امام مسجد ایک کمیونٹی سربراہ

کسی بھی معاشرے کی ترقی ،امن وامان و خوشحالی کی ذمہ داری اس معاشرے سے تعلق رکھنے والے تمام افارد پر عائد ہوتی ہے۔ایک اسلامی معاشرے میں ہر فرد ایک ذمہ دار ہے اور اس سے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔حضور ﷺ کا ارشاد کا مفہو م ہے کہ تم میں سے ہر ایک ذمہ دارہے اور اس سے اس کے بارے میں پوچھاجائے گا۔لیکن معاشرے میں بعض افراد اس طرح بھی ہوتے ہے جن پر یہ ذمہ دارزیادہ ہوتی ہے وہ معاشرے کی ترقی ،خوشحالی امن وامان میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ جن پر معاشرے والے امید رکھتے ہیں اور ان پر بھروسہ رکھتے ہیں ،ہرمشکل اس کے سامنے پیش کرتے ہیں او رعوام کی مشکلات حل کرنی کی کوشش کرتاہے ۔ان میں سے ایک امام مسجد ہے،امام مسجد عوام ایک رہنما اور لیڈر ہے ۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے امام کا لفظ سنتے ہی ہمارا ذہن فوراََ ایک شکل آجاتی ہے۔کہ ایک دینی ادارے سے فراغ ،معاشرے کی ضروریات سے باخبر ہو، کوئی سمجھ نہ رکھنے والا ان کا کام صرف مسجد تک محدود رہتا ہے ،اور لوگوں کو امامتی کرانا یہ ایک صورت ہمارے ذہن میں آجاتی ہے ۔ حالا نکہ ایسا بلکل نہیں ہماری یہ سوچ غلط ہے ، عربی لغت کے اعتبار سے امام رہنما اور لیڈر کو کہتے ہے۔ جو عوام کی رہنمائی کریں خواہ دنیا کے اعتبار سے ہو یاآخرت کے اعتبار سے ۔

امامت تو ایک منصب ہے، ایک ذمے داری ہے، ایک توانا آواز ہے، اسلامی معاشرہ امام کے کردار کے گرد گھومتا نظر آتا ہے، دراصل امام اس علاقے کے اس اسلامی کمیونٹی سینٹر کا ذمے دار ہے جسے اسلامی اصطلاح میں مسجد کہا جاتا ہے، یہ مسجد صرف عبادت کے لیے مخصوص جگہ کا نام نہیں بلکہ مسجد میں عبادات کے ساتھ ساتھ معاشرتی معاملات طے کرنے کا نظام، تعلیم اور صحت کے پروگرام، امدادی فلاحی سرگرمیوں پر مشتمل سہولیات اور عام معاشرتی مسائل کے حل کے لیے انتظامات موجود ہوں، لوگوں کی ایک دوسرے کی خبر گیری کرنا، ایک دوسرے کے معاملات سے آگاہی حاصل کرنا، مریضوں کی عیادت کرنا، محلے اور علاقے سے برائیوں کو ختم کرنے اور نیکیوں کو فروغ دینے کے لیے کردار ادا کرنا، سب اس مسجد سے وابستہ افراد اور امام مسجد کی اجتماعی ذمے داری ہے(ایچ آر مصور)

امامت ایک ایسی ذمہ داری ہے،کہ پورامعاشرہ اس کے ارگرد ہوتی ہے ۔ اور امام صاحب نے پورے معاشرے کو اپنے گود میں لیکرچلتاہے وہ تو معاشرے کی اصلاح کی بات کرتے ہیں اور برائیوں سے روکنے کی بات کرتا ہے ،اور اس امت کو بھی فضیلت اس وجہ سے حاصل ہے کہ یہ نیکی کی طرف دعوت اور برائی سے روکے گا۔یہ سارا نظام ممبر کی ذریعہ چلاتاہے امام کو اﷲ تعالیٰ نے خداداد صلاحیت دی ہوئی ہے ۔وہ اپنے صلاحیتوں کی وجہ سے معاشرے کی برائی کوسمجھتا ہے اور ازالے کا طریقہ بھی جانتا ہے ۔اس نے یہ سارا نظام اپنے ممبر ومحراب سے قابو کیا ہوتا ہے ۔امام کے پاس ممبر و محراب ابلاغ وتربیت کابہترین ذریعہ ہے ۔اگر محلے میں لڑائی ہوجاتی ہے تو امام اسکا شریعت کے مطابق اسکا حال نکلتاہے تو یہاں امام ایک یولیس آفسرکاشکل اختیار کرکے معاشرے سے بدامنی جھگڑا و فساد ختم کرنا چاہتا ہے ۔کسی کا جنازہ پڑھنا ہوتاہے تو مسجد امام ہی نماز جنازہ پڑھتا ہے او ر کسی نومولود بچے کے کا ن میں آذان دینا ہو ۔تو مسجد کے امام کو آواز دیکر وہ امام کے بچے کو آذان دیتاہے ۔کسی کا نکاح پڑھوانا ہو تو امام کوکے محتاج ہوتے ہے ۔غرض وہ کونسا مقام ہے جس میں امام ہماری رہنمائی نہیں کرتا۔خواہ وہ معاشرتی ہویا معملاتی یا ثقافتی وہ معاشرے کی رہنمائی کرتے ہیں۔گویا ہ کہ وہ ہمارے معاشرے و کمیونٹی کالیڈر ہے ۔جو کام ایک لیڈر معاشرے کے لئے کرتاہے وہی کام ہمارے امام صاحب کرتے ہیں ۔اس بات کو تو ہم مانتے ہے کہ امام ہمارا کمیونٹی لیڈر ہے ۔کیا لیڈر کے جو تقاضے ہوتے ہیں ۔ہم ان کو پورا کرتے ہیں کہ نہیں ۔ وہ ہمارے ہر کام میں ہمارے ساتھ ہوتاہے اور ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔کیاہم اس کا ساتھ دیتے ہیں کہ نہیں ۔ہرانسان اپنے نفس میں سوچھے ۔ایک کمیونٹی لیڈر (امام مسجد) کے ساتھ کیاکیاکرناچاہتے ۔او ر ہم کیاکرتے ہیں ۔لیکن آج بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑھتاہے کہ امام کے بہت زیادتی کرتے ہے ۔ہم ان کو عرت وبنیادی سہولیات بھی نہیں دیتے ۔

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس امام کے پیچھے ہم پانچ وقت نماز پڑھتے ہے۔ہرمشکل میں ہمارا ساتھ دیتا ہے اور ہماری رہنمائی کرتا ہے لیکن ہم اس کو بنیادی ضروریات پورے کرنے کی دور کی بات ہم تو اس کو عزت تک بھی نہیں دیتے ،ویسے تو اسراف ہم بہت کرتے ہیں پیسہ تو ہم پانی کی طرح بہاتے ہیں ۔

غیرضروری مقام پر تو جمع شدہ پیسہ ضائع کرتے ہیں ۔لیکن جب بات آتی امام کی تنخواہ کی ۔تو اپنے جیبوں کاتالا لگاتے ہیں ۔کتنی افسوس کی بات ہے کہ جو شخص ہماری رہنمائی کرتا ہے ہم اس کے ساتھ کیاکرتے ہیں جس طرح ہم ایک لیڈرکا خیال کرتے ہیں اسی طرح امام بھی ہمارا کمیونٹی لیڈر ہے ہمیں بھی اس کے جملہ ضروریات کا بھی خیال کرنا چاہئے۔
 

Gohar Iqbal Khattak
About the Author: Gohar Iqbal Khattak Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.