نوجوانان اسلام اور مغرب کی سازشیں

ا س حقیقت سے کوئی انکا ر نہیں کیا جا سکتا کہ نوجوان کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی میں ریڈھ کی ہڈی کی مانند ہوتی ہے۔اگر ہم یہ کہیں تو غلط نہیں ہو گاکہ کسی بھی خوبصورت معاشرے کی تشکیل نومیں نوجوانوں کا کردار سب سے اہم اور قابل ذکر ہو ں گے۔ پڑھے لکھے، سنجیدہ سمجھ بوجھ او قابل فہم وادراک رکھنے والے نوجوان معاشرے کے لئے ایک مہکتے ہو ئے پھول سے بھرا اس چمن کی طرح ہو سکتا ہے جو نہ صر ف اس چمن کو اپنی خوشبو کی مہک سے معطر کرے گا بلکہ ہر اس شے کو جو اس کے آس پا س موجود ہو اس میں بھی سرا یت کر جا ئے گا۔ اگر یہی نوجوان معاشرتی اقدار کے خلاف عمل کرے تو یہ اس معاشرے کی پستی کا سبب بن جائے گاجو اس معاشرے کی رہن سہن، بدوباش اور تہذیب و روایات کو منہدم کر کے رکھ دیں گے۔ آج اگر ہم دنیا کے اوپر نظر دوڑائی جائے تو ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ اس دنیا کی ڈرائیونگ فورس یا ظاہری طاقت ان لوگوں اور اقوام کے پاس ہے جو سرے دست مسلمانوں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے لیس یہ غیر مسلم طاقتیں اقوام اسلام اور خاص طور پر نوجوانان اسلام کے مابین بگاڈ پیدا کرنے کے تما م حربے استعما ل کئے جا رہے ہیں۔اس بات سے ہم انکار نہیں کیا جا سکتا آج بیسویں صدی میں مغرب ترقی کی آخری حد کو چھو رہی ہے اور وہ زندگی کے تمام شعبوں میں خواہ وہ علمی ہو، سیاسی ہو، معاشی ہو یا جدید ٹیکنالوجی میں ریسرچ و تحقق ہو صفہ اول پر ہے۔ اور دوسرے طرف اقوام اسلام جو قرون اعلیٰ میں اپنی تما م تر علمی جدت سے ا س دنیا کی تسخیر میں کو ئی کثر باقی نہیں چھوڑی تھی آج پستی اور زبوں حالی کا شکار نظر آ رہا ہے۔ کیا ہم تاریخ کی اوراْ ق پلٹ کر نہیں دیکھتے کہ وہ ان سینا، ابن الہشہم، الخورزمی، جابر بن حیان وغیرہ نے اس جدید سائینس کی بنیاد رکھی تھی۔ اسی لئے اقبال ؒ نے فرمایا تھا
مگر وہ علم کے مو تی کتابیں اپنے ابا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سپارا

لیکن الحمداﷲ ایک شعبہ جس سے اقوام مغرب پے خوف وگھبراہٹ طاری ہے اور یہ بڑھتا ہی جا رہا ہے وہ ہماری نوجوان طاقت ہے جو اﷲ اور اس کی رسولﷺ کی اطاعت و فرمان برداری پر مامور ہے اور قرآن و حدیث اپنی سینوں میں سجا کر رکھے ہوئے ہیں۔ اسی اسلامی شعار کی وجہ سے مسلمان خاندانی نظام سے جوڑا ہوا یہ معاشر ہ بھر بھی اقوام یورپ کے لئے پریشانی کا سبب بن چکا ہے اور وہ اس نظام کو ختم کرنے کے لئے اپنے تمام تر شیطانی ہتھکنڈے استعمال کر نے کی بھر پور کوشش میں لگے ہو ئے ہیں۔ جددید ریسرچ سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ مسلمان آبادی میں نوجوانوں کا تناسب(60-65) فیصد اور مغرب کے ہاں یہ (15-18) فیصد ہے۔ اس واضح فرق کی وجہ سے اہل مغرب اس قدر پریشان ہے کہ ان کو نظر آرہا ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو اہل اسلام ایک دفعہ پھر سے ا س دنیا پر راج کر لیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کی یہ کثیر تعداد اپنی خاندانی نظام سے اس قدر مضبوطی سے جوڑے ہوئے ہیں اور یہ اپنی خاندان کی آس بنی ہوئی ہے جبکہ دوسری طرف اہل مغرب میں نوجوان اپنی خاندانی نظام سے بکھرے پڑے ہیں۔ اور وہاں خاندانی نظام کا کوئی وجود ہی نہیں ۔ جبکہ بہت ساری خرابیوں کے باوجود ہمارے نوجوا ن اپنی خاندان کے لئے ایک امید کی کرن ہے اور ساتھ ساتھ ہم اﷲ اور ا س کے رسولﷺ سے محب اور اطاعت پر مامور ہے اسی طاقت کو دیکھ کر شیطانی طاقت پر مامور اہل یورپ اپنی پاس موجو د ٹیکنالوجی سے نوجوانان اسلام جن کی ایمان کمزور ہو ان کو ٹیکنالو جی کے ا غلط استعمال سے اندر سے کھوکھلا کرنے کی مذموم کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن ان مختلف الات وحکمت عملی سے نمٹنے کے لئے ہم سب کو جن میں والدین، اساتذہ،علماء اور نوجوان خواتین وحضرات کو ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال کے حوالے سے اگاہی و شعور پیدا کرنا ہو گا جن کا صحیح استعمال سے ہم نہ صرف اقوام عالم میں اسلام کی اشاعت کو مزید وسعت دے سکتے ہیں بلکہ ہم اسلام کی تشخض کو اقوام عالم تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ عریانی اور ٖفحاشی کسی بھی معاشرے کی ساخت کو برباد کر کے رکھ دیتی ہے اگر ہم تمام آسمانی کتب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو تا ہے کہ شیطان کی یہی چال تھی کہ اس نے حضرت آدم ؑ و حضرت حواؑ کواس درخت کی پھل کھانے پر اکسایا جس کی وجہ سے ان کو جنت سے بے دخل کیا گیا اور آج یہی فعل شیطانی ذریت آج نوجوانان اسلام پر اپنا رہے ہیں ۔ ہر طرف عریانی ا فحاشی اور حیا ختم کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے جو ایٹم بم ا ور جدید میزائل سسٹم سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔

آج اگر ہم ٹیکنالوجی کے استعمال پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ دنیا کی کل سات ارب آبادی میں سے دو ارب کی آبادی سوشل میڈیا (فیس بک) کے ساتھ جوڑا ہوا ہے، ایک ارب کی آبادی دوسرے سوشل میڈیا( واٹس ایپ، امو، اسکائپ وغیرہ) کے ساتھ جبکہ ایک ارب سے زائد یو ٹیوب کے ساتھ وابستہ ہے۔ یعنی چار ارب کی آبادی براہ راست انٹرنٹ ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے جو بلو اسط یا بلا واسطہ طاغوتی ہاتھوں میں ہیں۔ اگر ہم آج ان تمام ذریعہ کا صحیح استعمال کرنے میں قاصر رہا تو یہ ہمارے معاشرے میں موجو د حیاء کی پردوں کو پاش پاش کریں گے۔ جو کہ ہمارے لئے لمحہ ء فکریہ ہو گی۔ ہمیں آ ج اپنی نبیﷺ کا فرمان یاد رکھتے ہو ئے جو آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے ـاے میرے نوجوانو کہہ کر پکارتے تھے جن کے ہاتھ میں حیاء کا پرد ہ تھا اور یہی وجہ تھیں کہ آپﷺ نے بہت سے نوجوانوں کو حیاء کا جھنڈا تھما کر اسلام کی اشاعت کے لئے بھیجا ۔ اورآج ہم تمام مسلمان نوجوانوں کی زمہ داری ہے کہ ہم ان طاغوتی سازشوں کو توڑتے ہو ئے ان ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال کر کے اسلام کی پر چار کے لئے اپنے آپ کو واقف کرناہوگا۔ اپنی معاشرے میں موجود نوجوانوں پر مشتمل کمیٹیاں تشکیل دیں جو ان ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال کے حوالے سے اگاہی پیدا کر یں۔ ہم میں سے الحمداﷲ بہت سارے اس جہت میں لگے ہو ئے ہیں لیکن یہ بہت ہی کم تعداد میں ہیں ۔ ہم سب پر فرض ہے کہ ہم اپنی اور دوسروں کی اصلاح کریں اور ان میڈیا کے اوپر بھی مختلف گروپ بناان طاغوتی طاقتوں کا بھر پور مقابلہ کریں انشااﷲ وہ دن دور نہیں پھر سے نوجوانان اسلام کی طاقت سے ہم اس دنیا پر حکمرانی کرتے ہوئے احیاء اسلام کو فروخت دیں گے۔ آخر میں علامہ اقبال ؑکے اس دعا کے ساتھ کہ !
جوانوں کو مری آہ سحر دے پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
خدایا! آرزو میری یہی ہے مرا نوربصیرت عام کر دے
اﷲ سے دعا ہے کہ ہم سب کو ایمان پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین

Ashraf Ahmed
About the Author: Ashraf Ahmed Read More Articles by Ashraf Ahmed: 6 Articles with 9487 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.