لباس

تحریر:عظمی ظفر
سیمینار ہال تالیوں کی گونج سے بھر گیا تھا۔مسسز مکرم کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ ان کی پڑھی گئی تقریر (عالم انسانیت، مسلمانیت اور حیوانیت)جو انتہائی حساس و دلگرفتہ موضوع تھا۔ سیمینار میں آئے سبھی لوگوں کو اتنی پسند آئے گی البتہ انھوں نے گمان ضرور کیا تھا کہ جس اہم مسئلے پر وہ بات کریں گی آج کل کا ہارٹ ٹاپک تو یہی ہے۔ روہنگیا، برما،شام، سیریا، بوسینیا،افغانستان اور پتا نہی کتنے نام تھے جو انھیں پتہ بھی نہیں تھے بس جو ان کی رائٹرنے لکھے تو انھوں نے ادا کردیے اور سب کی توجہ وہ اپنی فلاحی تنظیم کی طرف ضرور مبذول کروالیں گی لہذا انھوں آواز اور لہجے میں ہر ممکن نمی رکھی تھی۔ کچھ جملوں پر آنکھوں سے بھی قطرے ٹپک پڑے تھے جو اس بات کا ثبوت تھے کہ عطیے کے طور پر چیک میں لکھنے والی رقم میں کتنے صفر لگنے والے ہیں۔ڈائس سے اتر کر مہمان خصوصی کی نشست کے برابر بیٹھنے تک تالیاں گونج رہی تھیں۔

’’دل خوش کردیا، مسز مکرم آپ نے تو بھئی واہ!! ‘‘، بات کو حقیقت کا رنگ دینا کوئی آپ سے سیکھے ناچیز کی طرف سے یہ معمولی سی رقم آپ کی فلاحی تنظیم کے لیے (سیمینار ختم ہونے کے بعد مہمان خصوصی نے مسز مکرم کو ایک چیک پکڑاتے ہوئے ان کا ہاتھ تھام لیا۔)مسز مکرم نے اپنے موتیوں جیسے دانتوں کی ایک جھلک دکھائی وہ اس گرم جوشی کا مطلب سمجھ چکی تھیں، ’’جاہنزیب صاحب، آپ کبھی ہمارے دفتر تشریف لائیں نا ں، ہم آپ کو اچھی سی چائے پلوائیں گے‘‘۔ جہانزیب صاحب نے مسز مکرم سے وعدہ لے لیا ایک بار پھر ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر۔فلش لائٹس چمک اٹھیں تھیں۔کھچ کھچ تصاویر کیمروں میں قید کی جارہی تھیں۔مسسز مکرم اور جہانزیب صاحب کل کے پرنٹ اور سوشل میڈیا کی زینت بننے والے تھے۔شہ سرخی لگنے والی تھی ۔

مسسز مکرم ایک درد دل رکھنے والی سماجی کارکن،جہانزیب صاحب ایک سخی دل رکھنے والے بزنس مین۔جب کہ دونوں کے لالچی دلوں کا حال تو اﷲ جانتا تھا۔سیمینار ہال سے باہر نکلتے ہی ایک معمولی شکل کی لڑکی نے ان کا رستہ روک لیا۔ میم آپ نے جس طرح روہنگیا کے ایک مسلمان بیٹی کی کہانی درد دل سے سنائی اس کے بارے میں کچھ بتائیں گی۔ کیا آپ رپورٹر ہیں؟مسسز مکرم کو اسے دیکھ کر ایسا لگا نہیں اس لیے پوچھا۔ مجھے کچھ کام ہیں آپ آفس آکر بات کرسکتی ہیں۔ مسسز مکرم کو اس لڑکی کے پیچھے جاننے والے میڈیا پرسن نظر نہیں آرہے تھے اس لیے انھوں نے اس کو اہمیت دینا مناسب نہیں سمجھا۔نہیں میم! میں بھی ایک یتیم خانے سے تعلق رکھتی ہوں اور اس کے لیے ڈونیشن اکھٹا کرتی ہوں۔

کیا آپ ہمارے یتیم خانے کے لیے کوئی تعاون کرسکتی ہیں ؟ میم ہمارے شہر میں بھی ایسے لوگ ہیں جو آپ جیسی این جی اوز کے منتظر ہیں جہاں آپ کے توسط سے کئی بہنوں کے تن ڈھک سکتے ہیں ، کئی بچوں کے پیٹ بھر سکتے ہیں۔آپ ہمارے یتیم خانے کی طرف بھی مخیرحضرات کو بھیج سکتی ہیں۔اس لڑکی نے ایک سانس میں سب کہہ ڈالا کہیں یہ موقع ہاتھ سے کھو نا جائے۔ مسسز مکرم کو اس کی بات سن کر شدید غصہ آگیا۔ آس پاس کے معزز لوگوں اور میڈیا کا خیال نہ ہوتا تو وہ اس معمولی لڑکی کی ٹھیک ٹھاک بے عزتی کرتیں۔میں تعاون کرنے کے لیے نہی رکی، وہ ترش رو ہوئیں۔

مگر میم میں جانتی ہوں کہ آپ کو جتنی رقم ملی ہوگی اس کا استعمال آپ کتنا اپنی ذات پر کریں گی اور کتنا اپنی تنظیم کو دیں گی۔وہ بے باک تھی مگر یہ سچ بہت کڑوا تھا مسسز مکرم کے لیے۔ اپنی حد میں رہو لڑکی ،جاؤ اپنی کام کرو۔اتنا وقت ضائع کردیا میرا، منہ اٹھا کر آجاتی ہیں۔ایک ہاتھ سے اس لڑکی کو پرے دکھیلتے ہوئے نخوت سے آگے بڑھنے لگیں۔چونکہ اب وہاں کوئی نہی تھا اس لیے انھوں نے اپنا غصہ ٹھنڈا کر لیا تھا۔چند گھنٹے قبل انتہائی شگفتہ اور درد دل رکھنے والی مسز مکرم کا اصلی چہرہ کس نے دیکھا تھا، اﷲ جانتا تھا۔

اگلا دن مسسز مکرم کا حسب معمول مصروف ترین دن تھا آج تو انھیں ایسے سیمینار میں شرکت کرنی تھی جہاں ترکی سے بھی ڈونیشن ملنے والی تھی۔روہنگیا،اراکان، وہ چیک بک تھے جس پر وہ اپنی مرضی کی رقم لکھوا سکتی تھیں۔اپنے کپڑوں کی الماری کھولے وہ سوچ رہی تھیں کہ کون سا جوڑا پہنیں۔کم از کم ان کے پاس استری کیے ہوئے دس، پندرہ جوڑے لٹک رہے تھے اور بہت سارے نچلے خانے میں سلیقے سے رکھے ہوئے تھے کتنے جوڑوں کی تو باری دوسری مرتبہ آئی ہی نہیں تھی۔یہ والا پہنوں، نہیں ، یہ تو ہلکا رنگ ہے۔ یہ پنک ٹھیک لگے گا۔ نہیں، دل نے کہا نیلا رنگ اچھا رہے گا۔ کئی لمحے اسی شش پنج میں گز گئے۔کیا مصیبت ہے میرے پاس تو ایک بھی ڈھنگ کا جوڑا نہی کچھ کپڑے انہوں نے ہینگر سے کھینچ نکالے اور زمین پر پھینک دیے۔

ایک عجیب اضطرابی اور بے چینی کی کیفیت نے انھیں گھیر لیا تھا۔ ایک جوڑے کا انتخاب مشکل تھا اور پھر اچانک ان کو یاد آیا۔(میم آپ کے تعاون سے کئی بہنوں کے تن ڈھک سکتے ہیں۔) ایک التجا نے ان کے وجود کو جھنجھوڑا، ہونہہ، ٹھیکا لیا ہے سارے زمانے کی مدد کا کیا میں نے؟ رعونت سے اپنے خیال کو جھٹکامگر دوسرے خیال نے ان کے سینے کی گھٹن بڑھا دی۔کل کی تقریر ان کے سامنے سراپا سوال بن گئی جس کہانی کو موضوع بناکر انھوں نے واہ واہ سمیٹی اور رقم جمع کی تھی ان کے ارد گرد سانپ بن کر رینگنے لگے۔

وہ کہانی کیا تھی۔ایک سچی اور تلخ حقیقت تھی روہنگیا کے ایک مسلمان گھر سے شرم و حیاء کی پیکر ایک بیٹی کو درندے اٹھا کر ایسی جگہ لے گئے جہاں اس کی مدد کو کوئی نہ آسکا۔ درندوں نے اپنی درندگی کا کئی بار نشانہ بنایا مگر اس بیٹی کو تن چھپانے کے لیے ایک چھیتڑا نہیں مل سکا۔ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے وجود کو چھپاتی اور درندے قہقہ لگا کر ہنستے اور کئی دن تک وہ بے لباس تھی ۔ صرف وہ نہیں اس جیسی کئی بیٹیاں وہاں زندہ تھیں مگر برہنہ تھیں۔ کئی دن کئی دن اور کئی دنوں کے بعد بھوک نے اس کا رشتہ زندگی سے توڑ دیا مگر اس کی نعش کو پھر بھی لباس نہیں ملامگر مٹی نے اسے چھپا لیا تھا۔ مسسز مکرم مگر مچھ کے آنسو لیے آبدیدہ تھیں اور سیمینار ہال تالیوں سے گونج اٹھا تھا۔

مسسز مکرم کے ہاتھ جس لباس کو چھوتے وہ تار تار ہو جاتے۔ کیوں کہ اس معمولی لڑکی کو پرے دھکیلتے ہوئے انہوں نے اس کے سر دوپٹہ کھینچ کر دور پھینک دیا تھا۔ اس کا سر ننگا کردیا تھا۔ اور تمسخر اڑا کر چلی گئیں تھیں۔ ان میں اور درندوں میں کیا فرق تھا؟؟ کون جانتا تھا،سوائے اﷲ کے۔جس کی لاٹھی بے آواز ہے۔نیا لباس پہننے کا موقع مسسز مکرم کو بھی نہیں مل سکا اور وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے ہر لباس کو دیکھ رہیں تھیں۔ اپنے ہوش و حواس کھوچکی تھیں۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1023204 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.