عشق محمد ‘ ناموس محمد اور پیغام درس سیرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

کائنات کے خالق و مالک اللہ رب العزت کی وحدانیت کے اقرار باللسان و باالقلب کے بعد عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان کا وہ بنیادی جز ہے جس کے بغیر ایمان کسی طور مکمل نہیں ہوسکتا اسلئے کوئی بھی عاشق مصطفی خاتم المرسلین ﷺ کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی یا نازیبا کلمات کسی طوربرداشت نہیں کرسکتا اور اگر برداشت کرجاتا ہے تو پھر و ہ نہ تو عاشق رسول کہلایا جاسکتا ہے اور نہ ہی صاحب ایمان ومسلمان قرار دیا جاسکتا ہے!
لیکن اسلام نے انصاف کے جو تقاضے متعین کئے ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور کسی بھی فرد کو اس وقت تک سزا نہیں دی جاسکتی جب تک اس کا جرم و گناہ اسلامی وشرعی تقاضوں کے مطابق ثابت نہیں ہوجاتا!

کائنات کے خالق و مالک اللہ رب العزت کی وحدانیت کے اقرار باللسان و باالقلب کے بعد عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان کا وہ بنیادی جز ہے جس کے بغیر ایمان کسی طور مکمل نہیں ہوسکتا اسلئے کوئی بھی عاشق مصطفی خاتم المرسلین ﷺ کی شان میں کسی بھی قسم کی گستاخی یا نازیبا کلمات کسی طوربرداشت نہیں کرسکتا اور اگر برداشت کرجاتا ہے تو پھر و ہ نہ تو عاشق رسول کہلایا جاسکتا ہے اور نہ ہی صاحب ایمان ومسلمان قرار دیا جاسکتا ہے!

لیکن اسلام نے انصاف کے جو تقاضے متعین کئے ہیں انہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور کسی بھی فرد کو اس وقت تک سزا نہیں دی جاسکتی جب تک اس کا جرم و گناہ اسلامی وشرعی تقاضوں کے مطابق ثابت نہیں ہوجاتا!

اسلئے ملعونہ آسیہ مسیح کی جانب سے صحت جرم سے انکار اور سردار الانبیاءصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و قرآن کی عظمت و تعظیم کے اقرار کے بعد ملعونہ آسیہ مسیح پر جرم ثابت نہ ہونے اور گواہوں کے بیانات میں تضادات کے باعث ملعونہ آسیہ مسیح کو جن وجوہات کی بناءپر رہا و بری کیا !
وہ یہ ہیں !

مقدمہ کے مطابق ملعونہ آسیہ مسیح نے 25سے35خواتین کے سامنے مذہبی بحث کرتے ہوئے شان رسالت میں گستاخانہ کلمات ادا کئے مگر اس حوالے سے گواہی صرف دو خواتین معافیہ بی بی اور اسماءبی بی نے دی جبکہ دیگر کوئی اس حوالے سے گواہی دینے نہیں آیا !

گواہ خواتین کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی کہ ان کا پانی پلانے پر ملعونہ آسیہ مسیح سے جھگڑا ہوا تھا جس کی بناءپر ان کے دل میںآسیہ مسیح کیخلاف بغض و عناد کا گمان ہے !

ملعونہ آسیہ مسیح سے جس اجتماع میں اقرار جرم کرایا گیا اس کے حوالے سے بھی گواہوں کے بیانات میں تضادات پائے گئے ۔ کسی گواہ نے کہا کہ یہ اجتماع مختاراحمد کے گھر منعقد ہوا کسی نے کہا یہ عبدالستار کے گھر ہوا تھاکسی نے رانا رزاق کے گھراور کسی نے حاجی علی احمد کے ڈیرے پر منعقد ہونے کی گواہی دی ! جبکہ اجتماع میں شریک افراد کے حوالے سے بھی گواہوں کے بیانات میں تضادات پائے گئے کچھ کا کہنا تھا کہ مذکورہ اجتماع میں 100 افراد شریک تھے، کچھ نے 1000 افرادکی شراکت بتائی اور کچھ نے اس اجتماع میں 200 سے 250 افراد کی شرکت کی گواہی دی جس کی وجہ سے شکوک و شبہات اور ابہام پیدا ہوئے جن کا فائدہ ملزمہ کو پہنچا !

فاضل عدالت کے مطابق ملزمہ سے اعتراف جرم ایک ایسے مجمع کے سامنے کرایا گیا جس میں سینکڑوں لوگ شامل تھے اور جو اسے مارنے پر تلے ہوئے تھے۔ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ اسے نہ ہی رضاکارانہ بیان قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی قانون کے مطابق سزائے موت جیسی انتہائی سزا کے لیے ایسا بیان قابل قبول ہو سکتا ہے!

ان وجوہات کے تحت سپریم کورٹ نے ملعونہ آسیہ مسیح کو شان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی ثابت نہ ہونے پر رہا و بری کردیا جس پر ملک بھر میں نہ صرف احتجاج کیا جارہا ہے بلکہ ٹریفک کی روانی ‘ تجارت و صنعت کا پہیہ اور کار سرکار روکنے کیلئے تشدد کا راستہ بھی اپنایا جارہا ہے جس کی وجہ سے اب تک نہ صرف کئی انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں بلکہ اس احتجاج کی کوکھ سے جنم لینے والا معاشی بحران بہت سارے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کرنے اور سینکڑوں و ہزاروں افراد کے بھوک و پیاس کیساتھ علاج و ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہلاک ہونے کے خدشات بھی پیدا کررہا ہے !

شان رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گستاخی کسی طور برداشت نہیں کی جاسکتی چاہے وہ گستاخی نازیبا کلمات کی ادائیگی کے ذریعے کی جائے ‘ قانون تحفظ ناموس رسالت میں ترمیم کی سازش کے ذریعے کی جائے ‘ درود و سلام پر پابندی کے مطالبات کے ذریعے کی جائے یا میرے آقا کی ناموس کے تحفظ کے نام پر قتل انسانی کا اہتمام کرکے حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کے امن و محبت کے پرچار کے پیغام کو پامال کرکے کی جائے !

ہر گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک ہی سزا ہونی چاہئے اور وہ ہے سزائے موت
مگر سزا کیلئے جرم کا ثابت ہونا بھی اللہ کا وہ حکم ہے جو اس نے قرآن کے ذریعے ہم تک پہنچایا ہے لہٰذا قرآنی تعلیمات واحکامات کو فراموش کرکے ذاتی صوابدید و خواہشات پر کسی کو مجرم قرار دیکر سزا دینا بھی اسلام ‘ ایمان اور سیرت و سنت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیخلاف ہے !

اس کے باوجود بھی عدالتی فیصلے پر اگرعشاقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو یہ ان کا انسانی ‘ آئینی ‘ قانونی اور اسلامی حق ہے مگر احتجاج کو امن ‘ انسانیت ‘ زندگی اورکاروبار حیات کیلئے نقصان دہ بنانا ‘ سڑکیں ‘ شاہراہیں ‘ بازاریں ‘ دکانیں ‘ فیکٹریاں بند کرانا ‘ مریضوں کی اسپتالوں تک ‘ طلبا ¿ واساتذہ کی علم گاہوں تک رسائی روک دینا اور انسانوں کو پریشان کردینا نہ تو کار اسلامی ہے اور نہ ہی سنت و سیرت محمدی کی تقلید و پیروی ہے اسلئے احتجاج کو اسلام ‘ ایمان ‘ شرع ‘ عشق رسول ‘ آئین اورقانون کے دائرے میں محدود رکھا جائے !

مساجد میں رب رحمان کے حضور سر بسجود ہوکر دعا کی جائے کہ اللہ ہمیں اللہ کی اطاعت ‘ محمد سے محبت ‘ ایمان کی دولت ‘ شریعت کی سمجھ رکھنے والا بنائے اور ہمیں ایسے ہی رہنما ‘ رہبر ‘ حکمران ‘ منصف‘ محافظ اورمنتظم عطا کرے جو اللہ کی راہ پر ہمیں چلائیں اور اسلامی تقاضوں کے مطابق انصاف کریں جبکہ اگر انصاف میں کوئی مفادات عزیز رکھے اور گناہگاروں کو سزا دیتے ہوئے جانبداری اپنائے یا شان رسالت میں گستاخی کرنے والے کو ناحق سزا سے بچائے تو اللہ ایسے رہبروں ‘ رہنماوں ‘ حکمرانوں ‘ منتظموں اور محافظوں کو نیست و نابود اور غارت کر دے مگریہ اللہ کا کام ہے اور اللہ کے اس اختیار کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش ایمان سے محرومی کی علامت کے سوا کچھ نہیں ہے !
 

Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 194 Articles with 129985 views The Visiograph Design Studio Provide the Service of Printing, Publishing, Advertising, Designing, Visualizing, Editing, Script Writing, Video Recordin.. View More