تحریر: بلال شیخ
حاجی نذیر نے اپنی زندگی میں بہت غربت دیکھی تھی۔ پندرہ سال پہلے رکشے کی
کمائی سے کچھ پیسے اکھٹے ہوئے تو ان کو استعمال کرنے کا سوچا تو بیگم نے
کہا’’اس کو سنبھال کر رکھیں پاس ہی ایک مارکیٹ بن رہی ہے، سنا ہے دکانیں
سستے میں مل رہی ہیں۔ کچھ اور پیسے اکھٹے ہو ں گے تو دکان خرید کر کاروبار
کرئیں گے‘‘۔بیگم کی بات سن کر نذیر نے پیسے سنبھال لیے۔ کچھ مہینے گزرے تو
نذیر نے مارکیٹ میں دکان کا ریٹ پتا کیا تو اس کی بچت سے مہنگا تھا۔ اْس نے
کچھ سامان بیچا اور کچھ پیسے ادھار لیے اور دکان خرید لی۔دکان خرید کر اس
میں کپڑے کا کاروبار شروع کیا اور محنت اور لگن سے اس کو چلایا۔ نذیر نے
اپنی زندگی میں ایک ہی خواب دیکھا تھا اور وہ اپنے کاروبار کا تھا جو کہ
پورا ہو گیا تھا۔ نذیر کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا ۔ کاروبار کو کچھ
عرصہ گزرا تو اس نے نذیر کی محنت اور لگن کا نتیجہ دکھانا شروع کر دیا۔ دو
سالوں بعد کاروبار نے بچت دی تو اْس نے حج کا سوچا اور اپنی بیگم کے ساتھ
حج کی سعادت حاصل کی۔ اس طرح نذیر حاجی نذیر بن گیا اور اپنی دکان کا نام
حاجی نذیر ٹریڈرز رکھ دیا۔ کاروبار چلتا رہا اور زندگی کی خواہشیں پوری
ہوتی رہی۔
حاجی نذیر کو لگتا تھا اب زندگی میں ویسے مسئلے نہیں آئیں گے اور میں اپنے
بچوں کو اچھا مستقبل دوں گا۔ اس کاروبار کو پندرہ سال گزر گے اور اب حاجی
صاحب کا بیٹا بھی ان کے ساتھ کام کرنے لگ گیا تھا۔ ایک مہینے تک حاجی صاحب
کی بڑی بیٹی کی شادی تھی ۔ روز کی طرح حاجی صاحب نے آج بھی بسم اﷲ پڑھ کر
دکان کھولی اور دکان صاف کر کے کرسی پر بیٹھ گے اور رب سے پورے دن کے لیے
اچھے کی دعا مانگی اور گاہک کا انتظار کرنے لگ گے ۔ مگر آج مارکیٹ میں کچھ
سناٹا سا تھا۔گاہک کی آمد بہت کم تھی اچانک ایک شور اْٹھا ’’ اپنا مال
سنبھالوں کارپوریشن والے آ گے ہیں‘‘۔ حاجی صاحب پہلے گھبرائے پھر بولے،
’’مجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ میری دکان نا جائز نہیں۔میں نے پورے پیسے
ادا کیے ہیں اور میرے پاس کاغذات بھی پڑے ہیں‘‘۔ یہ سوچ کر سکون سے بیٹھ
گئے۔ کچھ دیر بعد ایک کرین آئی اور سیدھی حاجی صاحب کی دکان کے بورڈ کے
اوپر آ کر لگی جس سے اْن کا بورڈ دھڑام سے زمین کے نیچے آ کر گر گیا اور
حاجی صاحب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ کچھ لوگوں نے حاجی صاحب اور
اْن کے بیٹے کو دکان سے باہر کیا۔
حاجی صاحب کے دل پر جیسے مکا لگا اْنہوں نے بھاگتے ہوئے افسر کے پاس گئے
اور بولے’’ جناب میری دکان نہ توڑیں، دیکھیں میرے پاس کاغذات ہیں۔ مجھے
موقع دیں میں ابھی آپ کو دکھاتا ہوں‘‘۔مگر افسر کے کان صرف حکم کی تعمیل کے
لیے بنے تھے۔’’ نہیں جناب یہ دکان ناجائز ہے اور یہ زمین حکومت کی ملکیت ہے
اور آرڈر ہے کہ یہاں سے سب دکانیں ختم کر دی جائیں‘‘۔ حاجی صاحب نے دیکھا
افسر نہیں مان رہا تو انہوں نے اپنی مجبوریاں گنوانا شروع کر دیں۔’’ دیکھے
جناب میں نے یہ دکان کا معاوضہ ادا کر کے خریدی اور میں اس کا ٹیکس بھی ادا
کرتا رہا ہوں اور کاروبار کے بھی تمام ٹیکس ادا کرتا رہا ہوں میرے پاس سب
ہے‘‘۔ افسر نے سنا تو غصے میں بولا ،’’ ہمارے پاس بھی سب ہے اور صاف صاف
لکھا ہے یہ ناجائز طریقے سے بنایا گیا ہے‘‘،افسر نے کہا۔’’دیکھیں میں نے اس
دکان کو بڑی محنت سے اور لگن سے چلایا ایسا نہ کریں،میری بچیاں ہیں، میں
اسی ملک کا فرد ہوں‘‘۔
افسر نے کہا ،’’ قانون مجبوریوں کو نہیں سمجھتا اور آپ کی محنت اور لگن
ہمیں یہ بتاتی ہے کہ آپ نا جائز طریقے سے اِس ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ توبہ
کریں حاجی صاحب ‘‘۔ حاجی صاحب کو افسر کی بات سن کر بہت دکھ ہوا کہ وہ ان
کی پندرہ سال کی محنت کو ناجائز کہ رہا تھا وہ پیچھے مڑنا چاہتے تھے مگر جب
وہ اپنی دکان کی طرف دیکھتے تو ان کو اپنے گھر کی فکر ستاتی۔’’ جناب میری
بیٹی کی اگلے ماہ شادی ہے۔ میرے گھر کا آخری ذریعہ آمدن یہ کاروبار ہے ایسا
نہ کریں،میں نے آج تک کسی کا برا نہیں کیا یہ کاروبار بھی اس ملک کا ہے۔
میں بھی اسی ملک میں پیدا ہوا ہوں اور میرے بچے بھی اسی ملک میں کھاتے ہیں
ایسا نہ کریں،میں کیا کروں گا ۔میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کا ناحق
نہیں کھایا یہ کاروبار ہی میری زندگی ہے میری زندگی کو مجھ سے نا چھینیں‘‘۔
افسرنے اب کے غصے سے کہا،’’ حاجی صاحب کیوں دماغ خراب کر رہیں ایک تو ملک
سے دشمنی کرتے ہیں اوپر سے جذباتی لیکچر دے رہیں ہیں، کچھ شرم کریں، جائیں
گھر جائیں ہمیں اپنا کام کرنے دیں‘‘۔ حاجی صاحب بالکل نا امید ہو گے وہ
سائیڈ پر زمین پر بیٹھ گے اور اپنی دکان کا جنازہ نکلتا دیکھنے لگے جیسے
جیسے کرین ان کی دکان کی دیواروں پر حملہ کرتی ویسے ویسے حاجی صاحب کے دل
پر ضرب پڑتی تھی۔ حاجی نذیر ٹریڈرز کچھ ہی لمحوں میں زمین پر مردہ لاش ہو
گئی اور حاجی صاحب بھی زمین پر بیٹھے اپنے بورڈ کو دیکھ رہیں تھے جو ان کو
ان کے ماضی کے وہ دن دکھا رہی تھی جب وہ رکشہ چلایا کرتے تھے اور گھر میں
غربت اور نا امیدی کے سائے منڈلاتے رہتے تھے۔
پھر اپنی بچیاں یاد آئی اور گھر کی خوشیاں غائب ہوتی نظر آئی تو اچانک اپنی
جگہ سے اْٹھے اور اپنی قمیص کو جھولی کی شکل بناتے ہوئیں اونچی آواز میں
بولنے لگے ’’ یا اﷲ جنہوں نے میرے گھر کی خوشیاں چھینی ہیں تو ان کی خوشیاں
چھین لے ۔ یا اﷲ جنہوں نے میرے ذریعہ معاش کو نقصان پہنچایا ، ان کو بھی
سکون کا رزق نصیب نہ ہو، یا اﷲ جنہوں نے میرے سکون برباد کیا تو ان کا سکون
چھین لے، مجھے اِس ملک میں تو نے پیدا کیا جدھر میری دعائیں سنتا تھا ادھر
میری بد دعائیں بھی سن‘‘۔
اس طرح حاجی صاحب بد دعائیں کرتے رہیں اور اِس طرح ان کا حال دوسروں کو بتا
رہا تھا کہ جو حکمران عوام کو کیڑے سمجھ بیٹھتے ہیں اور اپنے آپ کو ہمیشہ
کا بادشاہ بنا لیتے ہیں۔یہ بد دعائیں حکمرانوں کو عبرت کا نشان بنا دیتی
ہیں۔ تو جیلوں میں آنا جانا اقتدار کا ہاتھ سے نکل جانا اور اپنے گھر میں
ہوتے ہوئے بھی سکون کا نہ ہونا جلسوں میں سر عام گولی کا نشانہ بن جانا اور
ذلالت ان حکمرانوں کا نصیب بن جاتی ہیں اور سب سے بڑے بد قسمت وہ وعوام اور
حکمران ہیں جو اپنے ماضی کے واقعات سے عبرت حاصل نہیں کرتے۔
|