اچھا ہے گر دل اگر بچہ ہے
ہو کے جوان ہماری طرح جانے کیا کرتا
گر پڑھ لیتا اس نگاہ کو
پھر ناجانے کیسے جیتا
سونیا نے آج بہت ادب سے راغب کے سلام کا جواب دیا،،،اس سے پہلے وہ سرسری دن
بھر
کے بارے میں سوچتی ہوئی بے دھیانی سے سر نیچے کردیا کرتی تھی۔
نوشی کو ہشاش بشاش سا دیکھ کر متاثرکن انداز میں بولی،،،آج بہت چمک رہی ہو
،،سب
خیریت ہے نا؟؟؟
نوشی مسکرا کربولی،،جب مال ہو مفت اور دل ہو جائے بے رحم،،تو ایسا ہی کچھ
چہرہ چاند
سا ہوا جاتا ہے،،،مگر تم نہیں سمجھو گی،،،!!
سونیا نے سر کو ستائشی انداز میں “ہاں“ اور قدرے “ہونہہ“ کے انداز میں حرکت
دی،،،سونیا
سوچ کے بولی،،،لگتا ہے،،،
نوشی سونیا کی طرف متوجہ ہوگئی،،،سونیا نےمسکرا کر کہا،،،نوشی کی،،،اپنے
نوشے سے،،،،
ملاقات ہوگئی،،،ہے نا؟؟؟
نوشی نے زور سے قہقہہ لگایا،،،یار ،،،اس کو ڈانٹا بھی،،،ڈرایا بھی،،،مال
بھی کھایا،،،!!
سونیا بےغرض سے لہجے میں بولی،،،خیر مال تو اپنا ہی کھایا تم نے،،اچھی بیوی
پر بندہ اتنا
تو خرچ کرسکتا ہے،،،!!
نوشی نے خوش ہوکر سونیا کو فلائنگ کس کی،،سونیا نے فائل کھول کر اپنا دھیان
فائل کی
طرف کردیا،،،اب وہ سر تھامے فائل میں کھوئی ہوئی تھی،،،!!
سونیا کی ماں اکتائے ہوئے انداز میں سامنے بیٹھے ہوئے سونیا کے سابق منگیتر
“ضمیر“،،،
کے منہ سے اسے چھوڑ جانے والی بیوی کی بھرپور برائیاں سن رہی تھی،،،
سونیا کی ماں بار بار موضوع بدلتی تھی،،،مگر ضمیر بار بار بیوی اور اس کی
١٠٠١ برائیوں کو
بوڑھیوں عورتوں کی طرح کوستا جارہا تھا،،،اس سے شادی کو اپنی زندگی کی سب
سے بڑی،،،،
غلطی قراردے رہا تھا،،،!!
پھر اک دم سے بات بدل کر بولا،،،آنٹی،،،مگر اک بات ہے،،،کہ،،،میں آج
بھی،،،،(جاری)
|