تاریکیوں کے ذمہ دار

 چُھٹی ہونے میں کچھ دیرباقی تھی، نیم سرکاری سکول کے باہر بچوں کو لینے والوں کا رش تھا، گاڑیاں، موٹر سائیکل، رکشوں وغیرہ پر لوگ بچوں کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ سکول کی بیر ونی سیڑھی پر سات برس کی ایک بچی بیٹھی تھی، گوری رنگت، نیلی آنکھیں، سادہ سا لباس۔ اس کے پاس ہی کھجور کے پتوں کی بنی ایک ٹوکری پڑی تھی، جس میں کچھ ٹافیاں ، چھالیا اور نمکو وغیرہ کے کچھ پیکٹ تھے ۔ جو وہ سکول کے بچوں کو فروخت کرنے کی امید میں لئے بیٹھی تھی۔ انتظار کے لمحات گزارنے کے لئے وہ کاپی کے پھٹے ہوئے کاغذ پر پینسل سے کوئی تصویر بنا رہی تھی، شاید اسے لکھنا نہیں آتا تھا، ورنہ ممکن ہے وہ کچھ لکھ رہی ہوتی۔ کیمرے کی آنکھ نے یہ تصویر محفوظ کرلی۔ تصویر اخبار میں شائع ہوگئی، بات ذرا آگے بڑھی تو رپورٹر نے تحقیق کر کے بچی کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا ، کوشش بسیار کے بعد وہ بچی کے گھر پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ وہ دوبہنیں تھیں، دوسری اس سے چھوٹی تھی، ان کا والد کسی موبائل کمپنی کے ٹاور پر گارڈ کے فرائض سرانجام دیتاتھا ، جہاں سے وہ معمولی تنخواہ پاتا تھا۔ بچیوں کی والدہ بیمار تھی، جس کی دوائی کے اخراجات پورے کرنا بھی گھر والوں کے لئے ایک مسئلہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بچی بھی خرچہ پورا کرنے کے لئے اپنے والد کا ہاتھ بٹاتی تھی۔ بچیوں سے بات چیت کرنے پر معلوم ہوا کہ اُن کی خواہش ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں، اُن کے والد سے گفتگو سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ اس کی اس معاملے میں کوئی دلچسپی نہیں۔

رپورٹر نے سٹوری اخبار کو بھیجی، اخبار نے دوبارہ تصویر کی اشاعت کے ساتھ معقول کوریج دی۔ تیسرے ہی روز تیسرے ڈویژن سے ایک فون رپورٹر کو آیا، اخبار کے دفتر سے اُس کا نمبر حاصل کیا گیا تھا۔ فون کرنے والے کا کہنا تھا کہ وہ بچی کی تعلیم کے تمام تر اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہے، جس میں تعلیمی اخراجات کے علاوہ بھی اس بچی کا جو خرچہ ہو وہ بھی ادا کیا جائے گا۔ اچھے سے اچھے سکول میں پڑھانے کی آفر موجود تھی۔ حتیٰ کہ تمام اخراجات کا تخمینہ لگا کر سال بھر کی پیشگی رقم جمع کروانے کا بھی کہا گیا تھا۔ تاہم ایک شرط تھی کہ بینک اکاؤنٹ بچی کے نام کا ہی ہو۔ یہ دلکش پیشکش لے کر رپورٹر دوبارہ اس بچی کے والد کے پاس پہنچا، اسے پوری روداد سنائی، اسے بچی کے مستقبل اور غائبانہ صاحبِ خیر کے جذبات سے آگاہ کیا۔ اس انداز سے ماحول بنایا کہ والد کی انا بھی مجروح نہ ہو، وہ کوئی وزن یا احسان بھی محسوس نہ کرے، کیونکہ مدد کرنے والے نے غیر مشروط اور غائبانہ طور پر ہی مدد کا اعلان کیا تھا، صرف ایک ہی شرط (اور خواہش) تھی کہ بچی پڑھ جائے۔ رپورٹر نے اپنی کہانی سنائی اوربچی کے والد کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔ والدکا جواب پاکستانی معاشرے کے مجموعی رویے کی بھر پور عکاسی کر رہا تھا۔ جواب سُن کر رپورٹر کی آنکھوں میں چمکنے والے آس کے ستارے بجھ گئے، اس کی امیدوں کا محل ریت کی دیوار کی طرح بکھر گیا، غریب معصوم بچی کے روشن اور تابناک مستقبل کے بارے میں سہانے خواب چکنا چور ہو گئے۔ اُس کا کیا تھا، وہ تو ایک پُل کا کردار ادا کرنا چاہتا تھا، وہ تو رابطے اور مدد کا ایک ذریعہ بننا چاہتا تھا۔

بچی کے والد کا جواب جس طرح رپورٹر کی سماعتوں پر بجلی بن کر گِرا، جن صاحب نے مدد کی آفر کی تھی، اُن کے لئے اور بھی زیادہ تکلیف دہ بات تھی، جو شخص غیر مشروط اور کھلی مدد کے لئے تیار ہو، اُس پر کیا گزری ہوگی ؟ اس کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے۔ بچی کے والد نے کہا کہ ’’․․․ہم غریب لوگ ہیں، بچی کو پڑھا کر ہم نے کیا کرنا ہے، یہ تو پرایا دھن ہے، ٹافیاں وغیرہ فروخت کرکے چار پیسے کما لاتی ہے، ہمیں گھر کی ضرورت ہے، اگر کسی نے مدد کرنی ہے، تو ہمارا گھر بنوا دے اور میری بیوی کے علاج کا خرچہ دے دے ․․․‘‘ رپورٹر چونکہ رابطے کا ہی ذریعہ تھا، وہیں کھڑے کھڑے صاحبِ دل شخص کو فون ملایا، بچی کے والد کے جوابات سے آگاہ کیا۔اُن صاحب نے اپنی آفر یہ کہہ کر واپس لے لی کہ میں تو صرف بچی کو پڑھانے پر خرچ کر سکتا ہوں، وہ جتنا بھی ہو جائے، کسی اور مد میں نہیں۔

یہ پوری دیگ سے ایک چاول والی مثال ہے، اپنے ہاں،پاکستان بھر میں کروڑوں بچے سکولوں سے باہر ہیں، کوئی ہوٹلوں، دکانوں اور گھروں میں مزدوری کر رہے ہیں، کوئی ورکشاپوں، حجام کی دکانوں یا دیگر کام سیکھ رہے ہیں، کوئی آوارہ گردی کر کے زندگی کو تاریکی کے غاروں میں دھکیل رہے ہیں، جو بعد میں جرم اور نشہ کی زندگی کی طرف پلٹ جاتے ہیں، کوئی بھیک مانگ رہے ہیں۔ معاشرے کے لئے ناسور بن جانے والے یہ کروڑوں بچے پاکستانی حکمرانوں، مخیر حضرات، اساتذہ، دانشوروں، سرمایہ داروں اور پورے معاشرے کے لئے سوالیہ نشان ہیں۔ شاید یہ تمام طبقات اپنے اپنے مقام پر اس زوال کے ذمہ دار ہیں، ستم تو یہ ہے کہ معاشرے کی اجتماعی طور پر تربیت کا فقدان ہے،مخیر حضرات کی بھی کمی نہیں، بے شمار لوگ اپنا فریضہ نبھا بھی رہے ہیں۔ (معاشرے کی خدمت کرنے والے جذبے کے برعکس ایسے بچوں سے غلامانہ مشقت لینے والے امراء کی بھی کمی نہیں، تاہم یہ الگ کہانی ہے)۔ ستم بالائے ستم اور حل طلب سوال یہ ہے کہ اِس رویے کا سدِ باب کیسے کیا جائے کہ جو نہ تو خود تربیت کی طرف مائل ہوتے ہیں، اور نہ ہی معاشرے کی اصلاح کی کوئی کوشش کامیاب ہونے دیتے ہیں؟

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473161 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.