تحریک نفاذفقہ جعفریہ پاکستان کے سربراہ آغاحامدموسوی نے
اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ جمال خاشقجی قتل کے تانے بانے امریکہ سے ملتے
ہیں گریٹر اسرائیل کیلئے امریکہ مشرق وسطی میں میں نئی بساط بچھارہا ہے ،سعودیہ
کے گرد گھیرا تنگ کرنے کیلئے امریکہ صدام والی داستان دہرا رہا ہے، صیہونی
منصوبوں کیخلاف ایران اور سعودی عرب متحد ہو جائیں،مسلم فرمانروا امریکہ
نہیں اﷲ کے بندے بنیں، امریکی گود میں جانے کا خمیازہ پاکستان دہشت گردی
اور معاشی بدحالی کی صورت بھگت رہا ہے ، مسلم حکمران تعمیری تنقید کرنے
والوں کو تہہ تیغ کرنے کا سلسلہ ترک کردیں،اگر مسلم ممالک نے امریکہ روس سے
تعلقات رکھنے ہیں تو برابری کی بنیاد رکھیں،
آغاحامدموسوی کے بیان اس سازش کی طرف اشارہ کررہاہے جواس وقت مشرق وسطی
خصوصاسعودی عرب کے خلا ف کھیلی جارہی ہے صحافی کے قتل کابہانہ بناکرسعودی
عرب کوگھیراؤکیاجارہاہے کیوں کہ صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعدسعودی عرب
نے جواقدامات اٹھائے ہیں انہیں جرمنی ،برطانیہ ،یورپی یونین اورعالمی قوتوں
نے ناکافی قرار دے دیاہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے صحافی
جمال خاشقجی کی موت کی تصدیق پر اپنے اولین بیان سے یوٹرن لیتے ہوئے
برطانیہ، جرمنی اور یورپی یونین کے موقف کے ساتھ کھڑے ہونے کا عندیہ دے دیا
ہے۔جس سے ظاہوتاہے کہ امریکہ اوردیگرقوتیں سعودی عرب کے خلاف نئی بساط
بچھارہی ہیں اورسعودی حکومت کاگھیراتنگ کیاجارہاہے ۔ان قوتوں کی کوشش ہے کہ
اس واقعہ کوبنیادبناکرسعودی عرب کوعدم استحکا م کاشکارکیاجائے اورسعودی عرب
کے حوالے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کی جائے ۔
امریکا اور دوسری بڑی طاقتیں نوجوان شہزادے محمدبن سلمان سے خائف ہیں
محمدبن سلمان کے اقدامات سعودی عرب کوایک عالمی طاقت اورخودمختارملک بنانے
کی طرف لے جارہے ہیں جس سے ان قوتوں کوپریشانی لاحق ہوگئی ہے ، اسی وجہ سے
سازشوں کاجال بناجارہاہے ، محمدبن سلمان کے خلاف منفی اورشرانگیزمہم چلائی
جارہی ہے امریکا کی حکمران جماعت کے بااثر سینیٹر لنزے گراہم فوکس نیوز کے
ایک پروگرام میں یہ اظہار کرچکے ہیں کہ شہزادہ محمد بن سلمان ورلڈ لیڈر
بننے کے قابل نہیں، انہیں جانا ہوگا۔ لنزے گراہم نے کہا کہ امریکا سعودی
عرب کے ساتھ کم از کم اس وقت تک تجارتی روابط نہیں رکھے گا جب تک محمد بن
سلمان امورِ سلطنت چلارہے ہیں۔یہ وہ عزائم ہیں جن کی تکمیل کی خاطرا س
واقعہ کوبنیادبناکرنئی بساط بچھائی جارہی ہے ۔
بی بی سی کے مطابق مشرق وسطی کی صورتحال پر اگر امریکی کردار کی بات کی
جائے تو اس کے ساتھ کہیں نہ کہیں سعودی عرب کا ذکر ضرور ہوتا ہے اور اس کی
وجہ دونوں کے درمیان خطے میں ایک دوسرے سے مفادات سے جڑا 70 سالہ
اتحادہے۔لیکن رواں ماہ ایسا دوسری بار ہوا ہے کہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے
کے بارے میں بات کرنے کے لیے اعلی سفارتی دوروں کی بجائے میڈیا کے ذریعے
بیانات تھے جس نے بظاہر تعلقات میں سرد مہری پیدا کی ہے ۔اس ماہ کے شروع
میں صدر ٹرمپ نے سعودی حکمران شاہ سلمان کو تنبیہ کی تھی کہ وہ امریکی فوج
کی حمایت کے بغیر 'دو ہفتے' بھی اقتدار میں نہیں سکتے اور اس کے جواب میں
سعودی ولی عہد نے کہا تھا کہ ان کے ملک کا وجود امریکہ کے بغیر بھی رہا
ہے۔جبکہ سعودی نژاد امریکی شہری اور صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے معاملے
پرایک سفارتی تنازع بن گیاہے اس واقعہ کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اگر یہ
ثابت ہوا کہ سعودی عرب کا ہاتھ سعودی صحافی جمال خاشقجی کی موت میں ہے تو
وہ اسے 'سخت سزا' دیں گے۔اس کے جواب میں سعودی عرب نے بھی جوابی کارروائی
کی دھمکی دی جس میں میڈیا کے ذریعے اطلاعات سامنے آئیں کہ سعودی عرب ممکنہ
طور پر تیل کی ترسیل روک سکتا ہے جس سے قیمتوں میں دگنا سے بھی اضافہ ہو
سکتا ہے۔ اس کے علاوہ سٹریٹیجک اعتبار سے اہم علاقے تبوک میں روس کو اڈہ
دینے پر تیار ہو سکتا ہے اور ایران سے بات چیت شروع کر سکتا ہے اور سب سے
بڑھ کی امریکہ سے اسلحے کی خریداری روک سکتا ہے۔خیال رہے کہ امریکی اسلحے
کے سب سے زیادہ خریدار مشرق وسطی میں ہیں اور اسلحے کا مجموعی طور پر سب سے
بڑا گاہک سعودی عرب ہے۔ امریکہ سعودی عرب کو آئندہ آنے والے سالوں میں 120
ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کر رہا ہے،سعودی عرب کے سرکاری ذرائع کی جانب سے
جوابی دھمکیوں کے بعد صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے شاہ سلمان کے ساتھ
فون پر اس معاملے پر بات کی جس کے بعد ان کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کی
گمشدگی کے پیچھے کچھ 'بدمعاش قاتل' بھی ہو سکتے ہیں۔
امریکہ اورعالمی طاقتیں آخرسعودی عرب کے خلاف ایک بہانہ بناکرکیوں کھڑی
ہوگئی ہے اس کاسیدھاساجواب یہ ہے کہ انہیں سعودی عرب کانیاکردارقبول نہیں
ہے جس میں محمدبن سلمان ملک کوترقی کی راہ اوراپنے پاؤں پرکھڑاکرناچاہتے
ہیں ،ولی عہدمحمدبن سلمان مشرق وسطی کی ثقافت اور روایتی سیاست کوتبدیل
کرنے کی راہ پرگامزن ہیں وہ اپنے سیاسی مخالفین وناقدین کی پرواہ کیے بغیر
ملک کی سابقہ روایات کو یکسر بدلتے ہوئے نہ توکسی مخالف آواز پر کان دھررہے
ہیں اور نہ ہی ان قدامت پرست حلقوں کو خاطر میں لارہے ہیں جو ملک پر روایتی
انداز سے حکومت کے حامی تھے۔ محمدبن سلمان کے دورمیں سعودی عرب کے روس سے
تعلقات بہترہوگئے ہیں محمدبن سلمان نے چین ،جاپان کے ساتھ تعلقات کومستحکم
کیاہے سعودی عرب سی پیک میں شامل ہوگیاہے اورگوادرمیں آئل سٹی تعمیرکرے گا
جس کے بعد سعودی تیل روس ،چین اوردوسرے ممالک تک جائے گا جس سے امریکہ
اوردیگرقوتوں کوخدشہ پیداہوگیا ہے کہ تیل ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا ۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ امریکہ صحافی کے قتل پرسعودی عرب کودھمکیاں دے
رہاہے جوگزشتہ چندسالوں میں پاکستان سے ریمنڈڈیوس او قاتل کرنل جوزف
کاسفارتی استثنی حاصل کرچکاہے اگراسی امریکی اصول کومان لیاجائے توپھرسعودی
عرب کوبھی سفارتی استثنی ملناچاہیے اوراسی امریکی اصول کے ذریعے سعودی عرب
کوبھی ریلیف ملناچاہیے حالانکہ سعودی عرب نے ایساکوئی ریلیف نہیں مانگاہے
بلکہ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا ہے کہ صحافی کاقتل ایک بڑی غلطی
تھی تاہم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے صحافی کی ہلاکت کا حکم نہیں دیا
اور وہ اس ساری کارروائی سے لاعلم تھے۔اورجمال کے قتل کوسعودی حکومت نے ایک
روگ آپریشن یعنی بلااجازت باغیانہ کارروائی قرار دیا ہے۔سعودی وزیرِ خارجہ
کا انٹرویو میں کہنا تھا کہ ہم تمام حقائق جاننے اور اس قتل کے تمام ذمہ
داران کو سزا دینے کے لیے پرعزم ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے اس واقعہ
کی تحقیقات کے بعد نائب انٹیلی جنس چیف احمد العسیری اور ولی عہد محمد بن
سلمان کے سینیئر مشیر سعود القحطانی کو بھی برطرف اور 18 سعودی شہریوں کو
بھی حراست میں لے کر شامل تفتیش کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ سعودی شاہ فرمان سلمان بن عبدالعزیز نے جنرل انٹیلی جنس
پریذیڈنسی کی از سر نو تشکیل کیلئے وزارتی کمیٹی کے قیام کی ہدایات جاری
کردی ہیں خادم الحرمین الشرفین نے ولی عہد اور سیاسی و سیکورٹی امور کی
کونسل کے صدر کی صدارت میں ایک وزارتی کمیٹی تشکیل دینے کا شاہی فرمان جاری
کیا ہے کمیٹی ایک ماہ کے اندر اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔ روس ،پاکستان ،چین
،مصر،عرب امارات ودیگردوست ممالک سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہیں اوران ممالک
کے نے سعودی عرب کے اقدامات اورتحقیقات پراطمینان کااظہارکیاہے جبکہ
دیگرممالک کوبھی صحافی جمال کے قتل کی تحقیقات اورسعودی عرب کے اقدامات
کاانتظارکرناچاہیے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |