محنت کا ثمر

ام محمد سلمان

وہ ایک پسماندہ گاؤں کا رہائشی تھا۔ میٹرک تک تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول سے حاصل کی اور اب اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ مگر کیسے؟ گاؤں میں رہ کر تو یہ ممکن نہیں تھا۔ آخرکار والدین سے اجازت لے کر کراچی چلا آیا اور اپنے ننھیال میں رہائش پذیر ہو گیا۔ سندھ مسلم سائنس کالج کراچی میں داخلہ لیا اور دل لگا کر پڑھائی شروع کردی۔ کھانا وغیرہ تو گھر سے کھالیا کرتا مگر اپنی کتابیں اور دیگر اخراجات کے لیے رقم درکار ہوتی تھی۔ یوں تو ماموں بھی اسے کچھ نہ کچھ دینے کی کوشش کرتے مگر وہ ایک غیور نوجوان تھا کسی پر بوجھ بننا نہیں چاہتا تھا۔ اسی لیے کالج سے آنے کے بعد ایک قریبی پارک میں بچوں کی چیزیں ٹافیاں، بسکٹ، جوس وغیرہ بیچتا۔ اور اسے کچھ نا کچھ آمدنی ہو جاتی جو اس کے گزارے کے لیے کافی ہوتی۔ پھر رات میں ٹیوشن پڑھنے چلا جاتا۔ جس وقت گھر میں ہوتا، ممانی اور دیگر گھروالوں کے کام آتا، سودا سلف لادیا کرتا۔ اکثر کسی نہ کسی کی کڑوی کسیلی بھی سننا پڑ جاتی مگر وہ نوجوان باادب بانصیب کے مقولے پر عمل کرتے ہوئے ہر ایک سے ادب اور محبت سے پیش آتا۔

تعلیم جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ مختلف کام کرتا رہا۔ کبھی کسی بس میں کنڈیکٹری کی، کبھی چھوٹی موٹی نوکری کر لی، ٹیوشن پڑھا دی، کسی ٹھیلے پر جاکر جوس وغیرہ بیچ لیا۔ اس طرح کے چھوٹے موٹے کام کرتے چار سال گزر گئے اور ’’بی کام‘‘ کر لیا۔ ہر جمعہ( اس وقت سرکاری چھٹی جمعہ کو ہوتی تھی) کو اخبارات جمع کرتا اور ان میں نوکری کے اشتہارات دیکھتا، تراشے کاٹتا، مطلوبہ جگہوں پر اپلائی کرتا۔

انہی دنوں ایک ’’مازا‘‘ نامی گھی فیکٹری میں بطورِ ہیلپر نوکری کی۔ یہ بہت ہی مشقت طلب کام تھا جس نے اسے ناکوں چنے چبوادیے۔ نوجوان پانچ وقت کا نمازی اور اپنے وقت کی قدر کرنے والا تھا۔ ایک دن گھی مل کے مالک کی انتہائی بدسلوکی پر دل برداشتہ ہوکر ایک پارک میں بیٹھا تھا۔ زندگی کے اچھے برے سارے واقعات کسی فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے چل رہے تھے۔ والدین اور بہن بھائیوں کی یاد نے شدت سے دامنِ دل کو پکڑا۔ ایک بار تو جی چاہا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلا جائے اور اپنی ماں کے قدموں میں سر رکھ دے جاکر، مگر وہ ان سب کے اپنے سے وابستہ خوابوں کو توڑنا نہیں چاہتا تھا لہٰذا مقصد پر جمے رہنے کا عزم کر کے مسجد کی طرف چل دیا۔ اپنے رب کے سامنے خوب آہ و زاری کی، ایک اچھی اور باوقار نوکری کے لیے تہہ دل سے دعا کی۔ وہ اس دن بے حد دکھی تھا۔ پردیس میں تو کانٹا بھی چبھے تو تیر کی طرح لگتا ہے۔ ماں باپ کی ٹھنڈی چھاؤں چھوڑی، بہن بھائیوں کا پیار قربان کیا،دوستوں سے جدائی برداشت کی، پردیس کی صعوبتیں جھیلیں لیکن کبھی اپنی انتھک محنت میں کمی نہیں آنے دی۔ نوجوان کی نگاہوں میں ایک روشن مستقبل کے خواب تھے اور ان خوابوں کی تعبیر پانے کے لیے چٹان جیسا حوصلہ اس کا مددگار تھا۔ وہ اپنے فارغ اوقات کو ضائع نہیں کرتا تھا بلکہ مختلف شارٹ کورسز کرتا رہتا، اسی دوران شارٹ ہینڈ بھی سیکھ لی۔

پھر ایک ادارے میں اسٹینو ٹائپسٹ کے لیے اپلائی کیا، تین چار ماہ بعد وہاں سے کال لیٹر آیا ٹیسٹ اور انٹرویو دیا۔ پھر اﷲ تعالیٰ کے فضل، نوجوان کی محنت اور اس کے گھروالوں کی پرخلوص دعاؤں سے اسے سول ایوی ایشن اتھارٹی میں اسٹینو ٹائپسٹ کی نوکری مل گئی اور وہ نوجوان اسی ادارے میں بہت محنت اور جانفشانی سے کام کرتا رہا، اور آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ نوکری کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ ایم اے اسلامیات بھی کیا۔

2001ء میں سول ایوی ایشن اتھارٹی کے جنرل مینیجر عیسیٰ پرویز نے نوجوان کی خدمات کو سراہتے ہوئے لکھا: Mr Naseeb ud din is an Asset to CAA.1986 میں سولہ، سترہ سال کی عمر میں اپنے طویل اور صبر آزما سفر کا آغاز کرنے والا یہ نوجوان آج ’’سول ایوی ایشن اتھارٹی‘‘میں ’’گریڈ‘‘ 17کا افسر ہے۔ گھر بار ہے، بیوی بچے ہیں ایک خوشحال فیملی ہے۔
محنت سے مل گیا، جو سفینے کے بیچ تھا
دریائے عطر، میرے پسینے کے بیچ تھا

لیکن یہ سب کچھ نوجوان کو یونہی نہیں مل گیا۔ اس کے پیچھے کڑی محنت ہے ایک طویل سفر ہے۔ رات دن کی مشقتیں ہیں، اپنوں کی جدائیاں، غیروں کی بے اعتنائیاں ہیں۔ پردیس کی کٹھنائیاں اور دوست نما دشمنوں کی ہرزہ سرائیاں ہیں۔ قدرت کا اصول اٹل ہے جو محنت کرے گا وہ ضرور اپنی منزل پالے گا۔ اور انسان کامیابی پاتا ہے ’’جہدِ مسلسل سے‘‘مستقل مزاجی سے، جو کبھی ہمت نہ ہارے، کبھی تھک کر بیٹھے بھی تو تازہ دم ہونے کے لیے۔ وہ جو ہمیشہ ناموافق حالات کا سامنا جوانمردی سے کرے، مثبت انداز فکر اختیار کرے، ناکامیوں میں سے کامیابی کے راستے تلاش کرے، صبر برداشت اور معاملہ فہمی سے کام لے۔ مشکلات آنے پر بجائے لوگوں اور تقدیر سے شکوہ کناں ہونے کے، اپنے رب کی طرف متوجہ ہو، کمی کوتاہیوں پر نظر کرے، اپنی غلطیوں سے سبق سیکھے، آئندہ کے لیے بہتر لائحہ عمل تیار کرے۔

مشہور مقولہ ہے ’’سہج پکے سو میٹھا ہو ‘‘ محنت اور مستقل مزاجی سے اپنے مقصد کی طرف بڑھنے والے ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ ایک دم سے چھلانگ لگا کر راتوں رات کروڑ پتی بننے کے خواب دیکھنا دیوانے کی بڑ کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ کامیابی کا ایک ہی فارمولا ہے۔ محنت، محنت شاقہ اور انتھک محنت ۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1028508 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.