
محمد یعقوب کالیہ دہلوی سے ملے ، اپنی تجویز پیش کی اور خواہش ظاہر کی کہ
اس خطہ کو آپ کے حوالہ کردیا جائے اور ان سے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ ہمیں
آپ سے کسی قسم کی مالی امداد ومعاونت نہیں چاہیے ، آپ حضرات پر کتابوں کی
خرید بوجھ ہوگا نہ طلبہ کے وظائف کا ، آپ صرف اتنا احسان کریں کہ اس خالی
زمین کے ویران ٹکڑے کو آباد کرنے کی اجازت دے دیجیے ، کمیٹی کے ارکان نے
مدرسہ کے تمام معاملات اور نظم کا معاملہ متفقہ طور پر آپ کے سپرد کردیا
۔حضرت بنوری رحمہ اللہ جب اس جامع مسجد میں پہنچے تو وہ بالکل ابتدائی
حالات میں تھی، صرف سنگ بنیاد ہی رکھا گیا تھا ،مسجد کے احاطہ میں صرف ٹین
کی چھت کا ایک حجرہ تھا ، اسی حجرہ میں حضرت بنوری اور مولانا لطف اللہ
رحمہما اللہ نے اپنا مختصر سا سامان رکھ دیا اور رات کو سونے کے لیے اپنے
ایک دیرینہ دوست کے گھر پر جو مدرسہ سے چند فرلانگ کے فاصلہ پر ہی تھا چلے
جاتے تھے ، اور مسجد میں ہی دن کو پڑھتے اور مسجد میں ہی رات کو سوتے اور
اپنا سامان خورد ونوش اور ضروری سامان بھی مسجد میں ہی رکھتے ، مسجد اس وقت
قطعا غیر محفوظ اور ہر طرف سے کھلی ہوئی تھی ، طلباء کے سامان کی حفاظت کا
کوئی انتظام نہ تھا ، وقتا فوقتا سامان چوری ہوجاتا تھا ، اسی ضرورت کے تحت
موجودہ حجرہ کی پختہ چھت اور اس کے ساتھ ہی طلبہ کے لیے دوسرے حجرے کی
تعمیر کے لیے خود حضرت بنوری رحمہ اللہ اپنے دوستوں سے تین سو روپے لائے
اور منتظمین کو دیے ، اور اس طرح دوسرا حجرہ بنا ،اسی طرح مسجد میں نہ وضو
خانہ تھا، نہ جائے حاجت ، غرض ضروریات زندگی کی کوئی خاطر خواہ سہولت موجود
نہ تھی ، اس بے سرو سامانی کے عالم میں کہ نہ طلباء کے خورد ونوش کی ہی
کوئی سبیل تھی نہ اساتذہ کو حق الخدمت دینے کا کوئی راستہ ، اپنے ایک مخلص
دوست سے آپ نے تین سو روپیہ قرض لے کر طلبہ کو تیس روپے ماہوار کے حساب سے
ایک ماہ کا وظیفہ تقسیم کیا یوں ۱۹۵۳ءء میں جامعہ علوم اسلامیہ کی بنیاد
رکھی گئی، اور اس طرح سے اس مبارک کام کی ابتداء حضرت بنوری رحمہ اللہ کی
حسب منشاء محض اللہ کے توکل اور بھروسہ پر ہوئی،حضرت بنوری رحمہ اللہ جامعہ
کے آغاز کے بارے میں ”اجمالی خاکہ “ میں تحریر فرماتے ہیں :
”بہت غور وخوض کے بعد انہی مقاصد دینیہ کے پیش نظر محض اللہ تعالی کی ذات
پر بھروسہ کرکے ۳محرم ۱۳۷۴ئھ میں انتہائی بے سروسامانی میں مدرسہ عربیہ
اسلامیہ کا افتتاح کیا گیا ، نہ رہنے کی جگہ تھی ، نہ کتابیں تھیں ، نہ
الماریاں تھیں ، نہ تپائی ، نہ چٹائی ، نہ طلبہ واساتذہ کے لیے آمدنی کا
کوئی ذریعہ ، نہ مجلس شوری تھی ، نہ چندہ جمع کرنے کے لیے کوئی سفیر مقرر
کیا گیا تھا ، نہ اخبارات یا اشتہارات میں چندہ کی اپیل کی گئی ، قرض پر
ایک ہزار کی کتابیں خریدی گئیں ، اور طلبہ کے مصارف کے لیے قرض رقم مہیا کی
گئی، لیکن اللہ کا شکر ادا نہیں کر سکتا“۔
حضرت بنوری رحمہ اللہ کے اخلاص وتعلق مع اللہ کی برکت سے قلیل عرصہ میں
معنوی خوبیوں کے ساتھ ظاہری محاسن میں بھی اوج کمال تک پہنچا ،اب اللہ
تعالی کا کرم ہے اور حضرت بنوری رحمہ اللہ کے غلبہٴ اخلاص کی برکت کا نتیجہ
ہے کہ آج جامعہ کی شاندار عمارت موجود ہے اور اساتذہ وطلبہ کے لیے تمام
ضروریات وسہولیات دستیاب ہیں ، تحفیظ القرآن سے لے کر تخصصات تک کی تعلیم
کا نہایت اعلی انتظام موجود ہے اور اللہ نے اس دینی مرکز کو حضرت مولانا
علیہ الرحمة کے اخلاص کی برکت سے وہ مقبولیت عطافرمائی کہ جس کی نظیر مشکل
سے ملے گی ،جامعہ اپنے اسلاف اور اکابر کی روایات کے مطابق ایک طرف اشتہاری
اور پروپیگنڈے کی دنیا سے کوسوں دور ہے تو دوسری طرف قبولیت کا یہ عالم ہے
کہ دنیا کے کونے کونے سے تشنگان علم اور مغربی تہذیب وتمدن سے تنگ آئے ہوئے
لوگ علم کے حصول اور قلبی تسکین پانے کے لیے آرہے ہیں ، اگر ایک طرف ملک کے
اطراف واکناف سے آئے ہوئے طلباء استفادہ کررہے ہیں تو دوسری طرف بیرون ملک
کے کئی ممالک کے طلباء بھی طلب علم میں مصروف نظر آئیں گے ، اور قلیل عرصہ
میں ہزاروں علمائے کرام علوم دینیہ سے فارغ ہوکر ملک اور بیرون ملک خدمت
دین میں مشغول ہیں ان میں تقریبا ساٹھ بیرونی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔
حضرت بنوری رحمہ اللہ کی تصانیف
حضرت بنوری رحمہ اللہ کی اکثرتصانیف عربی میں ہیں جو عربی ادب کا شاہ
کارہیں ، آپ کی تصانیف اہل عرب پڑھ کر حیرت میں رہ جاتے تھے کہ ایک غیر اہل
لسان بھی اتنی اعلی عربی لکھ سکتا ہے ، آپ نے اپنی تمام تالیفات میں اسلوب
تحریر بالکل اچھوتا ومنفر رکھا تھا ، دوسروں کی عبارتیں نقل کرنے کے بجائے
اپنے الفاظ میں ان کا خلاصہ اس طرح نکالتے تھے کہ اصل عبارت سے کم جگہ میں
اس شرط کے ساتھ کہ اس میں سے کچھ رہ بھی نہ جائے اور سمجھنے میں کوئی دقت
بھی نہ ہو ، آپ کی تالیفات درج ذیل ہیں :
۱- بغیة الأریب فی مسائل القبلة والمحاریب : اپنے موضوع پر عربی میں منفرد
کتاب ہے ،پہلی بار قاہرہ سے ۱۳۵۷ئھ میں شائع ہوئی،اس کے بعد ”مجلس دعوت
وتحقیق اسلامی“ کی طرف سے بھی شائع ہوچکی ہے ۔
۲-نفحة العنبر فی حیاة امام العصر الشیخ محمد انور: اپنے محبوب شیخ کے علمی
کمالات وحالات ، علمی مزایا وخصوصیات ، اشعار ، علماء واکابر کی ان کے بارے
میں رائے ، ان کے فضائل وکمالات کا حسین مرقع ہے ، آپ نے اس کتاب کو نہایت
عمدہ اور اعلی عربی ادب میں پیش کیا ہے ، چنانچہ علماء عرب نے اس کی بہت
قدر کی ، ایک چوٹی کے عالم نے آپ کو لکھا ” قرأت کتابک فسجدت لبیانک“ یہ
کتاب پہلی بار دہلی میں ۱۳۵۳ئھ میں شائع ہوئی ، دوبارہ پاکستان میں ٹائپ سے
بہترین شکل میں شائع ہوچکی ہے ۔
۳- یتیمة البیان فی شییٴ من علوم القرآن : علوم قرآن پر ایک بے نظیر علمی
شاہکار ہے ، جو در اصل امام العصر مولانا انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کی
کتاب ”مشکلات القرآن “ کا مقدمہ ہے ، ۱۹۳۶ءء میں دہلی سے اور پھر بعد میں
پاکستان میں ”مجلس دعوت وتحقیق اسلامی “ کی طرف سے مستقل کتابی صورت میں
ٹائپ سے شائع ہوچکی ہے ۔
۴-معارف السنن شرح سنن الترمذی : جامع ترمذی کی بے نظیر محققانہ شرح ہے ،
چھ جلدوں میں ”کتاب المناسک“ تک ہوئی ہے ، ”کتاب الجنائز “ سے آخر تک کا
حصہ باقی رہ گیا ہے ، افسوس یہ کتاب مکمل نہ ہوسکی ورنہ علوم نبوت کے
شائقین اور حدیث کے پڑھانے والوں کے لیے بہا ذخیرہ ہوتی ، آپ اکثر فرمایا
کرتے تھے کہ اس کو پورا کرنا ہے لیکن:
ما کل یتمنی المرأ یدرکہ
تجری الریاح بما لا تشتہی السفن
کچھ دنوں ”دارالتصنیف “ میں بیٹھ کر معارف السنن کی چھٹی جلدکے اخیر ابواب
مکمل کیے ، ”معارف السنن“ کے مقدمہ ”عوارف المنن “ پر کچھ کام کیا لیکن پھر
گھٹنوں کی تکلیف کی وجہ سے اوپر چڑھنا دشوار ہوگیا اور کام معطل ہوگیا۔
۶- عوارف المنن مقدّمہ معارف السنن: مستقل کتابی صورت میں ایک جلد پر مشتمل
ہے ، دو تہائی حصہ مکمل ہوچکا تھا ، فرمایا کرتے تھے کہ اسے چھاپنا شروع
کردو ، ساتھ ساتھ مکمل کردوں گا ، مشاغل اور مصروفیات کی وجہ سے آپ کی
زندگی میں اس کے طبع ہونے کا خواب شرمندہٴ تعبیر نہ ہوسکا ،اب عنقریب انشاء
اللہ چھپ کر منصہ شہود پر آنے والی ہے ۔
۷- الأستاذ المودودی وشییٴ من حیاتہ وأفکارہ : یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے
،اس کتاب میں حضرت بنوری رحمہ اللہ نے مولانا مودودی صاحب کے ان غلط نظریات
وافکار کو پیش کیا ہے جن سے عام لوگ ناواقف ہیں اور جو ان کے نظریات وافکار
وعقائدکے خراب ہونے کا ذریعہ بن سکتی ہیں ،اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا
ہے،یہ آخری تالیف ہے جو حضرت بنوری رحمہ اللہ نے تحریر فرمائی اس کا تیسرا
حصہ بھی آپ نے لکھنا تھا لیکن وقت اجل آپہنچا ۔
۸- القصائد البنوریة :حضرت بنوری رحمہ اللہ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے ،
عربی زبان میں نہایت عمدہ اور آبدار شعر کہتے تھے ، یہ کتاب آپ کی وفات کے
بعد شائع کی گئی ،اس میں آپ کے تمام منظوم کلام کو یکجا کردیا گیا ہے جس
میں اسلامی شاعری کی مشہور اصناف حمد ، مناجات ، نعت اور رثاء کے علاوہ بھی
کافی نظمیں شامل ہیں جو آپ نے مختلف مواقع پر کہیں، ان قصائد میں سے بعض
نعتیں ایسی بھی ہیں جو مصر اورشام کے مجلات کی زینت بن چکی ہیں ۔
۹- المقدمات البنوریة : حضرت بنوری رحمہ اللہ کے بہار آفریں قلم سے عربی ،
فارسی اور اردو کی بہت سی کتابوں پر علمی وتحقیقی مقدمات ہیں، ان مقدمات
میں اپنے موضوع سے متعلق انتہائی نفیس اور قیمتی مباحث ہیں جو کہ آپ جیسی
علمی شخصیت ہی کا خاصہ ہے ،ان مقدمات میں حدیث کی مشہور کتابوں پرانتہائی
تفصیلی مقدمات بھی شامل ہیں جو عالم اسلام کے اہل علم وتحقیق سے داد تحسین
بھی حاصل کرچکے ہیں،جس میں مقدمہ ”نصب الرایہ“ ، مقدمہ ”فیض الباری “،
مقدمہ ”اوجز المسالک “اور مقدمہ”لامع الدراری“شامل ہیں، اس کتاب کی اشاعت
بھی آپ کی وفات کے بعد عمل پذیر میں آئی ۔
۱۰-بصائر وعبر :اردوزبان میں حالات حاضرہ ، قومی وملی مسائل اور ردّ الحاد
وزندقہ پر آپ کے علمی وتحقیقی مضامین اور آپ کے بے باک قلم کے اچھوتے
شاہکار جامعہ کے ترجمان ”بینات “ کے صفحات پر قارئین کے لیے ہمیشہ ”بصائر
وعبر“ کے نام سے بصیرت وعبرت کا سامان بہم پہنچاتے رہے ، ان تمام مضامین کو
موضوعات کی ترتیب سے الگ الگ عنوانات سے دو جلدوں میں شائع کردیا گیا ہے
،یہ کتاب بھی آپ کی وفات کے بعد طبع ہوئی۔
حضرت بنوری رحمہ اللہ کی یہ ایک نمایاں خصوصیت تھی کہ اللہ کے مقرب بندے
اور اولیاء اللہ آپ سے بہت محبت کرتے تھے ، آپ بھی اہل اللہ کو دل سے چاہتے
اور ان کا انتہائی احترام فرماتے تھے ، ۱۳۵۷ئھ میں (جب آپ بلادعرب کے مختلف
ممالک کے دورے پر تھے) حج کے موقعہ پر مکہ مکرمہ میں حضرت حاجی شفیع الدین
نگینوی قدس سرہ (خلیفہ ارشد شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر
مکی قدس سرہ )کے دست حق پر بیعت کا شرف حاصل کیا پھر انہیں سے اجازت پائی ،
حضرت حاجی صاحب نگینوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سلوک کی تعلیم وتربیت کے لیے
ہندوستان میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اور حضرت مولانا سید
حسین احمد مدنی رحمہ اللہ میں سے کسی ایک سے رجوع کریں ، حضرت بنوری رحمہ
اللہ نے عرض کیا کہ میرا طبعی میلان حضرت مولانا مدنی رحمہ اللہ کی طرف ہے
، حضرت حاجی صاحب نگینوی رحمہ اللہ نے صاد فرمایا ،چنانچہ ہندوستان واپس
آکر ۱۳۵۹ئھ میں شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ کے فیض صحبت سے تصوف وسلوک
کی تربیت کے لیے مستفید ہوتے رہے ،حضرت مدنی رحمہ اللہ سے خط وکتابت اور
تعلیم وتربیت کا سلسلہ ان کی آخر حیات تک قائم رہا ، ساتھ ہی حکیم الامت
حضرت تھانوی رحمہ اللہ سے خصوصی ربط اور نیازمندانہ تعلق رہا ، حضرت تھانوی
رحمہ اللہ نے آپ کو اپنا مجاز بیعت اور خلیفہ مقرر فرمایا اور اپنے خلفاء
میں نام بھی شائع کرایا۔
آپ کا نظریہ تھا کہ علماء کی ذمہ داریاں صرف مدرسہ کی چار دیواری تک محدود
نہیں بلکہ امت مسلمہ کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت بھی علماء
کی ذمہ داری ہے ، چنانچہ آپ کی پوری عملی زندگی میں شاید ہی کوئی موقع ایسا
آیا ہو گا کہ مسلمانوں کے دینی ماحول ومعاشرہ میں کسی بھی نام سے کفر
والحاد یا زیغ وضلال کی دساست یا بغاوت ہوئی ہو اور آپ نے اس کی سرکوبی میں
قائدانہ کردار ادا نہ کیا ہو۔آپ عملی طور پر تو سیاست سے کنارہ کش رہے اور
گوشہٴ گمنامی میں بیٹھ کر تعلیم وتدریس ، تصنیف وتالیف اور اصلاح ارشاد کے
کام میں مشغول رہے ، لیکن جب بھی کوئی دینی تقاضا سامنے آیا تو مولانا
بنوری رحمہ اللہ خم ٹھونک کر میدان میں کود پڑے ۔آپ کے افکار کا افق نہایت
وسیع تھا ، آپ ہمیشہ بین الاسلامی بلکہ بین الاقوامی سطح پر سوچتے تھے ،
اپنے ملک کے علاوہ عالم اسلام اور بلاد عربیہ کی دینی علمی اور سیاسی حالات
پر ہمیشہ گہری نظر رکھتے تھے ، ان کی دینی ،علمی اور سیاسی ترقی پر خوشی
ومسرت کا اظہار فرماتے اور اگر ان میدانوں میں ان کے ضعف اور کمزوری کی خبر
سنتے تو ان کو قلبی رنج پہنچتا ،اپنی خوشی یا رنج کا اظہار اپنے خطوط میں
فرماتے یا ”بینات “ کے ”بصائر وعبر“ میں بیان فرماتے ، اور ساتھ ساتھ اس
مرض کا علاج بھی ناصحانہ انداز میں ذکر فرماتے ، بعض دفعہ ان ممالک کے ملوک
اور روٴسا کو بالمشافہ یا خطوط کے ذریعہ نصیحت فرماتے ، آپ کا ہر سفر بلاد
عربیہ کا ہو یا دوسرے ممالک کا علمی افادہ یا دعوت وارشاد کی غرض سے ہوتا
تھا ، آپ نے کسی مادی غرض کے لیے کبھی کوئی سفر نہیں فرمایا.اکثر بلاد
اسلامیہ سے آپ کے پاس دعوت نامے آتے رہتے تھے ، لیکن کثرت مشاغل اور ذمہ
داریوں کی زیادتی کی وجہ سے عموما سفر نہ فرماتے تھے لیکن اگر کوئی اہم
دینی ضرورت محسوس فرماتے تو خواہ کتنے ہی علیل ہوں سفر میں تاخیر نہ فرماتے
۔
حوالوںضرت بنوری کو حدیث کی اجازت درج ذیل مشایخ ومحدثین سے حاصل تھی :
1. امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ ۔
2. حضرت مولانا عبد الرحمن امروہوی۔
3. حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی۔
4. حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی۔
5. حضرت مولانا عزیز الرحمن۔
6. شیخ حسین بن محمد طرابلسی۔
7. شیخ علامہ محمد زاہدکوثری۔
8. شیخ عمر حمدان مقدسی مالکی۔
9. شیخ محمد بن حبیب اللہ بن مایابی حبنکی شنقیطی۔
10. شیخ خلیل خالدی مقدسی۔
11. شیخہ امة اللہ بنت شیخ شاہ عبدالغنی
*آپ کی دینی خدمات اور ذمہ داریاں درج ذیل ہیں۔
بانی وشیخ الحدیث جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاوٴن کراچی۔
* رکن ”المجمع العلمی العربی“جمہوریہ سوریہ، شام۔
* نگران اعلی مجلس علمی جنوبی افریقہ ،ہندوستان ،کراچی۔
* رکن ”مجمع البحوث الاسلامیہ“ قاہرہ ، مصر۔
* شیخ التفسیر دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈوالہ یار،سندھ۔
* صدر ”وفاق المدارس العربیہ “پاکستان۔
* رکن ”رابطة العالم الاسلامی“،مکہ مکرمہ۔
* رکن انتخاب اساتذہ کمیٹی کراچی یونیورسٹی۔
* صدر مجلس دعوت وتحقیق اسلامی ،کراچی۔
* رکن اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان۔
* شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ ڈابھیل۔
* امیر وقائد عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت ۔
* صدرکل پاکستان مجلس عمل ۔
* جنرل سیکریٹری جمعیة علماء ہند۔
* صدر جمعیة علماء گجرات وبمبئی۔
رحلت
علم وعرفان ، معرفت وایقان کا یہ آفتاب دل کے عارضہ میں تین دن مبتلا رہ کر
۳ ذی قعدہ۱۳۹۷ھ مطابق ۱۷/اکتوبر ۱۹۷۷ء کو یکایک غروب ہوگیا ،اورحضرت بنوری
کو آپ کے بنائے ہوئے ادارے کے ہی احاطے میں دفن کیا گیا ۔ |