الحمد للہ علی احسانہ مجھے اس عنوان پر یہ
تیسرا کالم پیش کرنے کی توفیق رب تعالٰی کی بارگاہ لم یزل سے عطا ہوئی اس
کالم میں پہلے دو مضامین سے ہٹ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چند
امتیازات کا ذکر کیا جائے گا جو کہ شریعت کے احکامات میں اللہ تعالٰی نے
آپ کو عنایت فرمائے۔
اول فرق
تمام امت مسلمہ کا کلمہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے لیکن حضور ﷺ کا
کلمہ لا الہ الا اللہ انی رسول اللہ ہے مزید یہ کہ حضور ﷺ کے اسم مبارک کی
برکت یہ ہے کہ کفار و مشرکین جن کو قرآن عظیم نے نجس بتایا جب وہ یہ کلمہ
لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھ لیتا ہے تو اس کی تمام نجاست دور ہو
جاتی ہے اور وہ رب تعالٰی کے انعامات کا دنیا و آخرت میں مستحق ہو جاتا ہے
بشرط یہ کہ اس کا خاتمہ بھی اسی کلمہ پر ہو حالانکہ توحید کے ماننے والے
اور بھی لوگ موجود ہیں لیکن اس کے باوجود وہ مسلمان نہیں اور ان انعامات کے
مستحق نہیں کیونکہ انہوں نے زبان رسالت مآب سے تعلیم کردہ توحید کا اقرار
نہیں کیا۔
دوسرا فرق
یہ ہے کہ ہمارے لئے ارکان اسلام پانچ ہیں کلمہ توحید و رسالت نماز روزہ
زکوۃ اور حج جبکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زکوۃ فرض نہیں
۔ اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے امام جلال الدین سیوطی شافعی الخصائص الکبری
جلد ۲ صفحہ نمبر ۵۱۶ پر فرماتے ہیں کہ زکوۃ ان لوگوں پر واجب ہوتی ہے جو یہ
چاہتے ہیں کہ زکوۃ ادا کر کے طہارت مال حاصل کر کے ان لوگوں میں سے ہو
جائیں جنہوں نے طہارت و پاکیزگی حاصل کر لی ہے اور انبیائے کرام اپنی عصمت
کی وجہ سے ناپاکی سے پاک اور منزہ ہیں۔
تیسرا فرق
یہ ہے کہ امتیوں پر پانچ نمازیں فرض تھیں جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم پر ایک نماز زائد تہجد یعنی کل چھ نمازیں فرض تھیں۔ امام جلال الدین
سیوطی اپنی تصنیف الخصائص الکبری کی دوسری جلد اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی
مدارج النبوۃ کی پہلی جلد میں حدیث مبارکہ نقل فرماتے ہیں:
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ تین چیزیں ایسی ہیں جو مجھ پر
فرض ہیں اور تمہارے لئے سنت ہیں ایک وتر دوم مسواک سوم نماز تہجد
چوتھا فرق
نماز کی امامت میں قیام کے متعلق ہے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے خصائص
میں سے ہے کہ حضور ﷺ نے لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی حالانکہ فرض نماز میں
قیام کرنا فرض ہے چنانچہ بخاری اور مسلم شریف کے علاوہ دارقطنی سنن بیہقی
اور خصائص کبری میں یہ حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ
وسلم نے فرمایا:میرے بعد کوئی بیٹھ کر امامت نہ کرے۔
پانچواں فرق
یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز عصر کے بعد دو رکعت نفل پڑھا
کرتے تھے لیکن امت کو اس سے منع فرمایا اور خود ان دو رکعتوں کو سفر و حضر
میں کبھی ترک نہ فرمایا اور ان پر مداومت اختیار فرمائی۔ حوالہ کے لئے
مدارج النبوۃ جلد اول صفحہ ۷۱۲
ششم فرق
یہ ہے کہ ہمارا وضو سونے سے ٹوٹ جاتا ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کا وضو سونے سے نہیں ٹوٹتا چنانچہ امام بخاری و مسلم نے حضرت عبداللہ بن
عباس رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرمائی کہ حضور ﷺ نے رات کو وضو فرمایا
اور نماز پڑھ کو سو گئے یہاں تک کہ میں نے خرخراہٹ کی آواز سنی اس کے بعد
مؤذن آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر نماز کے لئے تشریف لے
گئے اور وضو نہیں فرمایا۔
ہفتم فرق
یہ کہ امتیوں کو بیک وقت چار عورتوں سے نکاح جائز جبکہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے لئے اس سے زائد بھی مباح تھا اور اس پر تمام امت کا اجماع
ہےاور تفسیر خزائن العرفان میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے ازواج
کا نصاب بیک وقت نو تحریر فرمایا گیا ہے۔
ہشتم فرق
امتی کی بیوہ عورت کا نکاح ثانی ہو سکتا ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی ازواج پر نکاح ثانی حرام ہے اور مزید یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی ازواج پر عدت بھی نہیں ، اس حرمت کی ایک علت یہ ہے کہ حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج امہات المؤمنین ہیں اور ماں کے ساتھ اولاد کا
نکاح جائز نہیں
نہم فرق
یہ ہے کہ امتی کی وراثت تقسیم ہوتی ہےجبکہ انبیائے کرام کی نہیں ہوتی
چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہم گروہ
انبیا وہ ہیں جو نہ کسی کی میراث لیتے ہیں اور نہ ہماری میراث کوئی لیتا
ہےجو کچھ ہم چھوڑیں وہ صدقہ ہے۔ حوالہ کے لئے مدارج النبوۃ جلد ۲ صفحہ ۷۵۶
دہم فرق
یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بول و براز یعنی پیشاب و پاخانہ
اور خون پاک اور طاہر ہے چنانچہ فتاوی شامی باب الانجاس میں ہے کہ حضور صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضلات شریف امتی کے حق میں پاک بلکہ باعث برکت ہیں
کیونکہ آپ کے جسم اقدس سے جو کچھ خارج ہوتا تھا وہ پاک تھا۔
امام بیہقی و دارقطنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت نقل کرتے ہیں کہ
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ والہ وسلم میں نے آپ کو بیت الخلاء جاتے دیکھا پھر آپ کے بعد
میں گئی تو میں نے خارج ہونے والی چیز کا کوئی نشان نہ دیکھا۔ حضور اقدس ﷺ
نے فرمایا اے عائشہ تم نہیں جانتی اللہ عزوجل نے زمین کو حکم دیا ہے کہ
انبیائے کرام سے جو فضلہ خارج ہو وہ اسے کھا جائے
مدارج النبوۃ میں ہے کہ ایک رات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک پیالہ
میں پیشاب فرمایا اور حضرت ام ایمن سے فرمایا کہ اس کو زمین کے سپرد کردیں
تو حضرت ام ایمن نے اس کو پی لیا جب حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ماجرا
عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے تبسم فرمایا اور نہ ان کو منہ
دھونے کا حکم دیا نہ ہی دوبارہ ایسا کرنے سے منع فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ
اب تمہیں کبھی پیٹ کا درد لاحق نہ ہو گا۔ سبحان اللہ
الخصائص الکبری میں ہے کہ جنگ احد میں صحابی رسول حضرت مالک بن سنان رضی
اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زخموں کا خون چوس کر نگل گئے ۔
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے خون میں میرا خون
شامل ہوجائے اسے آتش دوزخ نہیں چھو سکتی اور جو خواہش رکھتا ہے کہ کسی
جنتی شخص کو دیکھے تو وہ انہیں مالک بن سنان کو دیکھ لے۔
بطور نمونہ چند خصائص پیش کیے ہیں اور وہ بھی نہایت اختصار کے ساتھ ورنہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائص تو لا متناہی ہیں امام عشق و محبت
امام اہل سنت مجدد دین و ملت مفتی احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے بجا طور
پر اپنے کلام میں فرمایا
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے
اور کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ
زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے
پر تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا |