ٹشو پیپر

تحریر:زینب نور
؂اس کی زندگی میں ٹشوپیپر کی اہمیت صرف اتنی ہی تھی کہ وہ اس سے چہرے کی گرد صاف کرتااور پھینک دیتا۔اس کے ہمراہ ٹشو پیپر لازمی ہوتا۔وہ کہیں جاتا اپنے ضروری سامان کے علاوہ ٹشو پیپر لازمی رکھتا۔اس کے بغیر وہ نامکمل تھا تھا۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد ٹشو پیپر سے منہ صاف کرنا اس کی پختہ عادت تھی۔وہ جب بھی اس کے ساتھ ہوتی پتا نہیں کتنے ہی ٹشو پیپر اس کے سامنے پاوں تلے روند دیے جاتے۔وہ کبھی کبھی اس کی عادت سے بے زار بھی ہوجاتی لیکن وہ اس کی بات کو ہمیشہ ہنس کے ٹال دیتا۔اس نے بہت کوشش کی کہ وہ اس کی عادت سے جان چھڑوا دے لیکن عادتیں کب چھوٹتی ہیں۔

وہ اس کے برے وقتوں کی ساتھی تھی۔اس کے ساتھ اس نے اپنے دکھ دردبیان کیے ، اپنے آنسو تک بہائے تھے۔اس کے پاس اس کے ہرمسئلے کاحل تھا ۔ اس کی ہر ہریشانی وہ منٹوں میں حل کردیتی تھی اور وہ اپنے آپ کو ہر دکھ اور پریشانی سے آزاد محسوس کرتا۔اس کے لیے وہ بہت اہم تھی اور وہ بھی اسے اپنی زندگی سمجھتی تھی۔ اسی لیے تو اس کے دکھ پہ دکھی ہوتی اس کے رونے پہ روپڑتی۔اس کا کل اثاثہ وہی تو تھا اور اس کے پاس کیا تھا بھلا۔

ماں باپ کی وفات کے بعد وہ مستقل اپنی خالہ کے ساتھ رہ رہی تھی بھائی بھابیوں کی طوطاچشمی کے بعد ان کے ساتھ رہنا اپنی جان پہ ظلم کرنے کے مترادف تھا۔پڑھائی کے ساتھ ساتھ ٹیوشن پڑھا کر گزارا کر لیتی۔وہ خودار تھی ، کسی پہ بوجھ بننا اسے پسند نہ تھا۔الیاسین اس کا یونیورسٹی فیلو تھا اور دوستی اتنی گہری ہوتی گئی کہ وہ ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم کی حیثیت اختیار کرتے گئے۔وہ صدف تھی جس نے اس کے دکھ درد سارے غم پریشانیاں اپنے اندر سمیٹ لی تھیں۔اور وہ ان غموں سے آزاد تھا کیوں کہ وہ اس کے ساتھ تھی۔اسی طرح سبک روی سے دن گزرتے گئے۔انہوں نے یہ دن ایک بن کر گزارے۔ان کی جوڑی بہت مشہور ہوئی۔کوئی ان کو رشک کی نظر سے دیکھتا اور کوئی حسد کی نظر سے۔تقدیر سے بے خبر وہ اپنے حال میں خوش تھے۔ان کے لیے ساری منزلیں آسان اور سارے ہدف کامیابی کے تھے۔لیکن زندگی کہیں نہ کہیں بیٹھی مسکرا رہی ہوتی ہے ان خوش گمانیوں پہ۔انسانی بھولپن پہ۔

یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد وہ ایک پرائیوٹ اسکول میں ملازمت ڈھونڈنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔اس سے ایک تو وہ کسی پہ بوجھ نہیں بنی اور دوسرا دن اچھا اور مصروف گزر جاتا تھا۔اسی طرح وہ زندگی کے دن گزار رہی تھی۔وہ اس پہ زور ڈالتی کہ رشتہ بھیجو لیکن وہ کوئی خاطر خواہ جواب نہ دیتا۔روز ہی کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کے ٹال دیتا۔وہ امیدکا دامن پکڑے رکھتی۔لیکن اس نے اس کی امید کوداغ دار کردیا ۔ وہ اس کا لاحاصل انتظار بن گیا۔وہ جو اس کے بغیر ایک پل نہیں گزارتا تھا وہ نجانے کہاں چلا گیا تھا۔

وہ جہاں بھی تھا اپنی زندگی کو داؤ پہ لگا بیٹھا تھا۔وہ مات کھا گیا تھا۔وہ ہارا نہیں تھا لیکن ہرا دیا گیا۔وہ سولی پہ چڑھا نہیں چڑھا دیا گیا۔وہ مجبور ہوا نہیں لیکن مجبور کردیا گیا۔وہ اگر اس دن ماں کے دوپٹے کو روند دیتا تو کافر بن جاتا لیکن وہ دوپٹہ ماں کے سر پہ ڈال کے اس کے جینے کی وجہ بن گیا۔وہ مجبور ہوگیا اگر وہ مجبور نہ ہوتا تو اس کی بہن اس کی ماں جائی طلاق جیسے قبیح فعل کے ہاتھوں بے موت ماری جاتی اور اس کے ساتھ جڑی زندگیاں بھی صحرا کی طرح بے آباد اور ویران ہوجاتیں۔الیاسین نے اپنے اوپر گزری قیامت کو خود ہی سہنا ضروری سمجھا وہ جو ہر دکھ پریشانی پر اس کے در پہ دوڑا جاتا اتنے بڑے سانحے پہ چپ سادھ گیا۔۔

یہی چپ صدف کو الجھا گئی وہ جتنا سوچتی الجھ جاتی اسکے ساتھ بتائے سارے پل اس کی آنکھوں کے آگے گزرتے تو رو پڑتی۔وہ پوچھے تو کس سے پوچھے گلہ کرے تو کس سے ایک سوال کے آگے وہ بے بس سی ہوجاتی کیا اس کی اہمیت ٹشو پیپر جتنی تھی ؟جس سے اس نے اپنے دکھ درد پریشانیاں صاف کیں اور پھینک دیا۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142634 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.