اگلا شخص ایک بہت دولتمند آدمی تھا۔ پوچھا
گیا:
’’دولت کے خزانے تو پیچھے چھوڑ آئے ہو۔ یہ بتاؤ کہ مال کیسے کمایا اور کیسے
خرچ کیا تھا؟‘‘
اس نے جواب دیا:
’’پروردگار! میں کاروبار کرتا تھا۔ اس سے جو مال کمایا وہ غریبوں پر خرچ
کیا۔‘‘
فرشتے کو اشارہ ہوا۔ اس نے تفصیل بیان کرنا شروع کی جس کے مطابق اس شخص نے
زندگی میں کھربوں روپے کمائے ۔ ابتدائی زندگی میں چھوٹے کاروبار سے آغاز
کیا۔ چینی، آٹا اور دیگر بنیادی ضرورت کی اشیا میں ملاوٹ اور ذخیرہ اندوزی
وغیرہ کی بنا پر بہت منافع کمایا اور اس کا بزنس تیزی سے پھیل گیا۔ اس کے
بعد اس نے کئی اور کاروبار کر لیے ۔ مگر اس دفعہ مال کمانے کے لیے اس نے
اپنے جیسے کئی دوسرے لٹیروں کو ساتھ ملا کر ایک کارٹل بنالیا۔ کارٹل کا کام
ہی یہ تھا کہ مارکیٹ کو کنٹرول کر کے اپنی مرضی کی قیمت پر اشیا فروخت کی
جائیں ۔ یہ کارٹل جو انتہائی بارسوخ افراد پر مشتمل تھا اپنے سیاسی رابطوں
اور رشوت کے ذریعے سے اپنی مرضی کی قیمتیں طے کراتا۔ یوں غریب عوام مہنگائی
کی چکی میں پستے رہے اور ان کا سرمایہ کروڑوں سے اربوں اور اربوں سے کھربوں
میں بدلتا گیا۔ معاشرے میں اپنا تشخص برقرار رکھنے کے لیے یہ اپنے خزانوں
میں سے چند سکے خیرات کرتا اور ڈھیروں واہ واہ کماتا۔
فرشتے کے بیان کے بعد کچھ کہنے سننے کی گنجائش ختم ہوگئی، مگر یہ سیٹھ بہت
چالاک شخص تھا۔ اس نے چیخ چیخ کر کہنا شروع کر دیا کہ یہ سارا بیان بالکل
غلط ہے ۔ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ میں نے ہر چیز قانون کے مطابق کی
ہے ۔ مارکیٹ کے تقاضوں کے مطابق کاروبار کیا۔ میرے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے
۔ یہ فرشتہ جھوٹ بول رہا ہے ۔ وہ مسلسل چیخے جا رہا تھا۔
آواز آئی:
’’تو تجھے ثبوت چاہیے ۔ وہ بھی مل جائے گا۔‘‘
ان الفاظ کے ساتھ ہی سیٹھ کی آواز بند ہوگئی۔ یکایک اس کے ہاتھ سے آواز آنا
شروع ہوگئی۔ کم و بیش وہی بیان دہرا دیا گیا جو فرشتے نے دیا تھا۔ پھر ایسی
ہی گواہی اس کے پیروں سے آنا شروع ہوگئی۔ اور رفتہ رفتہ پورے جسم نے اس کے
خلاف گواہی دے دی۔ حتیٰ کہ اس کے سینے نے اس کے دل کی وہ نیت بھی بیان کر
دی جو فرشتوں کے ریکارڈ میں درج نہ تھی۔
اس گواہی کے بعد کہنے سننے کی ساری گنجائش ختم ہوگئی اور وہی انجام سامنے آ
گیا جو پچھلوں کے سامنے آیا تھا۔ صرف ایک اضافی بات ہوئی وہ یہ کہ فرشتوں
کو حکم ہوا کہ جہنم میں دیگر عذابوں کے ساتھ اس کے مال و دولت اور خزانوں
کو آگ میں دہکایا جائے اور اس سے اس کی پیٹھ، اس کی پیشانی اور اس کی کمر
کو بار بار داغا جائے ۔ اس کے بعد فرشتے منہ کے بل اسے گھسیٹتے ہوئے جہنم
کی سمت لے گئے ۔
ایک ایک کر کے لوگ آتے جا رہے تھے اور ان کے معاملات نمٹتے جا رہے تھے ۔
چند لوگوں کا معاملہ بڑ ا ہی عبرتناک تھا۔ ان میں سے پہلا شخص آیا تو محسوس
ہوا کہ اس کے نامۂ اعمال میں نیکیوں کے پہاڑ ہیں ۔ عبادت، ریاضت، نوافل،
اذکار، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور عمرے کی قطار تھی جو اس کے نامۂ اعمال سے
ختم ہی نہیں ہورہی تھی۔ مگر اس کے بعد فرشتے نے ا س کے نامۂ اعمال میں
موجود ان اعمال کو پڑ ھنا شروع کیا جن کا تعلق مخلوق خدا کے ساتھ تھا تو
معلوم ہوا کہ کسی کو گالی دی ہے ، کسی کا مال دبایا ہے ، کسی پر تہمت لگائی
ہے ، کسی کو مارا پیٹا ہے ۔ چنانچہ بارگاہ الٰہی سے فیصلہ ہوا کہ سارے
مظلوموں کو بلا لو۔ اس کے بعد ہر مظلوم کو اس کے حصے کی نیکیاں دے دی گئیں
۔ کچھ مظلوم پھر بھی رہ گئے تو حکم ہوا کہ ان کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال
دو۔ اس کے بعد جب اعمال کا وزن ہوا تو الٹے ہاتھ کا پلڑ ا بالکل جھک گیا۔
وہ شخص چیختا چلاتا رہا، مگر اس کی ایک نہ چلی اور فرشتے اسے کھینچتے ہوئے
جہنم کی سمت لے گئے ۔
کچھ لوگ ایسے آئے جن کا انجام دیکھ کر مجھے اپنی فکر پڑ گئی۔ ان میں سے ایک
عالم تھا۔ وہ پیش ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی ساری نعمتیں یاد دلائیں
اور پھر اس سے پوچھا کہ تم نے جواب میں کیا کیا۔ اس نے اپنے علمی اور دعوتی
کارنامے سنانے شروع کیے ۔ جواب میں اسے کہا گیا کہ تو جھوٹ بولتا ہے ۔ تو
نے یہ سب اس لیے کیا کہ تجھے عالم کہا جائے ۔ سو دنیا میں کہہ دیا گیا۔
فیصلے کا نتیجہ صاف تھا۔ چنانچہ فرشتے اسے منہ کے بل گھسیٹتے ہوئے جہنم کی
سمت لے گئے ۔ ایسا ہی معاملہ ایک شہید اور ایک سخی کے ساتھ ہوا۔ ان سے بھی
وہی سوال ہوا۔ انہوں نے بھی اپنے کارنامے سنائے ۔ مگر ہر دفعہ یہی جواب ملا
کہ تم نے جو کچھ کیا دنیا میں لوگوں کو دکھانے اور ان کی نظروں میں مقام
پانے کے لیے کیا۔ سو وہی تعریف تمھارا بدلہ ہے ۔ نہ میرے لیے کچھ کیا نہ
میرے پاس دینے کے لیے کچھ ہے ۔ انہیں بھی جہنم کی سمت روانہ کر دیا گیا۔ ان
لوگوں کا حساب کتاب ہورہا تھا اور میں حساب لگا رہا تھا کہ میں نے کتنے کام
اللہ کے لیے کیے اور کتنے لوگوں کی نظروں میں مقام و بڑ ائی پانے کے لیے ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔ |