لعل ناسفتہ پہ جہالت کی ضرب

تحریر: عائزہ ظہیر
لفظ عورت کی تشریح کئی سالوں سے کی جارہی ہے بلکہ ہر زمانے میں کی گئی بڑی کتابیں لکھی گئیں،کئی فلسفے پیش ہوتے رہے مگر خقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب فلسفے عورت کی تعریف کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ عورت ایک کبھی نہ سمجھ آنے والی پہیلی ہے جس کو جتنا سلجھایا جائے اتنی الجھ جاتی ہے۔ کئی روپ،کئی کردار،کئی شکلیں ہیں اس کی مگر داد دینی پڑے گی کہ ایسی منجھی ہوئی اداکارہ ہے روپ،ہر کردار میں ڈوب کر اسے اپنا بنالیتی ہے۔

کہیں یہ ماں بن کر جھوٹ بولتی ہے،تو کہیں یہ بہن یا بیٹی کے روپ میں مکر کرتی رہتی ہے۔ ہر ماں کہیں نہ کہیں اپنی اولاد سے جھوٹ بول رہی ہوتی ہے۔ کبھی خالی پیٹ بھی کہتی ہے میرا پیٹ بھرا ہے تم لوگ کھا لو۔تو کبھی ہر محاذ پر قربان ہونے کے لیے کھڑی ہو جاتی ہے۔ ہر دکھ،ہر درد کو اپنی مسکراہٹ تلے چھپا لیتی ہے۔ اپنی ضرورتوں اور خواہشوں کا گلہ گھونٹنا بھی بہت خوب آتا ہے اسے نیز ان گھٹتی ہوئی تمناؤں کی سسکیوں کو قہقہوں سے دبانا بھی جانتی ہے۔کہیں اس کے بچوں کو کچھ نہ ہو جائے اس خیال سے بھی ڈر جاتی ہے۔ اپنی ذات کی نفی کر کے اپنے بچوں کو سینچتی ہے بالکل کسی باغبان کی طرح۔ دل کو جھوٹے بہلاووں سے بہلاتی رہتی ہے۔

بیٹی بن کر باپ کی لاج پر قربان ہو جاتی ہے اور بہن بن کر بھائیوں کی عزت پہ صدقے واری جاتی ہے۔ ہر روپ میں عورت قربانی دینا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ یہ سوچ کر ہمیشہ میری روح کانپ اٹھتی ہے کہ کیسے کوئی باپ اپنی بیٹی کو کیسے کوئی بھائی اپنی بہن کو محض زمین،جائیداد کے نام پر قربان کر سکتے ہیں۔مگر میں لاکھ جھٹلاوں یہ ایک تلخ خقیقت ہے کہ آج بھی بہت سی بیٹیاں الٹی چھری سے ذبح ہو رہی ہیں۔ ہاں آج بھی باپ محض خاندانی تنازعات کی بناء پر اپنے جگر کے ٹکڑے بیچ دیتے ہیں۔ کبھی زمین،جائیداد کا جھگڑا، کبھی قتل کا خون بہا،تو کبھی مالی نقصان کا تاوان، کوئی خاندانی جھگڑا ہو یا پنچایت کا فیصلہ۔ ان تمام معاملات میں حوا کی بیٹی کی بہت ارزاں قیمت لگائی جاتی ہے۔

اس لعل ناسفتہ کو "ونی" کا نام دے کر اس سے تمام تر حقوق چھین لیے جاتے ہیں۔ اس کے احساسات، جذبات ،خواب سب ان کی انا تلے روندے جاتے ہیں۔ وہ گونگی، بہری،جذبات سے عاری ایک زندہ لاش بن جاتی ہے۔ پھانسی سے قبل بھی آخری خواہش پوچھی جاتی ہے مگر افسوس کہ ونی کو یہ حق بھی حاصل نہیں۔ شرم آتی ہے مجھے ان غیرت مندوں کی غیرت پر جو اپنی غیرت کی خاطر اپنی ہی غیرت بیچ دیتے ہیں۔ جو عورت کو کھلونا سمجھتے ہیں کہ جب تک چاہا کھیل لیا اور جب چاہا گردن مروڑ کر پھینک دیا۔ مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انھیں پیدا کرنے والی بھی ایک عورت ہی ہے۔

آج یہ معاشرہ خود کو بہت پڑھا لکھا اور مہذب سمجھتا ہے۔ مگر افسوس کہ اس مہذب معاشرے کے مہذب شہریوں نے عورت کی قدر نہیں جانی۔ مگر اب عورت کو اٹھنا ہوگا مزید خود سے جھوٹ نہیں بول سکتی۔ کب تک آخر کب تک خود سے نظریں چراتی رہے گی۔ کبھی تو عورت کو اس کا اصل مقام ملے گا جو اس کا مذہب اسے دیتا ہے اور اس کے حصول کے لیے ہمیں اس عورت کا ساتھ دینا ہوگا جو ابھی تک جنوبی پنجاب کے کسی پسماندہ گاؤں میں کسی کے ظلم و زیادتی کا نشانہ بن رہی ہے۔ جو ابھی تک اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ جو ابھی تک خاموش سب سہہ رہی ہے۔

بظاہر زمانہ جاہلیت کی طرح زندہ درگور تو نہیں کی جارہی مگر پل پل مر ضرور رہی ہے۔ روز مرتی ہے اور روز زندہ ہو جاتی ہے پھر سے مارے جانے کے لیے۔ ہم جو آج کے ماڈرن معاشرے میں جی رہے ہیں انسانی حقوق کے علمبردار بنے بیٹھے ہیں ایک پل کے لیے بھی اس عورت کی زندگی کے بارے میں نہیں سوچتے۔ ہم بات کرتے ہیں کشمیر میں ہونے والے ظلم و ستم کے بارے میں۔ ہم بات کرتے ہیں سیاہ فاموں کے حقوق کے بارے میں۔ ہم دنیا کے کسی بھی کونے میں انسانی حقوق کی عدم دستیابی پر آواز اٹھاتے ہیں مگر ہم اپنے ہی ملک میں ہونے والی زیادتیوں سے نظریں چرا لیتے ہیں۔ ہم وہاں بہتری لانے کی بات کرتے ہیں جو ہمارے اختیار میں نہیں۔ اپنے ملک اور اپنے لوگوں کے بارے میں نہیں سوچتے بلکہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142034 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.