یہ ظلم کی کیسی ہوا چلی۔۔۔!

تاریخ کے اوراق کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ وطن عزیز پاکستان میں مظلوم کا کوئی یار و مددگار نہیں ہے البتہ بااثر مجرمان کے حامی و شاہدین ہر دور میں کثیر تعداد میں نظر آئے ہیں۔ ناحق قتل و غارت کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ غریبوں پر ظلم و ستم کرنا بااثر افراد کا شیوا ہے اور وہ ظلم و ستم کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ تاریخ ایسی ہزاروں تلخ مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اعظم سواتی کی زرعی زمین میں غریبوں کی گائے گھسنے کا معاملہ ہو یا شاہزیب خان قتل کیس ہو، ظلم کا پلہ ہمیشہ بھاری ہی نظر آیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ قصور واقعہ میں قانون کی فتح ہوئی جس میں معصوم زینب سمیت درجن بھر بچیوں کے ساتھ جنسی درندگی کے بعد قتل کے واقعات میں ملوث مجرم عمران کو تختہ دار پر لٹکایا گیا مگر ابھی مکمل طور پر جبر و ظلم کا خاتمہ نہیں ہوا۔ ہزاروں معصوم بچوں سے ان کی جنتیں اور سر سے دست شفقت چھیننے والے آزاد ہیں۔ جن کا ماتھا چومنے والا چھین لیا جائے ان معصوموں کی نظریں بھی چیف جسٹس کے سوموٹو کی منتظر دکھائی دیتی ہیں۔

تاریخ کا مزید مطالعہ کیا جائے تو ایسے بے شمار واقعات سامنے آتے ہیں جن میں غریبوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹتے دکھائی دیتے ہیں اور کوئی بھی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا۔ کوٹ رادہاکشن کے نواحی گاوں توحیدآباد (بت) میں گزشتہ روز پیش آنے والا واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جہاں چار معصوم بچوں کے باپ کو فائرنگ کرکے ابدی نیند سلا دیا گیا۔ قتل ہونے والے نوید نے اپنے کل ترکے میں چار معصوم بچے، ظلم و ستم کی ماری بیوہ اور ایک بوڑھا باپ چھوڑا ہے جن کا واحد کفیل آج داعی اجل کو لبیک کہہ گیا ہے۔ ایک ہی محلے میں ہنسی خوشی رہنے والے دو گھرانوں کو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی۔ قتل ہونے والا نوید اور قاتل وسیم عرف بلو کے گھروں کے درمیان پردہ کرنے والی صرف ایک دیوار ہی تو تھی۔ عرصہ دراز سے دونوں گھرانے ہنسی خوشی گزر بسر کررہے تھے کہ اچانک معاملات خراب ہوگئے۔ تقریبا دو سال قبل کسی بات پر دونوں میں جھگڑا ہوگیا اور بات بڑھتی ہوئی فائرنگ تک پہنچ گئی جس کے نتیجے میں وسیم زخمی ہوگیا تھا اور نوید کو جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ نوید تقریبا دو ماہ قبل جیل سے ضمانت پر رہا ہوکر آیا تھا کہ چند دن بعد ایکسیڈنٹ کا نام دے کر اس کے سکول جاتے ہوئے معصوم بیٹے کی ٹانگ توڑ دی گئی۔ کہنے والے اس ایکسیڈنٹ کو وسیم کی رنجش کا نتیجہ قرار دیتے ہیں جبکہ بعض لوگ اسے حادثہ ہی گردانتے ہیں۔

ابھی تک زخمی ہونے والا بچہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہوا تھا کہ گزشتہ روز اس بچے سمیت چار بہن بھائیوں کا باپ چھین لیا گیا۔ مجرم وسیم عرف بلو نے فائرنگ کرکے نوید کو قتل کردیا جو موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ آج چار معصوم بچوں سمیت پورے گھر کا واحد کفیل اور بوڑھے باپ کا آخری سہارا اس دنیا میں نہیں رہا۔ یہ کیس کسی نتیجے پر پہنچے گا یا فائلوں کی نذر ہوجائے گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن اس وقت ظلم و ستم کا شکار ہونے والے خاندان پر جو بیت رہی ہوگی اسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ بڑھاپے میں واحد خود کفیل اور آخری سہارا لٹادینے والا بوڑھا باپ آج جس حال میں ہوگا اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ دو ننھی کلیوں اور دو معصوم پھولوں کی حالت کیا ہوگی، میرے الفاظ ان معصوموں کی آہ و پکار بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ جس کا ہنستا بستا گھر اجڑ جائے، جس کا سہاگ چھین لیا جائے، جس کا آخری سہارا ظلم و ستم کی نذر ہوجائے اس سہاگن کے ایک پل میں بیوہ ہوجانے کی کیفیت کیا ہوگی میرے الفاظ اس کیفیت کو بیان کرنے سے بھی قاصر ہیں، ہاں البتہ آپ اہل عقل و دانش ہیں آپ مصائب میں الجھے ہوئے بے سہارا و لاچار افراد کی کیفیت ضرور سمجھ سکتے ہوں گے۔ آپ یہ بھی سمجھ سکتے ہوں گے کہ ننھی کلیوں کو باپ کے دست شفقت کی کس قدر ضرورت ہوتی ہے اور یقینا آپ یہ بھی سمجھ سکتے ہوں گے کہ جس سہاگن کا سہاگ اجڑ جائے اور وہ پل بھر میں بیوہ ہوکر اپنے تمام سہارے کھو بیٹھے، اس کی حالت کیا ہوگی۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ یہ بھی ضرور سمجھتے سکتے ہوں گے کہ ایک طرف معصوم بچہ زخمی پڑا ہو اور دوسری طرف جوان شوہر کی لاش سامنے ہو تو اس بد نصیب خاتون کی حالت کیا ہوگی۔ رنج و الم میں گھرے ہوئے اس گھرانے کا بوڑھا سربراہ زندہ لاش ہی نظر آئے گا جس کا واحد سہارا اس وقت چھین لیا گیا جب اسے اس سہارے کی سخت ضرورت تھی۔

معصوموں کی آہ و پکار عرش کو تو ہلا دیتی ہے مگر ارباب اختیار کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ آج قانون نافذ کرنے والے ادارے ناکام ہوچکے ہیں۔ قتل ہونے والے نوید نے کئی بار قانون کے دروازوں پر بھی دستک دی مگر سب کچھ بے سود۔ کب تک ظلم و ستم جاری رہے گا، کب تک ناحق قتل ہوتے رہیں گے۔ چیف جسٹس کا ایک سوموٹو ادھر بھی ہوجانا چاہیے اور اس معاملے پر انصاف ہونا چاہیے۔ اگر آج انصاف نہ ہوا تو وہ وقت دور نہیں جب اس واقعے کے ذمہ داران سمیت تماشہ دیکھنے والے بھی خدائے عظیم و برتر کی پکڑ میں ہوں گیاور یاد رکھیں اس خدائے عظیم و برتر کے دربار میں دیر ضرور ہے مگر اندھیر نہیں۔
 

Malik Muhammad Shahbaz
About the Author: Malik Muhammad Shahbaz Read More Articles by Malik Muhammad Shahbaz: 54 Articles with 44597 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.