اﷲ تعالی نے انسان پر دو طرح کی ذمہ داریاں لازم کی
ہیں۔ ایک ہے حقوق اﷲ یعنی اﷲ تعالی کے حقوق مثلاً: نماز، روزہ اور زکوٰۃ
وغیرہ، یہ اﷲ رب العالمین کے حقوق میں سے ہیں۔ دوسرا ہے حقوق العباد یعنی
بندوں کے حقوق۔ پھر ان میں سے والدین، اولاد، بیوی، شوہر اور پڑوسی، ہر ایک
کے الگ الگ حقوق ہیں۔ عنوان کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تحریر میں صرف پڑوسی کے
حقوق پر روشنی ڈالی جائیگی۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: اﷲ کی قسم!
وہ شخص مومن نہیں، اﷲ کی قسم! اس شخص میں ایمان نہیں، اﷲ کی قسم! وہ صاحب
ایمان نہیں، عرض کیا گیا کہ یا رسول اﷲﷺ! کون شخص؟ (یعنی آپ کس بد نصیب کے
بارے میں قسم کھا کر فرما رہے ہیں کہ وہ مومن نہیں اور اس میں ایمان نہیں)
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جن کی پڑوسی اس کی شرارتوں سے اور فتنہ پردازیوں سے
مامون اور بے خوف نہ ہو(یعنی ایسا آدمی ایمان کی برکتوں سے محروم ہے یا ان
کا ایمان کامل نہیں ہے)۔ (بخاری، مسلم) پڑوسی کا اتنا زیادہ حق ہے کہ نبی
علیہ السلام نے تین قسمیں کھا کر بات کو موکد فرمایا کہ اس شخص کا ایمان ہی
نہیں ایمان اس وقت کامل ہو گی کہ جب پڑوسی کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔
پڑوسی کے دس حقوق ہیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:
(1)۔۔۔اگر وہ تم سے قرض مانگے، اسے قرض دے دو۔
(2)۔۔۔بلائے تو اس کے پاس جاؤ۔
(3)۔۔۔بیمار ہو تو اس کی بیمار پرسی کرو۔
(4)۔۔۔مدد چاہے تو اس کی مدد کرو۔
(5)۔۔۔اسے کوئی تکلیف پہنچے تو اسے ہمدردی کرو۔
(6)۔۔۔خوشی پر اسے مبارک باد دو۔
(7)۔۔۔فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو۔
(8)۔۔۔اس کی غیر موجود گی میں اس کے گھر کی حفاظت کرو۔
(9)۔۔۔ممکن حد تک اپنی طرف سے تکلیف نہ ہونے دو۔
(10)۔۔۔دسواں حق یہ کہ اس کی اجازت کے بغیر اپنا مکان اس کے مکان سے اونچا
نہ بناؤ۔
اگر معاشرے میں ان حقوق کا خیال رکھا جائے، پڑوسی اپنے پڑوسی کے شرارتوں سے
محفوظ ہو جائے، پڑوسی کے حقوق کو ایمان کا حصہ سمجھا جائے تو ان شائاﷲ جنگ
و جدال، بعض وحسد سے پاک معاشرہ وجود میں آئیگا۔
پڑوسی صرف وہ نہیں جو مسلمان ہو بلکہ اسلام اور شریعت نے تنگ نظری ختم کر
کے غیر مسلم کو بھی پڑوسی کے حقوق میں شامل کیاہے، ایک روایت میں ہے، رسول
اﷲ ﷺ نے فرمایا: یڑوسی تین طرح کے ہوتیہیں۔ ان میں سے کسی کے تین حق ہیں،
کسی کے دو اور کسی کا صرف ایک حق ہے۔
(1)۔۔۔وہ پڑوسی جو رشتہ دار اور مسلمان ہے، اس کے تین حق ہیں۔ ایک رشتہ
داری کا حق، دوسرا مسلمان ہونے کا حق اور تیسرا پڑوس کا حق۔
(2)۔۔۔غیر رشتہ دار مسلمان پڑوسی کے دو حق ہیں، ایک مسلمان ہونے کا حق،
دوسرا پڑوسی ہونے کا حق۔
(3)۔۔۔غیر مسلم پڑوسی: اس کا صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے۔ مسلمان کے لئے ضروری
ہے کہ وہ پڑوسی کا خیال رکھ خواہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔
بعض لوگ تو دیندار ہوتیہیں روزہ، نماز اور زکوۃ کا خاص خیال رکھتے ہیں لیکن
چراغ تلے اندھیرا ہوتا ہے اور پڑوسی کے حقوق کو وہ دین کا حصہ ہی نہیں
سمجھتے اورپڑوسی اس سے ہروقت تکلیف میں ہوتا ہے لیکن یاد رہے صرف نماز روزہ
سے جان نہیں چوٹی گی۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص
نے(نبی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر) عرض کیا: یا رسول اﷲ! فلاں ایک
عورت نماز، صدقات اور روزوں کی کثرت کرتی ہے، لیکن اپنی زبان سے پڑوسیوں کو
تکلیف پہنچاتی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایاکہ وہ جہنم میں داخل ہو گی (چاہے پھر سزا
بھگت کر نکل آئیں) اس نے پھر عرض کیا: یا رسول اﷲ! فلاں ایک عورت کے متعلق
بیان کیا جاتاہے کہ وہ نماز روزوں کی کثرت نہیں کرتی البتہ پنیر وغیرہ صدقہ
کرتی ہے اپنے پڑوسیوں کو نہیں ستاتی، نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ جنت
میں داخل ہو گی۔
اس حدیث سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ پڑوسی کے حقوق کی اہمي ت کیا ہے؟ آج
ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم ہوش کے ناخن لے، پڑوسی کا خیال رکھے چاہے وہ مسلمان
ہو یا غیر مسلم۔ یہ مسئلہ حقوق العباد میں سے ہے اس وجہ سے زیادہ اہمي ت کے
حامل ہے کیونکہ حقوق العباد کے معافی کے صرف دو صورتیں ہیں۔ یا تو صاحب حق
کو اس کا حق پہنچا یا جائے یا پھر اس سے معاف کرا یاجائے اگر ان میں سے ایک
بھی نہیں کیا تو پھر قیامت کے دن سزا بھگتنا پڑے گا۔
|