آن لائن ٹیکسی پر پابندی کیوں؟

آن لائن ٹیکسی سروس عوام کو معیاری اور سستی سفری سہولت فراہم کرنے کا ایک مناسب ذریعہ ہیں۔ سفری سہولتات کے حوالے سے آن لائن ٹیکسی سروس دنیا کے تمام ہی ممالک میں کامیابی سے عوام کو سہولتیں فراہم کررہی ہیں۔ پاکستان میں بھی عام ٹیکسی کے علاوہ آن لائن ٹیکسی سروس کا آغاز 2015سے ہوا۔ پاکستان میں اس وقت زیادہ مقبول آن لائن ٹیکسی سروس میں Uber ’ابر‘اورCareem ’کریم‘ قابل ذکر ہیں۔ دونوں کمپنیاں پاکستان سے باہر کی ہیں اور وہیں سے آپریٹ کی جارہی ہیں۔ کالم کا مقصد آن لائن ٹیکسی سروس کمپنیوں کا پرچار نہیں بلکہ ان کے توسط سے عوام کو جو سہولتیں میسر آئی آرہی ہیں ان کی تفصیل اور اگر اس سروس کو کسی وجہ سے بند کردیا جائے تو عوام کو ایک اچھی سہولت سے محروم کردینے کے مترادف ہوگا۔ سندھ حکومت کے ایک وزیر نے اس قسم کا بیان دیا ہے کہ کراچی میں آن لائن ٹیکسی سروس بند کردی جائے گی۔ دنیا تیزی سے آگے کی جانب جارہی ہے۔ انٹر نیٹ کی جہاں بے شمار خوبیاں ، اچھائیاں ہیں وہاں اس کے نقصانات اور خرابیاں بھی ہیں۔ خرابیوں کی وجہ سے اس کی مثبت باتوں کو چھوڑ دینا عقل مند ی نہیں۔ اس سے پہنچنے والی برائیوں کا سَد باب کیا جانا چاہیے نہ کہ ہم اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں ۔

سندھ حکومت نے کراچی شہر میں سفری سہولتیں فراہم کرنے والی ٹرانسپورٹ کمپنیوں کریم اور ابر کے بارے میں کہا ہے کہ ان کمپیوں نے سندھ حکومت سے اجازت نہیں لی جس کے لیے انہیں ایک ہفتے کی مہلت دی گئی ہے ۔ اگر انہوں نے سات یوم میں NOCنہیں لیا تو ان کمپنیوں کو بند کردیا جائے گا۔ متعلقہ وزیر کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں ان کمپنیوں کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان کمپنیوں کے ساتھ صرف ایم او یو پر دستخط ہوئے تھے جس کے بعد تین سال تک جواب نہیں آیا ۔ حیرت کی بات ہے کہ نہ تو جواب آیا اور نہ ہی جواب طلب کیا گیا ۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہماری آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب کوئی حادثہ، واقعہ ، سانحہ ہمیں خواب غفلت سے بیدار کرتا ہے۔ حال ہی میں ایک واقعہ ایک آن لائن ٹیکسی میں ہوا تو حکومت بیدار ہوئی ، خط بھی یاد آگیا، اجلاس بھی طلب کر لیا، انتظامی سربراہان اور متعلقہ شعبہ جات کے سربراہان کی سرزنشت کا بھی خیال آیا۔ یہاں تک کہ اس ایک واقعہ پر آن لائن ٹیکسی سروس کو ہی بند کرنے کی نوید سنادی گئی۔ حیرت اور افسوس کی بات ہے۔ وزیر موصوف نے جو اجلاس طلب کیااس میں یہ بات سامنے نہیں آئی کہ آن لائن ٹیکسی سروس کی ان کمپنیوں سے حکومت کو بھی کچھ فائدہ پہنچ رہا ہے یا نہیں، یہ کمپنیاں کتنا ٹیکس ادا کررہی ہیں ، کرتی ہیں تو ٹھیک ورنہ ان سے جو بھی ٹیکس بنتا ہووہ وصول کرنے کا طریقہ کار وضع کیا جانا چاہیے تھا ۔یہ کمپنیاں مقامی یاقومی سطح پر نہیں بلکہ یہ عالمی سطح پر کام کررہی ہیں۔ ان کا نظام بیرون ملک سے کنٹرول ہوتا ہے۔ نیٹ پر موجود معلومات کے مطابق اس وقت دنیا میں 10 بڑی اور معروف آن لائن ٹیکسی سروس کمپنیاں سفری سہولتیں فراہم کر رہی ہیں۔ پاکستان میں میٹرو کیپ کے علاوہ دو کمپنیاں معروف ہیں ان میں ایک ’ابر‘ دوسری ’کریم‘۔ ان کے علاوہ دس آن لائن ٹیکسی سروس کمپنیوں میں ابرUber، کریمCareem ،لفٹLyft،ہیلوHailo، اولاOla، گراب ٹیکسیGrab Taxi، ڈیڈج ڈاچDidj Dach، جیٹGett، لی کیبLeCab، کیبی فیCabify اور بی ٹیکسیBiTaksi شامل ہے۔یہ دنیا کی مشہور آن لائن ٹیکسی کمپنیاں ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک میں اپنا مرکز رکھتی ہیں اور دنیا کے کئی ممالک میں ان کی ٹیکسی سروس کام کر رہی ہے۔ پاکستان میں ابر Uberاور کریم Caremزیادہ استعمال ہورہی ہیں۔ ابر دنیا کی ٹاپ موسٹ اور سوپر کمپنی ہے جس کا نیٹ ورک اور اس کی خدمات دنیا کے 67ممالک اور 78شہروں میں مصروف عمل ہیں۔ پاکستان میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں لوگ ان کی سہولیات سے سفری فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ایشیا کے علاوہ چین، تائیوان، جاپان، ساؤتھ کوریا، نیوزی لینڈ، انڈونیشیا، فلپائن، جرمنی ، تھائی لینڈ، ویت نام ، ملائشیاء، بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں سفری سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ اس کمپنی کا مرکزی دفتر کیلی فورنیا میں ہے۔ اسی طرح کریم دنیا کے سو سے زیادہ شہروں میں عوام کو سفری سہولیات فراہم کر رہی ہے۔ یہ کمپنی مدثر شیخا اور میکنس اولسن نے 2012ء میں قائم کی۔ کریم کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں خواتین ڈرائیور بھی ملازم رکھے۔ خاص طور پر سعودی عرب جیسے ملک میں۔سعودعرب میں24جون2018ء میں خواتین کو کار چلانے کی اجازت دے دی گئی ۔ پاکستان میں ابرUber نے اگست 2016 ء سے لاہور سے اپنی سفری سہولیات کا آغاز کیا جب کہ کریمCareem نے مئی 2015سے لاہور ہی سے اپنی سفری سہولیات کا آغاز کیا بعد میں یہ سہولتیں کراچی اور اسلام آباد میں بھی جاری ہوگئیں۔ مجھے ذاتی طور پر کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں ابر اور کریم سے سفر کرنے کا موقع ملا۔ دونوں کمپنیوں کی سروس بہت مناسب اور تعریف کے قابل ہیں۔ پانچ سے سات منٹ میں گاڑی مطلوبہ جگہ پہنچ جا تی ہے۔ کرایہ بھی مناسب ، نقد ادائیگی کی بھی سہولت۔ اسلام آباد میں البتہ کریم کی منی گاڑیوں میں اے سی کی سہولیات کا فقدان نظر آتا ہے، لاہور میں بھی بعض بعض ڈرائیوروں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ مسافر اے سی کے لیے نہ کہیں اور وہ بغیر اے سی چلائے اپنا سفر مکمل کر لیں۔ کراچی میں ایسا نہیں ۔

حکومت سندھ نے ان کمپنیوں کو NOCجاری کرنا ہے جس کے لیے ان کمپنیوں کو حکومت سندھ سے NOCدینے کی درخواست کرنے کو کہا گیا ہے ۔ انہیں ایک ہفتہ کا وقت دیا گیا ہے۔ یہ وقت انتہائی کم ہے۔ ایسی صورت میں جب کہ ان کمپنیوں کے صدر دفاتر ملک سے باہر ہیں۔ حکومت سندھ تین سال سے خاموش رہی اب کچھ وقت ان کمپنیوں کو اور دے تاکہ عوام کو جو معیاری سفری سہولیات ان کمپنیوں سے مل رہی ہیں وہ جاری رہیں۔ بہت معمولی وجوہات عوام کو سہولت فراہم کرنے والی کمپنیوں کو بند کرکے عوام کو پریشانی میں ڈالنا مناسب نہیں۔ اپنی بات معروف صحافی اور کالم نگار مظہر عباس کے اس ٹوئیٹ پر ختم کرتا ہوں جس میں انہوں نے بھی اُبر اور کریم کی سروس کو بند کرنے کی نفی کی ہے انہوں نے اپنے ٹوئیٹ میں لکھا اور بہت درست لکھا کہ ’’کریم Careem ‘اور’ ابرUber ‘کراچی میں بند ہے اگر سندھ حکومت کم از کم اپنے شہریوں کو بہتر سفری سہولیات فراہم نہیں کرسکتی تو نجی طور پر سفری سہلولیات فراہم کرنے والوں کی مدد تو کرسکتی ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ NOCجاری کرنے کے نام پر یہ خدمات (سروس) بند نہیں کی جائیں گی‘‘۔

YOU MAY ALSO LIKE:

The newly-appointed transport minister, Owais Qadir Shah, has granted a week’s time to ride-hailing services, Uber and Careem, to regularise their operations, failing which the services would be banned in the province.