آزمودہ نسخہ

معدے کی ثقالت نے ہمیں کاہل کر دیا ہے۔ زبان درازی عمل سے بازی لے چکی ہے۔اخلاق روٹھ چکا ہے۔ برکت ناپیدہو گئی ہے۔ ذلت نازل ہو چکی، انصاف ناپیدہو گیا۔تعلیم بے ثمر ہو گئی۔ الفاظ محض لکیریں بن کر رہ گئے ۔ اولادیں نا فرمان ہوگئیں۔ ۔۔ وغیرہ

یہ واقعہ مستند کتاب میں درج ہے۔ زبان دراز اور بے عمل ہجوم پر مشتمل ایک قوم ہوا کرتی تھی۔ تنظیم نام کی شے سے وہ واقف نہ تھے۔ دو وقت کی روٹی کے عوض اپنے مالکوں کے گھروں میں کام کیا کرتے تھے۔ پھر قدرت نے اپنے دن پھیرنے کے قانون کے تحت چاہا ان کے دن پھیر دے۔لیکن وہ نئے سفر پر روانگی کے لیے گھر کی دہلیز ہی چھوڑنے پر تیا ر نہ تھے۔ ان ہی میں سے اللہ نے ایک بندے کو نبی بنایا۔ جو ساری بھیڑکو ہانک کر ایک میدان میں لے گئے۔ میدانوں میں مقابلے ہوتے ہیں مگر ان کا اصرار تھا کہ مقابلہ ان کی بجائے ان کا نبی اور نبی کا خدا کرے۔خدا تو مقابلے میں ان کی فتح کا فیصلہ لکھ ہی چکا تھا مگر خدا نے حالات بھی ان بے عملوں کے موافق کر دیے۔ جب وہ فتح یاب ہو چکے تو ان کا قصہ اسی خدا نے ایک دوسری قوم کے سنانے کے لیے ایک دوسرے نبی کے دل پر القاء کیا ۔ اس نبی نے کتاب میں لکھوایا اور وہ کتاب پوری دنیا میں مستند مانی جاتی ہے ۔ اس دوسرے نبی کی قوم کو بھی نوازنے کا فیصلہ وہی خدا کر چکا تھا۔ نبی نے قوم کو میدان میں نکالنے کے لیے اکٹھا کیا۔ میدانوں میں مقابلے ہوتے ہیں۔ اس قوم نے اپنے نبی سے کہا ۔ خدا تو آسمانوں میں اپنی کرسی پر ہی بیٹھا رہے۔ اور اپنے نبی سے کہا ہم میدان میں مقابلہ کریں گے ۔ آپ بس ہمارے درمیان موجود رہ کر ہماری ڈھارس بڑہاتے رہیں ہم آپ کے دائیں اور بائیں ، آگے اور پیچھے رہیں گے، ہم میدان میں لڑیں گے، لڑتے ہوئے پہاڑوں پر چڑھ جائیں اور اگر ضرورت پڑی تو گہرے پانیوں میں بھی کود جائیں گے۔ اس قوم کے نبی نے اپنے لوگوں کے عمل کو دیکھا ، پرکھا، ان کے کر گذرنے کی داد اس طرح دی کہ ان کو بتا دیا تم شما ل اور جنوب ، مغرب اور مشرق کے مالک بنادیے جاو گے۔ جاہ و جلال چل کر تمھیں سجدہ کرنے آئیگا۔ دنیا کی فراوانی تمھاری دہلیز پر پہنچے گی۔لوگ تمھیں حکمران بنا کر عافیت پایا کریں گے۔یہ قوم میدان امتحان سے فراغت پاتی تو کام میں جت جاتی۔کام سے فرغ ہوتی تو علم کی کتاب کھول کر بیٹھ جاتی۔ یہ قوم کھانے مین سست اور کھانے کا حق ادا کرنے میں چست ہو گئی۔ اس قوم نے عملی طور پر معلوم کر لیا تھا امارت قناعت میں ہے۔ اقل طعام ان کے معدے کو سیر کرنے کا سبب بنا۔یہ کفائت شعار رات کو بے ضرورت دیا نہ جلاتے مگر بھوکی انسانیت کے لیے اپنی تجارت کے مال کا اصل بھی لٹا دیا کرتے تھے۔ان کے دبدبے کا یہ عالم ہوا کہ وہ تلوار نیام میں لیے جس شہر میں داخل ہوتے وہ شہر اپنے مکینوں سمیت ان کی جھولی میں آ گرتا۔

ہر طاقت کو آزمایا جاتا ہے۔ صناع اپنی صنعت کو صنعت سے آزماتا ہے، طاقت کو طاقت سے ، علم کو علم سے اور اخلاق کو اخلاق سے آزمایا جاتا ہے۔ کلاشنکوف نام کے شخص نے اپنی گن سے پہلی گولی خود چلا کر اسے جانچا تھا۔ جرنیل اپنی فوج کو آزمائشی جنگوں میںآزماتا رہتا ہے، ادیب اور شاعر وں کی محفلیں اپنے فن کی آزمائش ہوا کرتے ہیں۔ طالب علموں کو امتحان سے گذارا جاتا ہے ۔ خدا بھی اپنے نائبیں کا محاسبہ کرنے سے نہیں چوکتا۔

نبوت کا در بند ہو چکا ۔ قوموں کو نوازنے کا فیصلہ اب بھی وہی خدا کرتا ہے۔جس کو نوازنا چاہتا ہے ۔ اس کے لیے اسباب ارزان کر دیتا ہے۔

جب بات اسباب کی ارزانی کی ہو تو نبی آخرالزمان کی قوم کے لیے ارزانی صرف اس کے خون کی باقی رہ گئی ہے۔ اس کا سبب لوگوں کو زبانی ازبر ہے،بتایا جاتا ہے ہم میدان میں نکلنے کی بجائے گھر کی چوکھٹ ہی کو دنیا سمجھ بیٹھے ہیں۔ معدے کی ثقالت نے ہمیں کاہل کر دیا ہے۔ زبان درازی عمل سے بازی لے چکی ہے۔اخلاق روٹھ چکا ہے۔ برکت ناپیدہو گئی ہے۔ ذلت نازل ہو چکی، انصاف ناپیدہو گیا۔تعلیم بے ثمر ہو گئی۔ الفاظ محض لکیریں بن کر رہ گئے ۔ اولادیں نا فرمان ہوگئیں۔ ۔۔ وغیرہ

کیا مرض لا علاج ہو چکا۔ کیا ہم آنکھیں بند کر کے اپنے مرمٹنے کا انتظار کریں؟

نہیں ۔ نہیں ۔ نہیں، دنیا نشیب و فراز کا نام ہے ہر نشیب کو فرازہے ۔ ہر پستی کو عروج ہے۔ ہر مجرم کے لئے کفارہ ہے۔کوئی قوم غلط نہیں ہوا کرتی مگر افراد۔ فرد ہی کو ملت کے مقدر کا ستارہ بتا یا گیا ہے۔فرد کو آج تک خود فرد ہی نے بدلا ہے۔ آج کا فرد اگر اپنی ذات ، اپنے خاندان، اپنے ملک اور اپنہ امت کو بدلنا چاہتا ہے کہ وہ حق کو اپنا لے۔ حق کے لیے ٓآسان ترین اور سادہ ترین لفظ ْ سچ ْ ہے۔ایسا ْ سچ ْ جو خود اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے
 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 169552 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.