گزشتہ دنوں راولپنڈی میں گھریلو ملازمہ پر تشدد کا
کیس سامنے آیا ، جہاں ولایت کالونی کی رہائشی میجرڈاکٹر عمارہ ریاض اور ان
کے شوہر محسن ریاض نے اپنی گیارہ سالہ گھریلو ملازمہ کنزہ کو بدترین تشدد
کا نشانہ بنایا جس سے بچی کی حالت غیر ہوگئی۔ محسن ریاض نے کنزہ کے والد کو
بلایا اور بچی کی حالت تشویشناک ہونے پر باپ محمد بشیرسے اپنی بے گناہی کا
حلف نامہ لکھواکر بچی کو اس کے حوالے کردیا۔ ویڈیو بیان میں گیارہ سالہ
کنزہ کا کہنا ہے کہ مالکن اور مالک بیلٹ اور رسی سے اسے مارتے تھے ، نہ
کھانا دیتے تھے ، نہ رات کو سونے دیتے تھے۔ اور جب وہ بھوک سے تنگ آکر کچھ
چوری کرتی تھی تو اور زیادہ مارا جاتا تھا۔ اس ضمن میں وفاقی وزیر برائے
انسانی حقوق نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزمان کے خلاف ایف
آئی آر درج کروائی جائے گی۔ بچوں کے مستقبل کے حوالے سے ہمارے ملک میں ایک
بڑا المیہ بچوں سے مشقت کا عام رواج ہے۔ معاشی بدحالی، سہولیات سے محرومی،
استحصال، بے روزگاری، غربت اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم جیسے مسائل کے
باعث بچوں کو زیور تعلیم سے دور رکھ کر ان سے جبری مشقت لی جارہی ہے ، جبکہ
بچوں کی جبری مشقت کو ہمارے ہاں معیوب بھی نہیں سمجھا جاتا ، جابجا معصوم
پھول جیسے بچے گھروں میں ملازمت کرتے، چوراہوں پر بوٹ پالش سے لے کر
ہوٹلوں،چائے خانوں، ورکشاپوں، مارکیٹوں،چھوٹی فیکٹریوں ، موٹر گاڑیوں کی
کنڈیکٹری، پٹرول پمپوں پر گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے سمیت دیگر بہت سی جگہوں
پر مشقت کرتے نظر آتے ہیں۔
روزبروز بڑھتی غربت ،بے روزگاری، مہنگائی نے غریب بچوں کو اسکولوں سے اتنا
دور کر دیا ہے کہ ان کے لئے تعلیم ایک خواب بن کر رہ گئی ہے۔ پرائیویٹ
سیکٹر کے تعلیمی اداروں نے جہاں معیاری تعلیم کو فروغ دیا وہاں تعلیم کو اس
قدر مہنگا کر دیا کہ اوسط درجے کی آمدن والے لوگ بھی اپنی اولادوں کو
معیاری تعلیم دلوانے سے قاصر ہیں، ایسے میں غریب مفلوک الحال خاندان اپنے
پیٹ کی آگ بجھائیں یا تعلیم کے بھاری بھرکم اخراجات برداشت کریں ، یہی وجہ
ہے کہ غریب بچے ہر طرح کی قابلیت کے باوجود پیچھے رہ جاتے ہیں، اور ان کے
والدین وسائل کی کمی کے سبب ان کو تعلیم نہیں دلوا پاتے۔ محنت کش بچے کوئی
پیدائشی محنت کش بچے نہیں ہوتے، ان کی شکلیں بھی ایسی ہی ہوتی ہیں جیسی بڑے
تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبہ کی ہوتی ہیں لیکن صرف وسائل نہ ہونے کی
وجہ سے وہ معاشرے میں ’’چھوٹے‘‘ بن کر رہ جاتے ہیں۔ جبکہ آئین پاکستان
کاآرٹیکل گیارہ اس بات کی ضمانت فراہم کرتا ہے کہ انہیں کارخانوں، کانوں
اور دیگر پرخطر ملازمتوں پر نہیں رکھا جائے گا۔ گو ایمپلائمنٹ آف چلڈرن
ایکٹ 1991 اور ایمپلائمنٹ آف چلڈرن رولز 1995 جیسے ایکٹس بچوں کے حالات کار
کو ضابطہ اخلاق میں لاتے ہیں ۔ لیکن ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ چائلڈ لیبر
قوانین تو بنے ہیں لیکن آج تک کسی کو بھی ان قوانین کی خلاف ورزی کے حوالے
سے سزا نہیں سنائی گئی اور عملاً صورت حال سب کے سامنے ہے۔ امیر لوگوں کے
گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے حالات کار سب سے برے ہیں جن پر شدید تشدد
کے واقعات آئے روز منظر عام پر آتے رہتے ہیں،اس کے علاوہ بیشتر کاروباری
مقامات اور ورکشاپش میں محنت کش بچوں پر معمولی معمولی بات پر پر تشدد
واقعات معمول بن چکا ہے۔ دیہات میں اینٹوں کے بھٹوں اور کھیتوں جبکہ شہروں
میں سڑکوں اور ورکشاپوں اور چھوٹے کارخانوں میں پابندی کے باوجود معصوم
بچوں سے مشقت لی جاتی ہے۔ اس طرح ان ننے ہاتھوں میں قلم کی جگہ اوزاروں نے
لے لی ہے۔ معصوم بچے جب حالات سے مجبور ہوکرہنسنے کھیلنے کے دنوں میں کام
کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں تویقینا اس معاشرے کیلئے ایک المیہ وجود
پارہاہوتاہے، پاکستان میں موجودمعاشی بدحالی، سہولیات سے محرومی، استحصال،
بے روزگاری، غربت اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم نے جگہ جگہ اس المیے کوجنم
دے رکھا ہے جو بڑھتے بڑھتے ناسور بنتاچلاجارہاہے۔ امیر کے امیرتر اور غریب
کے غریب تر ہونے پرقابو نہ پائے جانے کی وجہ سے اب لوگ اس کے سوا کوئی راہ
نہیں پاتے کہ وہ بچوں کوابتدا سے ہی کام پرلگادیں تاکہ ان کے گھروں کاچولہا
جلتا رہے اور ضروریات زندگی پوری ہوتی رہیں، چاہے ایسا کرنے سے قیمتی
زندگیاں داؤ پر لگی رہیں۔ بلاشبہ مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے بہت سے
غریب خاندانوں کواپنے بچے محنت و مشقت پر لگانا ان کی مجبوری بن چکا ہے
لیکن یہ بھی جائز نہیں ایسے موقع پر معاشرہ کوئی کردار ہی ادا نہ کرے ،
معاشرے کا فرض بنتا ہے کہ بچوں سے محنت و مشقت لینے کے بجائے ان کی تعلیم
،صحت اور خوراک کیلئے ان کے والدین کو مناسب سپورٹ کیا جائے ۔ بچوں سے مشقت
کے خاتمے کیلئے معاشرے کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر تے ہوئے
موثر ترین کردار ادا کرنا چاہئے تاکہ متاثرہ بچوں مشقت کی بجائے زیور تعلیم
سے آراستہ کیا جاسکے ۔ |