ام محمد سلمان
یہ میرے بہت بچپن کی بات ہے جب چھوٹی خالہ کے سسرال جانے کا اتفاق ہوتا تھا۔
مجھے نانی اماں کے گھر اور چھوٹی خالہ کے سسرال میں واضح فرق محسوس ہوتا۔
نانی اماں کا گھرانہ ایک بہت روایتی سا گھرانہ تھا۔ گھر کے کام کاج، سلائی
بنائی، نمازیں، قرآن مجید کی تلاوت اور بچوں کے سپارہ پڑھنے پر خصوصی توجہ
دینا، رشتہ داروں سے ملنا ملانا۔ اس سارے شیڈول میں صرف رات 8 بجے ٹی وی پر
آنے والا ڈرامہ اور کبھی کبھار وی سی آر پر کوئی گھریلو سی فلم بھی دیکھ لی
جاتی۔ مگر جو تبدیلی میں نے چھوٹی خالہ کے گھر میں محسوس کی تھی وہ کچھ اور
تھی۔ وہاں صبح ہوتی تولوگ ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے کوئی اﷲ کا نام لیتا نہ
نماز قرآن سے کسی کا کوئی واسطہ تھا۔ خالہ کی نند صبح ناشتے کے ساتھ ہی
فرمائش کر دیتیں کہ آج یہ والی فلم دیکھنی ہے اور بس پھر سارا گھر اس مشن
پر لگ جاتا، تبصرے ہوتے، ہیرو ہیروئن کی تعریفیں ہوتیں، ولن کو گالیاں،
ہیروئن کے بالوں اور کپڑوں پر گفتگو اور پھر اس کے مطابق اپنے شادی بیاہ کے
فنکشنز کی پلاننگ کی جاتی۔
عجیب ہی طرزِ زندگی تھا ان لوگوں کا، نہ دنیا کی فکر تھی نہ آخرت کی۔ بس ٹی
وی کے سہارے زندہ تھے۔ ایک فلم ختم ہوتی تو دوسری لگا لی جاتی، کیبل سسٹم
پورے محلے میں لگا ہوا تھا یعنی گناہ میں صرف اکیلے ہی نہیں پورے محلے کے
افراد کو شریک کر رکھا تھا۔ کبھی کسی گھر سے کوئی بچہ یا خاتون آکر فرمائش
کرتیں کہ یہ والی فلم لگا دیں اور کبھی کسی اور گھر سے اور پھر ڈش انٹینا
کا دور آیا اور اس نے رہی سہی سب کسر پوری کر دی۔ اب ڈش انٹینا پر صرف
انڈیا کی فلمیں ہی نہیں بلکہ ان کے ڈرامے بھی دیکھے جاتے اور دنیا بھر کے
سارے چینلز بھی اور صرف اکیلے نہیں، لیڈ بھی سارے جہان میں بانٹی جاتی۔
اور پھر آہستہ آہستہ میڈیا ہماری پوری معاشرت پر چھا گیا۔ لڑکیاں گھر میں
رہیں گی تو ایسے، کپڑے پہنیں گی تو ایسے، شادی کریں گی تو ایسے، گھر میں
شوہر ہو تو وہ ایسا، بچے اس طرح اسکول جائیں گے، ان کی خدمت کے لیے آیا
ہونی چاہییں۔ ہمیں گھر میں آرام ملنا چاہیے، ہم ہی کیوں سب کی خدمت کریں؟
آخر زندگی پر ہمارا اپنا بھی تو کچھ حق ہے؟ ہمارے لیے الگ کمرہ ہونا چاہیے،
پرائیویسی ہونی چاہیے، ہمارے موبائلز کوئی چیک نہ کرے، ہم اپنے اچھے برے کے
خود ذمہ دار ہیں لہٰذا ماں باپ ہمارے معاملات میں مداخلت نہ کریں، ہم
دوستوں کے ساتھ گھومیں پھریں، مخلوط پارٹیز اٹینڈ کریں، لڑکوں سے دوستیاں
رکھیں۔ یہی سب کچھ تو دکھایا جاتا ہے تو پھر ہم یہ سب کچھ کیوں نہ کریں؟
ٹی وی چینلز کے ہر ڈرامے میں لڑکا لڑکی کا افیئر ضروری ہے پھر اس محبت کو
پانے کے لیے گھر سے بھاگنا اور ماں باپ کی عزت کو داؤ پر لگانا بھی ضروری
ہے ۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہو سکا اور شادی پسند کے خلاف ہو ہی گئی تو اب نئی
زندگی میں ایڈجسٹ ہونے کا درس سکھانے کی بجائے یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ اب
بھی اپنے پرانے بوائے فرینڈ سے تعلق رکھ سکتی ہیں، آخر اس میں برائی کیا ہے؟
اب وہ بوائے فرینڈ سے دوست بن گیا اور اگر یہ بھی نہ ہو سکا تو زندگی،
بچھڑے محبوب کے تصور میں جلنے کڑھنے اور اسے کسی بھی طرح دوبارہ حاصل کرنے
کے لیے ہے۔ نوجوان نسل میں ان ناجائز دوستیوں کو فروغ دینے میں ہمارے میڈیا
نے بد ترین کردار ادا کیا ہے۔ ایسے ایسے ہوش ربا پہناوے اور ادائیں دکھائی
جاتی ہیں کہ بندے کا ایمان ڈول ڈول جاتا ہے۔ مادی چیزوں کا حصول زندگی کا
سب سے بڑا مقصد بن گیا۔ اچھا گھر بنگلہ، گاڑی، بہترین نوکری اعلیٰ ڈگریاں،
بہترین لائف اسٹائل، فحاشی، عریانی، بے شرمی، بے حیائی۔ مختصر یہ کہ میڈیا
بری طرح ہمارے دل و دماغ پر چھا چکا ہے، ہم مفلوج ہو چکے ہیں، کچھ سوچنے
سمجھنے کے لائق نہیں رہے بس ایک بھیڑ چال ہے، ہم جس کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔
میڈیا نے کس طرح ہماری مشرقی روایات کا خون کر دیا۔ وہ عورتیں جو اپنے گھر
کے کام کاج کو عبادت سمجھتی تھیں، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں کام آتی تھیں،
آج وہی عورتیں اپنا رخ بدل کر بیٹھ گئیں۔ صبح ہوتی ہے تو شوہر اور بچوں کو
گھر سے باہر بھیجتے ہی ٹی وی پر مارننگ شو لگا کر بیٹھ جاتی ہیں اور شوہر،
بچوں کے آنے پر جلدی جلدی الٹے سیدھے کام نمٹاتی ہیں۔ صحت بخش، محنت اور
وقت طلب چیزیں ہمارے گھریلو مینو سے خارج ہو چکیں، پہلے مائیں اپنے بچوں کی
ذہنی نشوونما کے لیے مقوی حلوہ جات بنایا کرتیں، بڑی محبت سے انہیں ناشتے
میں کھلایا کرتیں۔ بچوں کی صبح ’’ماں کی تلاوت‘‘ کی آواز اور اس کے بعد اس
کے ہاتھوں کے بنے خستہ مزیدار پراٹھوں کی خوشبو سے ہوا کرتی تھی مگر افسوس!
آج کی ماں ڈبل روٹی پہ بلو بینڈ مارجرین لگا کر بچوں کو چائے کے ساتھ دے
دیتی ہے۔ آج ہماری خواتین پردہ کرنے سے کتراتی ہیں کیونکہ سالہا سال انہیں
دکھایا گیا کہ اصل عزت دار تو یہ عورتیں ہیں جو حیا سے آزاد اور بے نیاز
ہیں۔
اے میرے پاکستانی میڈیا! تم نے ہماری ترجیحات بدل دیں۔ ہماری خواتین کو
گمراہ کر دیا انہیں بے پردگی، فیشن پرستی، آرام طلبی اور فحاشی پر لگا دیا۔
تمہاری ہی بدولت خواتین نے ہر طرح کی آزادی کو اپنا حق سمجھ لیا۔ فیشن کے
نام پر اپنی مذہبی روایات سے کوسوں دور چلی گئیں۔ اپنی روشن اقدار کو کہیں
گم کر دیا اپنے بچوں کو ممتا کی شفقت سے اور اپنے گھر والوں کو اپنی بے لوث
چاہتوں سے محروم کر دیا۔ ہماری نوجوان نسل آخرت کے تصور سے بیگانہ ہوتی
جارہی ہے، ہمارے چھوٹے بڑے بچے اسلام اور خدا کے وجود پر انگلی اٹھاتے ہیں،
مذہب انہیں فضول سی چیز لگتا ہے۔ جنت دوزخ کوئی افسانوی چیزیں لگتی ہیں۔ تم
نے صرف ہماری اقدار ہی کا نہیں، ہمارے مذہبی عقائد کا بھی جنازہ نکال دیا۔
اے میرے پاکستانی میڈیا کو چلانے والے بھائیو! کاش تم نے اس قوم کے ساتھ یہ
ظلم نہ کیا ہوتا، اپنی بہنوں، بیٹیوں کی چادروں کو اپنے پیروں تلے نہ روندا
ہوتا۔ ان ماؤں کی عظمت کو پامال نہ کیا ہوتا۔ ان پاک باز بیٹیوں کو اپنی
ہوس کی بھینٹ نہ چڑھایا ہوتا۔ ابھی بھی وقت نہیں گزرا، چار پیسوں کے لالچ
میں اپنی آخرت برباد نہ کرو۔ اسی میڈیا کو جیسے وطن عزیز کی بربادی میں
استعمال کیا تھا، آج اسی میڈیا سے ارضِ پاک کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنا
بھی تمہاری ذمہ داری ہے۔ جس طرح سے اسلام اور اسلامی ملک کے روشن چہرے کو
تم نے مسخ کیا ہے، اسی طرح اس مذہب و ملت اور ملک و قوم کی اصل شناخت واپس
لانا بھی تمہارا کام ہے۔ اچھے لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنی غلطیوں پر شرمندہ ہو
کر انہیں سدھارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ صبح کا بھولا شام کو گھر لوٹ آئے تو
اسے بھولا نہیں کہتے۔ اﷲ انتظار کرتا ہے اپنے بندوں کی توبہ کا۔ بڑی رسوائی
ہوگئی، بس اب لوٹ آؤ۔
|