پاکستان رائٹرز کونسل اور بزم ادب کے اشتراک سے معروف
کالم نگار،مزاح نگار اور ڈرامہ نگار جناب گل نوخیز اختر کو خراج تحسین پیش
کرنے کے لیے پروگرام کی تیاریاں جاری تھیں،وقت، تاریخ اور جگہ کا تجسس تھا۔
اچانک مرزا محمد یٰسین بیگ صاحب نے فون کیا اور بے ساختہ تقریب کے حوالے سے
کہنے لگے وقت، تاریخ اورجگہ کا انتخاب ہوگیا ہے آپ نے پروگرام میں شرکت کو
یقینی بنانا ہے۔ مرزا صاحب خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے عظیم انسان ہیں اور
ان کی خاص بات یہ کہ ان کی فطرت میں ہر لحاظ سے انکار سننا ہے ہی نہیںلہٰذا
موصوف کے محبت بھرے لہجے نے انکار کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔بس اسی وجہ سے
میں نے 21اکتوبر بروزاتوار کو ملتان کی جانب اپنا رخت سفر باندھ لیا۔ گھر
سے بس اسٹینڈپہنچنے کی دیر ہی تھی کہ دھکے مقدر بن گئے ۔ بس میں سیٹیں تو
کیا انسانوں کو انسانوں پر لوڈ کیا جارہا تھا، صنف نازک اور مردحضرات کے
حقوق اور عزت وآبرو کو پامال کیا جارہا تھا۔ یہ آج نہیں ہوا بلکہ روزانہ
ہوتا ہے، ہر شہر سے دوسرے شہر جانے والی یاپھر گاؤں سے شہر جانے والی
گاڑیوں میں ،مجھے تو ایسے لگتا تھا کہ یہ اشرف المخلوقات نہیں بلکہ بھیڑ،
بکریوں کی کسی منڈی میں آگیا ہوںاور اسمنڈی سے دھکے کھانے سے میں بھی نہ
بچ پایا۔ بہر حال میں ملتان ٹی ہاؤس پہنچ گیااورمرزا صاحب کے گلے لگنے کی
دیر ہی تھی کہ جتنا غصہ تھا سارا ٹھنڈا ہوگیا۔
کسی بھی قوم کے ادیب اس قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنی تحریروں کے
ذریعے لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔اہلِ قلم خواہ وہ کالم نگار ہوں،فیچر
رائٹر ہوں، رپورٹر ہوں، ایڈیٹر ہوں یا کسی بھی طرح کے صحافی ہوں، ان کو
سراہنے میںمیڈیا اداروں کو اپنا کردار اداکرنا چاہیے لیکن افسوس! کہ موجودہ
دور میں ایسا نہیں ہے۔ اپنے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی تو دور الٹا یہ ادارے
اپنے ملازمین کا استحصال کر رہے ہیں۔ اس گہما گہمی کے دور میں جہاں ہر کوئی
ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہا ہے، وہیں آفرین ہے قلم قبیلے کی صلاحیتوں کو
اجاگر کرنے ، ادب کی دنیا میں نئے لکھنے والوں کو سیکھنے کا موقع فراہم
کرنے اور قلم کاروں کی عظیم کاوشوںکو سراہنے کے لیے ہر سو کوشاں رہنے والی
’’پاکستان رائٹرز کونسل ‘‘تن تنہا اپنی مدد آپ کے تحت عوام الناس کے لیے
ایسے ہی ہے جیسے اندھیرے میں کسی اجنبی کوتاریکی میں جگنو کی روشنی کا
سہارا ملنا۔
ملتان ٹی ہاؤس کے اندر گئے تو کیا دیکھا کہ گل نوخیز اختر کے چاہنے والوں
اور ان سے لگاؤ رکھنے والوں سے وسیع وعریض ہال میں کوئی کرسی نہ تھی جو
اپنے نشین کی راہ تکتی ہوبلکہ تمام نشستیں پر تھیں۔
اسٹیج پر براجمان صدر تقریب، ممتاز کالم نگار،باب صحافت کے روشن درخشاں
ستارے جناب عطاء الحق قاسمی صاحب ، مہمان خصوصی عالمی شہرت یافتہ وایوارڈ
یافتہ شاعر اورنامور ناول نگار، جناب زاہد حسن کے ساتھ تقریب کے دولہا گل
نوخیز اختر تھے اورتقریب میں شرکت کے لیے ملک کے طول و عرض سے صحافی، شاعر،
ادیب ،کہانی کاروں، افسانہ نگاروں اور تخلیقی اصناف سے جڑے مندوبین شریک
تھے ، نمایاں شخصیات میں سجاد جہانیہ، شاکر حسین شاکر، رضی الدین رضی،یاسر
پیرزادہ،ناصر محمود ملک،زاہد حسن ،الطاف احمد، پروفیسر رضیہ رحمان، شفاعت
علی مرزااور غلام محی الدین کے نام موجود تھے۔
تقریب کاآغاز حسب روایت خوبصورت اور سوز و گداز سے لبریزتلاوت کلام اللہ
اور نعت رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے کیا گیا۔اسٹیج کی نظامت کے
فرائض پاکستان رائٹرز کونسل کے چیئرمین مرزا محمد یٰسین بیگ کے پاس تھے
جوکہ انہوں نے بڑی ہی خوش اسلوبی سے ادا کئے، نہایت ہی دلکش انداز میں وہ
منتخب الفاظ اور جملوں کی کڑیوں کو ایک دوسرے سے ملاتے رہے اور مقررین کو
ڈائس پر مدعو کرتے رہے اورپروگرام اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہا۔
محترمہ پروفیسررضیہ رحمان نے دلچسپ انداز میں گل نوخیز اختر کی ادب میں
گراں قدر خدمات کو خراج تحسین بھی پیش کیااور ان کو بتایا کہ میرا P.H.D
کرنے کا ارادہ ہے میں آپ کی اجازت سے اپناP.H.Dکا مقالہ آپ کی مزاح نگاری
پر کروں گی۔
معروف ادیب وکالم نگار شاکر حسین شاکر اور رضی الدین رضی نے کہا کہ گل
نوخیز اختر نے ادب کو زندگی بخشی ہے۔ ناصر محمود ملک بھی کسی سے پیچھے نہ
رہے ۔انہوں نے اپنا مضمون پیش کرکے حاضرین محفل کو لطف اندوز کیا
اورسماںباندھ دیا ۔
ممتاز کالم نگار یاسر پیرزادہ نے بھی اپنی گدگدانے والی، ہنسا ہنسا کر لوٹ
پوٹ کردینے والی شگفتہ تحریر پیش کرنے کے بعد حیرت انگیز انکشاف کیا کہ گل
نوخیز اپنی اہلیہ سے جب بھی بات کرتے ہیں، نہایت عزت واحترام ملحوظ خاطر
رکھتے ہیں۔
ملتان آرٹس کونسل کے ڈائریکٹر سجاد جہانیاں نے کہا کہ ادب اور ادیب کی
حوصلہ افزائی سے معاشرتی وسماجی زندگی میں احساس ذمہ داری پروان چڑھتا ہے۔
گل نوخیز اختر کی تحریروں میں زندگی کی گہری رمق موجود ہے جو ادب کو
توانائی دیتی ہے۔
ناول نگار زاہد حسن نے گل نوخیز اختر کی فنی، ادبی اور تخلیقی خدمات کو
خراج تحسین پیش کیااور ان سے وابستہ کچھ حسین یادوں کو سماعتوں کی نذر کرکے
حاضرین کی بھرپور توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔
کرسی صدارت پر جلوہ افروز عطاء الحق قاسمی نے اپنے صدارتی کلمات میں کہا کہ
گل نوخیز اختر پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں، مزاح نگاری اور ڈرامہ رائٹنگ کی
دنیا میں انہوں نے بڑا نام کمایا اور والہانہ تقریب کے انعقاد پر منتظمین
کو سراہا ۔
بعدازاں گل نوخیز اختر نے اظہار تشکر کے کلمات کے علاوہ جی بھر کر ہنسنے
والے اقتباسات سُنا کر حاضرین کی دن بھر کی تھکاوٹ اور غموں کو خوب رفوچکر
کرنے کی کوشش کی تو ہال قہقوں اور تالیوں سے گونج تا رہا۔تقریب کے اختتام
تک ایک بھی کرسی خالی نہ ہوئی جو اس تقریب کی کامیابی کی دلیل ہے۔کامیابی
کا سارا سہرہ مرزا محمد یٰسین بیگ اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے، جن کی انتھک
محنتوں اور کاوشوں کے باعث مجمع بندھارہا۔
آخر میں دعا گو ہوں!اے میرے خالق و مالک، دوجہانوں کے بادشاہ ،میرے پرور
دگار ہم تیرے عاجز و ناتواں بندے تیرا کیسے شکر ادا کریں ؟بے شک ’’وتعز من
تشاء وتذل من تشائ‘‘ …’’اور اللہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلت دے‘‘۔میرے
پیارے اللہ جی ہم ہمیشہ آپ سے خیر کے سوالی ہیں۔ پاکستان رائٹرز کونسل
مرزامحمد یٰسین بیگ اوران کی پوری ٹیم کو ہمیشہ اسی طرح عزتوں سے نوازتے
رہنا۔آمین |