اپنے بچوں کی حفاظت کیجئے

 آج جمعہ کی نماز سے کچھ پہلے میرے پاس ایک پریشان حال شخص آیا اور کہنے لگا مولانا صاحب میری بھانجی اغواء ہوگئی ہے اس کیلئے جمعہ کی نماز میں خصوصی دعا کروائیے گا،یہ سن کر بہت دکھ ہوا اور اللہ کریم سے خصوصی دعا بھی کی کہ اللہ تعالٰی بچی کی حفاظت فرمائے اور بخیروعافیت اسے اپنے ماں باپ سے ملائے۔اس درد کو یقینا وہ لوگ زیادہ محسوس کرسکتے ہیں جن کا پیارا کبھی ان سے بچھڑ گیا ہو۔ میرے استفسار پر اس نے بتایا کہ بچی کی عمر 9 مہینے ہے اس کی والدہ چھٹی منزل پر اپنے گھر کے باہر دروازے کے پاس ننھی فائزہ کو گود میں لئے کھڑی تھی کہ ایک عورت برقع پہنے آئی اور بچی چھین کر فرار ہوگئی،دو دن ہوگئے لیکن ابھی تک بچی کا کچھ پتا نہیں چلا۔اللہ پاک ان کی مدد فرمائے اور ننھی فائزہ کو اپنے ماں باپ سے ملائے ۔آمین ۔ایسے لوگ یقینا انسانیت کے دشمن ہیں جو بچوں کو ان کے ماں باپ سے جدا کرکے ساری زندگی کیلئے والدین کو خون کے آنسو رلاتے ہیں اللہ پاک انہیں ہدایت نصیب فرمائے۔آج کل کراچی میں بچوں کے اغواء کے واقعات کثرت سے سننے میں آرہے ہیں، میری تمام والدین سے گزارش ہے کہ خدارا اپنے بچوں کی حفاظت کیلئے رب عزوجل کی بارگاہ میں دعا کیساتھ ساتھ کچھ ایسے انتظامات بھی کیجئے جس سے ہمارے بچے غلط ہاتھوں میں جانے سے محفوظ رہیں ۔چند احتیاطی تدابیر عرض کرتا ہوں امید ہے اس پر عمل کرنے سے کافی فائدہ حاصل ہوگا۔

احتیاطی تدابیر
1۔بچوں کو اپنے والدین کا ٹیلی فون یا موبائل نمبر، گھر کا ایڈریس، محلہ یا علاقہ کا نام ، ذات اور برادری یاد ہونا چاہیے تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں اگر کوئی اس کی مدد کرنا چاہے تو فوری طور پرکرسکے۔
. 2۔بچے کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دی جائے کہ کوئی بھی ایسا شخص جسے وہ نہیں جانتا اس کے ہاتھ سے کوئی چیز (ٹافی یا چاکلیٹ وغیرہ) لے کر نہ کھائے۔
3۔بچوں کو یہ بات بھی سمجھا دینی چاہیے کہ کوئی اگر ان سے گاڑی میں بیٹھنے کا بولے یا کہیں چل کر کوئی چیز دکھانے کی بات کرے تو ہرگز اس کے ساتھ نہ جائیں۔
4۔بچوں کو گھر پر اکیلا چھوڑ کر والدین بازار وغیرہ چلے جاتے ہیں ۔ کوشش ہونی چاہیے کہ یہ عمل کم سے کم ہو۔ اگر مجبوری میں کبھی ایسا کرنا ہی پڑ جائے تو بچوں کو تاکید کرنی چاہیے کہ وہ بیل بجنے پر ہرگز دروازہ نہ کھولیں اور نہ گھر کے باہر قدم رکھیں اور نہ ہی کسی کو یہ بتائیں کہ وہ گھر پر اکیلے ہیں۔
5۔بچوں کے کھیل کود کے مقامات اور وقت متعین ہونے چاہئیں اور والدین کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے بچے اس وقت کہاں اور کسی کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ مقررہ وقت گزرنے کے بعد بھی اگر بچہ واپس نہ آئے تو فکر کرنی چاہیے۔
6۔بچوں کے دوستوں کے نام اور کچھ مزید تفصیل (ان کا رابطہ کا نمبر،کہاں رہائش ہے، والد صاحب کیا کیام کرتے ہیں وغیرہ) سے والدین کو آگاہ ہونا چاہیے۔
7۔ بچوں کو یہ عادت ڈالنی چاہیے کہ وہ کہیں بھی بلا اجازت نہیں جائیں گے بلکہ لازماََ اجازت اور اطلاع کے ساتھ جائیں گے۔
8۔بارہ تیرہ سال سے چھوٹے بچے کو اکیلا اسکول، مدرسہ ، ٹیوشن یا بازار سے سامان لینے کے لیے نہ بھیجا جائے بلکہ ضرور ان کے ساتھ کوئی بڑا ہونا چاہیے۔
9۔ بازار سے سامان لینے کا کام کوشش کرکے ایک ہی بار بڑے خود کرلیا کریں، بچوں کو ایک ایک چیز کے لیے باہر بھیجنا درست نہیں۔
10۔بچوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھا ئی جائے کہ اگر دوکاندار اسے دوکان کے اندرونی کمرے یا اسٹور میں چلنے کو کہے یا کہے تمہیں جو چیز چاہیے وہ وہاں رکھی ہے چل کر دیکھ لو، تو ہرگز اس کے ساتھ نہ جائے
11۔مغرب کے بعد بچے ہرگز گھر کے باہر نہ رہیں۔
12۔بچوں کی انٹرنیٹ سرگرمیوں پر نظر رکھیں اور انہیں اچھی طرح سمجھادیں کہ وہ اجنبیوں سے فیس بک وغیرہ پر دوستی نہ کریں اور نہ ہی اپنے متعلق معلومات شیئر کریں۔
13۔والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچوں کی تصاویر اور ان کے نام شیئر کرتے وقت احتیاط برتیں کیوں کہ آج کل کے جرائم پیشہ لوگ سوشل میڈیا کی مدد سے بھی اپنا شکار پھانستے ہیں
14۔اگر آپ اپنے بچوں کو خود اسکول سے لینے جایا کرتے ہیں تو ان کو اچھی طرح سمجھا دیں کہ آپ کے لیٹ ہوجانے کی صورت میں وہ کیا کریں، کہاں انتظار کریں۔ ان کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دیں کہ اگر کوئی ان سے کہے کہ میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ دیتا ہوں تو ہرگز اس کے ساتھ نہ جائیں ۔
 

Rashid Noor Madani
About the Author: Rashid Noor Madani Read More Articles by Rashid Noor Madani: 4 Articles with 5657 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.