کمرے کے باہر کھڑے رہ کر اچانک آواز آئ رونے کی اور اس
آواز نے اس شخص کے لبوں پر خوشی کی لہر دوڑا دی۔وہ اپنے ہاتھ ميں اللہ کی
نعمت کو پکڑے ہوےُ خود کو بہت خوش قسمت سمجھ رہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے
آنے والے کل کو ليکر بہت پرُ اعتماد تھے،يہ نعمت تو گھر میں مہمان ہوتی
ہيں،اور اسکی مہمان نوازی ميں وہ کوئی کسر نہيں چھوڑتا۔اسکول کے يونيفارم
سے ليکر شادی کے جوڑے تک وہ اپنی لاڈلی کو حسين و جميل ہی بناتا ہے اور
رخصتی کے وقت اسکے آخری جملے کچھ يوں ہوتے ہيں کہ”بيٹا اپنا خيال
رکھنا”۔۔۔۔۔اور ميری تھکاوٹ تو اسکے صرف اس جملے سے اترُ جاتی ہے کہ “بابا
آپ نے
کچھ کھايا” |