توہین رسالتﷺ آزادی اظہار نہیں

یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق European Court of Human Rights کے سات رکنی بنچ نے بروز جمعرات پچیس اکتوبر 2018 ایک تاریخ سازفیصلہ دیا ہے۔ انہوں نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی توہین آزادیِ اظہار کی جائز حدوں سے تجاوز ہے۔ اس سے معاشرے میں تعصب کی فضاء بڑھے گی اور سماجی امن و امان کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔قارئین کی خدمت میں یہ بھی عرض کردوں کہ یورپی عدالتِ انصاف برائے انسانی حقوق ہے کیا؟یہ عدالت یورپی یونین کے تحت کام کرتی ہے اور اس کا کام مختلف افراد اور ملکوں کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلقہ مقدمات پر فیصلہ سنانا ہے۔یہ عدالت’’ یورپین کنونشن برائے انسانی حقوق‘‘ کے تحت فیصلے دیتی ہے جس کے میمورنڈم پر 47 ملکوں نے دستخط کر رکھے ہیں۔ اس عدالت کے سامنے پیش کردہ مقدمات کے لیے ضروری ہے کہ’’ یورپین کنونشن برائے انسانی حقوق‘‘ کے ضوابط کی خلاف ورزی کے نتیجے میں کسی فرد یا گروہ کو نقصان پہنچا ہو۔ یہ عدالت کل 47 ججوں پر مشتمل ہے جن کے نام یورپی یونین کے رکن ممالک تجویز کرتے ہیں جب کہ ان کا انتخاب’’ کونسل آف یورپ ‘‘کی پارلیمانی اسمبلی کرتی ہے۔ مذکورہ فیصلے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ای۔ ایس نامی آسٹرین خاتون ( حکمت کے تحت عدالت نے پورا نام ظاہر نہیں کیا ) نے 2008 اور 2009 میں’ ’اسلام کے بارے میں بنیادی معلومات‘ ‘کے عنوان پر مختلف تقاریر میں حضرت محمد مصطفیﷺ کی شان اقدس میں نازیبا کلمات ادا کیے تھے جن کی پاداش میں ان پر ’’ویانا کی ایک عدالت‘‘ میں مقدمہ چلا ۔ متعلقہ عدالت نے انہیں فروری 2011 میں مذہبی اصولوں کی توہین کا مجرم قرار دیتے ہوئے 480 یورو کا جرمانہ کیا اور اس کے ساتھ مقدمے کے تمام اخراجات بھی ادا کرنے کی سزا دی ۔ اس عورت نے اپنی سزا کی معافی کیلئے بہت جتن کیے۔ اس فیصلے کو آسٹریا کی اپیل کورٹ میں لے کر گئی ۔اس عدالت نے بھی سابقہ فیصلے کو برقرار رکھا۔پھر یہ خاتون اپیل کیلئے یہ کیس لے کر آسٹریا کے سپریم کورٹ میں پہنچ گئی۔ 2013 میں سپریم کورٹ نے بھی اس کیس کو خارج کردیا۔ بعد ازاں اس نے ’’یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق‘‘ میں اپنی سزا کی معافی کیلئے اپیل دائر کر دی۔فرانس کے شہر Strasbourg میں پچیس اکتوبر 2018 کو’’یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق‘‘ کے سات رکنی بنچ نے یہ تاریخی فیصلہ دیا کہ آسٹریا کی عدالت نے خاتون کو سزا دیتے وقت 'ان کی آزادیِ اظہار اور دوسروں کے مذہبی جذبات کے تحفظ کے مابین بڑی احتیاط سے اعتدال اور توازن برقرار رکھا۔عدالت نے یہ بھی کہا کہ آسٹریا میں مذہبی امن و امان برقرار رکھنے کیلئے عدالتوں نے یہ قابل قدرکام کیا ہے۔ اس خاتون نے بنیادی طور پر یورپی یونین کے ’’ انسانی حقوق کے قانون کی شق10 ‘‘کا سہارا لیتے ہوئے ’’یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق‘‘ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔ اس نے یہ موقف اختیار کیا کہ مقامی عدالتیں ان کی آزادیِ اظہار کے حق کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہیں لھذا آپ مجھے انصاف دیں۔تاہم عدالت نے کافی دنوں کی سماعت کے بعد فیصلہ صادر کیا کہ’’ اس خاتون کے بیانات آ ٓزادی اظہار کی جائز حدود سے متجاوز ہیں اور انھیں پیغمبر ِ اسلامﷺ کی عزت و آبرو پر حملہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے توہین آمیز اور اشتعال انگیز جملوں سے سے تعصب اور سماجی خرابیوں کو ہوا بھی مل سکتی ہے‘‘۔عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ انسانی حقوق کی شق 10 کے تحت اس خاتون کے حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔قارئین یہ بھی جان لیں کہ’’ انسانی حقوق کی شق 10‘‘ہے کیا؟ اس شق کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ یہ کہتا ہے کہ ہر کسی کو آزادیِ اظہار کا حق حاصل ہے ،جس میں حکومت کی مداخلت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اسی شق کے دوسرے حصے میں آزادیِ اظہار پرکچھ پابندیاں بھی لگائی گئی ہیں ۔ اس شق میں کہا گیا ہے کہ آزادیِ اظہار کے ساتھ ساتھ معاشرے میں رہنے والے دیگر لوگوں کے سماجی فرائض اور حقوق کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اور ساتھ یہ کہ اس آزادی اظہارکیلئے جمہوری سوسائٹی کے قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے رسم و رواج، معروضی حالات اوراخلاقی ضوابط کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تاکہ اس کی آڑ میں سماج میں میں بسنے والے لوگوں کے جذبات کسی بھی طور مجروح نہ ہوں۔ یورپ میں نبی محتشمﷺ اور شعائر اسلام کی مبینہ گستاخی کے واقعات اور ان کے نتیجے میں دنیا بھر کے مسلمانوں کے ا حتجاج کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے۔ماضی قریب میں آزادیِ اظہار کی آڑ میں توہینِ رسالت کے کئی واقعات پیش آئے جن پر پوری مسلم دنیا میں شدید رد عمل بھی سامنے آیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس دوران بہت سے لوگوں کی قیمتی جانیں بھی چلی گئیں۔اس کی ایک مشہور مثال سلمان رشدی کی متنازع کتاب تھی،اس گستاخانہ کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد عالم اسلام میں غم و غصہ اور اشتعال پیدا ہوا۔ اس کے خلاف سخت ترین فتوے دیے گئے۔ تاہم سلمان رشدی کا موقف تھا کہ اس نے بطور ادیب آزادیِ اظہار کا حق استعمال کیا ہے۔نیدر لینڈز کا سیاست دان گیرٹ وائلڈر اسلام مخالف موقف کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔اس نے سال 2018کے وسط میں پیغمبر اسلام محمد رسول اﷲ ﷺکے گستاخانہ خاکے بنوانے کے مقابلے کا اعلان کیا تھا تاہم عمومی طور پر دنیا بھر میں اورخصوصا تحریک لبیک پاکستان کے بھرپور احتجاج کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا ۔ اس کے علاوہ گیرٹ وائلڈر قرآن پر پابندی لگانے اور مسلمان تارکینِ وطن کو نیدرلینڈز سے نکلوانے کی مہم چلانے جیسے متنازع کاموں میں بھی ملوث رہ چکا ہے۔2008 میں اس نے’’فتنہ‘‘کے نام سے ایک توہین آمیز فلم بنائی جس میں اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کی گئی تھی۔ نیدرلینڈز میں ٹیلی ویژن کمپنیز نے یہ متنازعہ فلم چلانے سے انکار کر دیا تھا ۔ یہاں تک کہ کچھ سیاست دانوں نے اس پر پابندی لگانے کی بھی کوشش کی۔ لیکن اس سب کے باوجودوائلڈرز باز نہ آیا اور اس نے اسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈکر دیا جس پرمتعدد مسلمان ملکوں اور تنظیموں کے احتجاج کے دوران سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے ۔اسی طرح 2014میں فرانس کے مجلہ’’ چارلی ایبدو ‘‘نے ہمارے پیارے نبی مکرم ﷺکے گستاخانہ خاکے شائع کیے تھے جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے مسلمان سراپا احتجاج تھے ۔ ان تمام واقعات کے خلاف احتجاج کے دوران مسلمان زعماء اور تنظیموں کی طرف سے یہ بھرپور مطالبہ کیا جاتا رہا کہ کسی بھی اﷲ کے سچے نبی و رسول کی توہین کوقابل سزا جرم قرار دیا جائے۔ اس پر باضابطہ قانون سازی کی جائے لیکن اس طرف توجہ نہیں دی گئی۔ماضی قریب میں پیش آمدہ ان واقعات کے تناظر میں European Court of Human Rights کا یہ فیصلہ تمام اہل اسلام کیلئے خوش آئندہے۔ مسلمان( خدا نخواستہ)مستقبل میں کسی بھی گستاخی پر مبنی کاروائی یا واقعہ کو عدالت لے جا کر اس کیس کا حوالہ دے کر کہہ سکتے ہیں کہ اس سے ہماری دل آزاری ہوئی اور ہمارے بنیادی حقوق مجروح ہوئے ہیں۔ اس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ یورپ میں گستاخانہ رویوں کو روکنے کیلئے یہ فیصلہ ممد و معاون اور سنگ میل ثابت ہوگا۔
 

Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 218691 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More