تحریر: انصر محمود بابر
ایک وقت تھا کہ جب بچوں کے نام اپنے اسلاف کے ناموں پہ رکھے جاتے تھے۔ہمارے
فاتحین اورمجاہدین کے کارنامے بچوں کولوری میں سنائے جاتے تھے۔اسلامی
روایات اوربیش قیمت اقدار ان کی گھٹی میں شامل ہواکرتی تھیں۔ادب وسپاہ گری
کے مقابلے منعقدہواکرتے تھے۔بزرگوں کا ادب اور تعظیم وتوقیر ان کے اسباق کا
حصہ ہواکرتی تھی۔اوریہ بچے جب جوان ہوتے توان کی جوانیوں سے اسلامی وقار
اورتمکنت جھلکتی تھی۔ان کی جوانیاں پسندیدہ شعائرکی آئینہ دارہواکرتی
تھیں۔ان کی آنکھیں حیاء کی پیکر ہواکرتی تھیں۔ ان کے ماتھے کی سلوٹ کسی نئے
انقلاب کاپیش خیمہ ہوتی تھی۔سلام ہے ان ماؤں پر کہ جنھوں نے کبھی بناوضوکے
انھیں دودھ نہیں پلایاتھا۔سلام ہے ان اساتذہ پرکہ جن کی کبھی تہجدقضا نہیں
ہوتی تھی۔سلام ہے ان جوانوں پرجواخلاق واخلاص اورحسن ِ کردارکے امین
ہواکرتے تھے۔جن کی صبح کا آغازتلاوت ِقرآن سے ہواکرتاتھا۔ جن کی نمازیں
قائم ہواکرتی تھیں۔
جن کی جوانیاں قابل ِ رشک اورکردارقابل ِ تقلیدہواکرتے تھے۔جواپنے اسلاف کی
چلتی پھرتی تصویرہوا کرتے تھے۔اورایک یہ وقت ہے کہ نومولودوں کے کانوں میں
پڑنے والی پہلی آواز موسیقی کی ہوتی ہے۔قرآن صرف طاقچوں میں سجانے کے لیے
رہ گیاہیاورویسے بھی ہم آج کے مسلمان قرآن کو محض ثواب سمجھ کرپڑھتے
ہیں۔ماناکہ ثواب بھی ایک نہایت اچھی چیزہے۔مگرقرآن پاک کامقصد ِ نزول ثواب
ِ محض نہیں بلکہ رہنمائی اورتعلیم وتعلم اورطریقہ ہائے عالمگیری اورضابطہ
اخلاق وحیات بھی ہے اور آج ہم ان باتوں سے گریزاں وپرہیزاں ہیں۔آج ہم اپنی
اولادوں کی تربیت سے غفلت برتنے کے عظیم جرم کے مرتکب ہیں۔آج ہمارے بچوں کے
کھلونوں میں آلات ِ موسیقی ہیں یا بارودی ہتھیار ۔
ذراسوچیے!جن کی پرورش ہی موسیقی اورآلات موسیقی کے ساتھ ہوگی۔جن کے ہاتھوں
میں ہم خودنادانستگی میں جان لیواہتھیارتھمادیتے ہیں۔کل کلاں ان کی آنکھیں
حیاء کی آئینہ دارہونگی یا ہوس کی ؟ ان کی جوانیاں قابل ِ رشک ہوں گی یا
قابل ِ رحم؟وہ قابل ِ بھروسہ ہوں گے یاقابل ِ تعزیر؟ خداراسوچیے!وہ ہاتھ اس
قوم کی معماری کریں گے یا اس قوم کوسپردِ طوفان کریں گے؟یہی وجہ ہے کہ آج
ہمارے ہی شیرخوارمیڈیاپرہمیں گانے اورموسیقی سننے کی ترغیب دے رہے ہوتے ہیں۔
ذراسوچیے! آج ہم پروہ کون سی نحوست طاری ہے کہ ہماری اولادیں بدتمیزی
کاشکارہیں؟ وہ کون سا خفیہ ہاتھ ہے، جونصاب ِ تعلیم تک میں سے اسلامی
تعلیمات کوختم کرنے کے کاری وار میں کامیاب ہے؟وہ کون سی پوشیدہ طاقت ہے جو
ہمیں ایک بارپھرجہالت اورپسماندگی کے عمیق کنویں میں گرانے کے درپے ہے؟
ہائے افسوس! کہ اس کے باوجودہم عقل کے ناخن لینے کو تیارنہیں۔ذی شعور
قارئین!ذراسوچیے کہ آج ہم کھاتے کیاہیں کہ ہمارے قلوب واذہان مفلوج ہوئے
جارہے ہیں؟ہم کرتے کیا ہیں کہ آج ہمارے آئیڈیل صلاح الدین ایوبی اور محمدبن
قاسم کی بجائے فلمی ہیروبن گئے ہیں؟ہم کس شیطانی طاقت کے پیروکاربننے کو
ہیں؟ہم اور ہماری نسلیں کون سی طاغوتی قوتوں کے حصارمیں ہیں؟کیاہم نے کبھی
سوچاکہ ہمارے بچے سکول میں کیاپڑھتے اورسیکھتے ہیں؟ انتہائی افسوس اورمعذرت
کے ساتھ مجھے کہنے دیجیے کہ ان معدودے چند تعلیمی اداروں کے سواجن پر اﷲ کا
خصوصی کرم ہے تمام کے تمام اداروں میں تقلید ِ مغرب کی روش
کواختیارکیاجارہاہے،کھانے میں ،پینے میں۔پہننے میں ،اوڑھنے میں۔سونے
میں،جاگنے میں۔غرض آج ہم اپناضابطہ حیات اسلام کو نہیں معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ
اغیارکے ناپسندیدہ ترین اورگھٹیاترین اورذلیل ترین افکارکوبناناچاہتے ہیں۔
خدارا وقت کی اس اہم ترین پکارپر کان دھریں کہ جوقوم وقت کی قدرنہیں کرتی
تباہ ہوجاتی ہے۔آج روشن خیالی کاجوطوفان ِ بدتمیزی ہم پہ مسلط کردیاگیاہے
اسی کی خباثت ونحوست ہے کہ نوجوان لڑکیاں آئے دن گھروں سے بھاگ رہی
ہیں۔خودکشیاں رواج پارہیں ہیں۔آج ہم کون سی طاغوتی طاقت کی گندی ذہنیت کا
شکارہیں کہ ہم مساجد میں بھی محفوظ نہیں۔ہم کس گھٹیا تربیت کے حصارمیں ہیں
کہ کل کو جن نوجوانوں نے اس ملک وقوم کی باگ دوڑسنبھالنی تھی آج وہی نوجوان
خودکش دھماکے کررہے ہیں۔ اسی خودساختہ روشن خیالی کی آڑمیں تہذیب ِ مغرب کا
جوگھٹیازہرہماری نسلوں کی رگوں میں انڈیلاجارہاہے اگربروقت اس کا تریاق نہ
کیاگیاتوہماری آنے والی نسلیں اورمستقبل کامورخ ہمیں کبھی معاف نہیں کریں
گے اورویسے بھی میرانہیں خیال کہ اس نام نہادکلچراورتقلید ِ مغرب کا
اندھاپن ہمیں کسی مادی ترقی کی راہ پہ گامزن کرسکے۔
اس ساری صورت حال ِ کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔اگر ہم استادہیں توہمیں
اپنااحتساب خودکرنا ہوگاکہ کہیں ہمارے اپنے ہی قول و فعل میں تضادتونہیں؟
نیزیہ کہ ہم اس منصب ِ پیغمبری کاکتناحق اداکررہے ہیں اوراگرہم طلباء
اورنوجوان ہیں توصرف اتنایادرکھیں کہ طلباء ملت کا مسقتبل اور مسلم نوجوان
دین اسلام اورپیغمبر ِ اسلام ﷺکا فخراورسرمایہ ہیں۔اگرہم والدین ہیں تو صرف
یہ سوچ لیں کہ اولادکی تربیت کے حوالے سے کل قیامت کے دن ہم اپنے آقا
ومولاﷺ کو کیاجواب دیں گے۔
اگرہم بزنس مین اورتاجرہیں تویہی ذہن نشین کرلیں کہ ہمیں اس ماہر ِ معاشیات
ِ عالمﷺ کی پیروی کرنی ہے کہ جو غیروں میں بھی صادق اور امین جانے جاتے
ہیں۔خدارا! اب بھی وقت ہے ابھی پانی سروں سے نہیں گزرا۔اگرہمیں اپنی نسلیں
عزیز ہیں،اگرہمیں اپنے مستقبل کی فکرہے،اگر ہمیں مملکت ِ پاکستان کی بقا سے
ذرابھی دلچسپی ہے،اگرہم اپنی دنیاوعاقبت کے حوالے سے ذرابھی فکر اندیش ہیں
تو خدارااپنے بچوں کے لیے وقت نکالیں،ان کی تربیت پر دھیان دیں،اپنے
معاملات میں وہ رویہ اپنائیں جوآپ چاہتے ہیں کہ دوسرے آپ کے لیے روارکھیں
اورپھرسوچیے! کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کوکیاورثہ دے رہے ہیں۔کتاب
یابندوق،ثقافت یافحاشی؟
|