آپ آئیہیں سواب گھرمیں اجالا ہے بہت
کہیے جلتی رہے یاشمع بجھادی جائے
جب کسی کی شادی ہوتی ہے تو میاں سمیت سب گھروالے اسے سرپربٹھا کے رکھتے ہیں
اگرپہلے دن کی طرح ساری زندگی گزاری جائے تو کیا بری بات ہے ۔اﷲ پاک کا
لاکھ لاکھ احسان ہے کہ ہمیں انسان بنایا اوراس کے ساتھ ہمیں اشرف المخلوقات
بھی بنادیا جس کی وجہ سے ہم ہرشئے پرقابوپاسکتے ہیں یہاں تک کہ جنگل کے
بادشاہ شیرکوبھی انسانوں نے غلام بنایا ہوا ہے اوراﷲ کے کرم کی وجہ سے
انسان نے جنات پر بھی قابوپالیاہے مگرہرانسان میں کمی ضرورہوتی ہے کوئی
انسان 100%درست نہیں ہوسکتااس میں کوئی نہ کوئی خامی ضرورہوتی ہے خامی صرف
فرشتوں میں نہیں اسی وجہ سے وہ نورسے بنے ہیں مگرانسانوں میں کئی کمی
کوتاہیاں ایسی ہوتی ہیں جن پر قابوپاکرانکو سلجھایاجاسکتا ہے اسی لیے اپنے
شریک حیات کواپنی طرح انسان سمجھ کے اس کی غلطیوں کی نشاندہی کے بجائے ایک
دوسرے کوسمجھنے کی کوشش کی جائے توگھرٹوٹنے سے بچ سکتے ہیں اگرآپ اپنے شریک
حیات سے مطمئن ہیں تواسکا مطلب ہے کہ آپ زندگی کے حقاق کو قبول نہیں
کرپارہے اس کی وجہ یاتوآپ کارویہ ہوسکتا ہے یاایک دوسرے کوآپ سمجھنا ہی
نہیں چاہتے کچھ عورتیں اگرزیوریامہنگے کپڑے پہننے کا کہہ دیں تومردحضرات
گھرکوسرپراٹھالیتے ہیں کہ حالات ایسے ہیں ہاتھ تنگ ہے پتا نہیں کیا کیا
باتیں ہوتی ہیں حالانکہ شریعت نے زیوراورریشم عورتوں کیلئے حلال اورمردوں
کیلئے حرام کردی ہے ۔جیسے ایک شوہرچاہتا ہے کہ اس کی بیوی اس کے لیے زیب
زینت اختیارکرے توبیوی کو بھی چاہیے کہ شوہرکیلئے سج سنورکرتیارہے
اورشوہرکوبھی چاہیے کہ اپنی بیوی کے لیے وہ بھی بن سنورکررہے جیسا کہ ہمارے
نبی کریم اپنے بالوں میں تیل مبارک لگاتے کنگھاکرتے اس سے بڑھ کرآپ عطرکا
بھی استعمال کرتے حالانکہ آپ کے پسینے سے بھی خوشبوآتی تھی اس کے ساتھ ہی
آپ مسواک کااہتمام فرماتے اورآپ اپنی بیویوں کیلئے بن سنورکرجاتے ۔کچھ
گھرانے ٹوٹنے کا سبب چھوٹی چھوٹی تکرارسے شروع ہوتا ہے میاں بیوی مسئلہ
کاحل تلاش کرنے کے بجائے چیخ وپکاراورگالی گلوچ سے کام لیتے ہیں جس سے بچوں
پرتواس ہوتا ہے اس کے ساتھ ازدواجی رشتہ بھی اختتام کوپہنچتا ہے اﷲ کے
حضورنبی مہرباں ﷺ نے طلاق کو ناپسندیدہ فرمایا ہے مگرچھوٹی سی غلطی کی وجہ
سے بات طلاق پرچلی جاتی ہے ویسے جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہے عورت کو
مردکے مقابلے میں کم ہی سمجھا گیا لونڈیاں بنا کرانکی خریدوفروخت کی جاتی
زندہ دفنایا جاتا اور شروع سے لیکرآج تک عورت کے حقوق پر مرد ہی ڈاکہ ڈالتا
آرہا ہے معاشرے کے جاہلانہ تصور نے عورت کی زندگی کو جیتے جی جہنم بنارکھا
ہے صرف یہی تصورکیا جاتا ہے کہ عورت نے مردکے ساتھ سونا ہے بچے سنبھالنے
ہیں اورگھرکی دیکھ بھال کرنی ہے کھانا بناناہے اورکپڑے دھونے ہیں اگردیکھا
جائے توہمارے معاشرے کی عورت آج بھی لونڈیوں کی سی زندگی گزاررہے ہیں فرق
صرف اتنا ہے اب ایک بیوی ،بہو،ماں ہونے کی بنا پرخوشی سے وہ کام کرتی ہیں
جو لونڈیاں مجبوری میں کرتی تھیں حالانکہ یہی مرد عورت کی کوکھ سے
پیداہوکرمردبنتے ہیں آج کے دور میں کوئی اپنی ہی بیوی کے ساتھ کچھ دیر کیا
بیٹھ جائے گھروالے اوررشتہ دار تانے مارمارکے اس کی یہ حالت کردیتے ہیں کہ
اس کا من ہی من میں سوچتا ہے شاید شادی کرنا ہے گناہ ہوگیا ہے نعوذ باﷲ ۔اپنی
بیوی کے ساتھ بیٹھنا کیا اپنی بیوی کا ہاتھ بٹانا سنت نبی ہے احادیث کے
ذریعے نبی کریم ﷺ کی زندگی کے کچھ پل دیکھتے ہیں1.آپ ﷺ اپنی بیویوں کے ساتھ
کام میں ہاتھ بٹاتے تھے (بخاری شریف676)2.آپ ﷺامی عائشہ کی گودمیں سررکھ کر
قرآن پاک پڑھتے تھے جبکہ وہ حالت حیض میں ہوتی تھیں )بخاری297)3۔آپﷺاپنی
بیویوں کی کڑوی کسیلی باتیں خندہ پیشانی سے برداشت کرتے)بخاری2581)4۔آپﷺاپنی
بیویوں کی بیماری کی حالت میں انکی بیمارپرسی کرتے تھے)بخاری4141)5۔آپ ﷺحضرت
امی عائشہ کو نک نیم عائشہ سے بلاتے تھے 6،نبی کریمﷺ اس بات کو پسندفرماتے
کہ مومن اپنی بیوی کے ساتھ ہنسے اورکھیل کودکرے)بخاری6387)۔حقوق کے معاملے
میں اسلام زن وشوکا حامل ہے لیکن ان کے کارہائے عمل مختلف ہیں اس دور کو
ترقی یافتہ دورکہنے والے یہی سمجھتے ہیں کہ مرد عورت کے حقوق میں مساوات کو
غلط سمجھتے ہیں مگروہ یہ یادرکھیں کہ عورت ہرمعاملے میں مردکی برابری
کرسکتی ہے اورمیرے اسلام نے عورت کو قانونی واخلاقی حیثیت سے مردکے
برابرلاکھڑاکیا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کوفوقیت دے
کرازدواجی زندگی گزاریں جس سے میاں بیوی توخوش ہونگے اس کے ساتھ ہی بچوں کی
تربیت بھی اچھی ہوگی اوراپنے ماں باپ کی قدر کریں گے ہمارے معاشرے میں
چھوٹی چھوٹی بات پر میاں بیوی جھگڑنا شروع کردیتے ہیں جس پر قاری جمیل صاحب
نے مجھے قرآن کریم کی آیت بتائی ترجمہ:اورتم اپنی بیویوں کے ساتھ عمدگی سے
زندگی بسرکروپس اگروہ تمہیں کسی وجہ سے ناپسندہیں ہوسکتا ہے تمہیں ایک چیز
ناپسندہومگرخدانے تمہارے لیے بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔حضورنبی کریم کا
فرمان ہے تم میں سے بہترمومن وہ ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہترہے (ترمذی
1162)اگرشوہراپنی بیوی سے محبت کرے لوگوں کے سامنے اس کا مذاق نہ بنائے
اسکے والدین کو گالیاں نہ دے اوربیوی اپنے شوہر کے حقوق اداکرے اس کا کہا
مانے تویقیناًگھرجنت بن جائے اور ازدواجی زندگی کا مزہ ہی آجائے۔
|