عربی میں آسیة نام کے کئی معانی ہیں جیسے غمزدہ، علاج
ومعالجہ،ستون، مضبوط عمارت وغيره لیکن
کہیں پربھی آپ کویہ نہیں ملےگا کہ آسیہ کامعنی کسی نےگناہ گارسےبھی کیاہو
یہ نام بعض مفسرین کےمطابق فرعون کی بیوی کانام بھی تھاجوحضرت موسی علیہ
السلام پرایمان لانےوالوں میں شامل تھیں اورفرعون نےان کوطرح طرح کی
تکلیفیں پہنچائیں،
اسی طرح یہ نام ان ناموں میں شامل ہےجومسلمانوں، عیسائیوں اوریہودیوں میں
مشترکہ طورپررکھےجاتےہیں
لیکن فاضل جج صاحب جسٹس کھوسہ کوپتہ نہیں کہاں سےیہ غلط فہمی ہوئی کہ آسیہ
کامعنی" گناہ گار" کےہے۔ وہ ملزمہ آسیہ کیس میں چیف جسٹس کےتحریرکردہ فیصلہ
پراپنےاضافی نوٹ کےبالکل آخرمیں آسیہ کی مظلومیت کاروناروتےہوئے
لکھتےہیں"یہ ایک سنگین مذاق ہےکہ آسیہ کامعنی "گناہ گار"ہیں لیکن زیرنظر
مقدمے میں اس کاکردار شکیسپئرکےناول کنگ لیئر کے
الفاظ میں"گناہ کرنےسےزیادہ گناہ کاشکار"جیساہے"
اللہ جانےجسٹس کھوسہ کویہ بات لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟شایدوہ
کہناچاہتے ہیں کہ لوگ نےآسیہ نام سے
استدلال کرکےاس کوتوہین رسالت کی مرتکب قراردےدیاہے
حالانکہ جیساکہ عرض کیاگیاآسیہ کامعنی گناہ گارسےکرنا
یہ صرف جسٹس کھوسہ کی منطق ہے،نہ کہ کسی اورکی۔
معززججز کی خدمت میں اتناعرض ہےکہ آپ ایک مسلمان ملک کےانتہائی حساس عہدےپر
براجمان ہیں آپ کو
غیر مسلم مصنفین کےلکھےگئے ناولوں سےزیادہ قرآن و حدیث کامطالعہ
کرناچاہئےتاکہ آپ کےتحریرکردہ فیصلے بھی قرآن و حدیث کےمطابق ہوں، آسیہ اور
عاصیہ میں فرق بھی کرسکے اوریہ بھی آپ پر واضح ہوکہ ملزمہ
درحقیت نام کاتو آسیہ ہےلیکن اپنے کردارکےاعتبارسےواقعی عاصیہ ہے۔
مسلم شریف کی حدیث میں آتاہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےایک خاتون
کانام عاصیہ سےبدل کرجمیلہ رکھاتھاکیونکہ عاصیہ کامعنی ہےاللہ کی نافرمانی
کرنےوالی عورت یعنی گناہ گار۔مسٹرکھوسہ کی غلط فہمی کی وجہ یہ بھی ہوسکتی
ہے کیونکہ لوگ الف اورعین کےتلفظ میں
فرق نہیں کرپاتےاورشایدکسی جذباتی مولوی کی زبان سے
مسٹرکھوسہ نےآسیہ کوعاصیہ سمجھ کرسناہو لیکن لکھنے
اور بولنے میں بڑافرق ہوتاہے۔
اسی سال تقریبا جون کےمہینے میں ہمارےچیف جسٹس
ثاقب نثارصاحب کسی تفریحی مقام پررقص کرتےہوئےپائےگئےتھے، اس وقت میں نے
"منصب قضاء محو رقص" کےنام سے ایک تحریرلکھی تھی مزیدتبصرے سےپہلےاُسی
تحریرکا ایک اقتباس ملاحظہ ہو۔
"ویڈیوکودیکھ کر
مجموعی طورپریہ اندازہ ضرورہواکہ جناب اپنےفیصلوں میں منصف ہونے کےساتھ
ساتھ اچھل کود کےبھی بڑےماہرہیں ، رقص کی شروعات کب ہوئی؟جائزہے یاناجائز؟
افتاء پڑھنےکےباوجود ہم اس بحث میں نہیں پڑتے لیکن جوامر متفق علیہ ہے وہ
یہ ہےکہ رقص خلافِ مروّت کام ضرورہے اوراس سےانسان کاوقار مجروح ہوتاہے خاص
کرجب پبلک اورمیڈیاکے سامنےہو اورمحورقص بھی کوئی اورنہیں بلکہ منصبِ قضاء
پرفائزبھلےمانس ہو،
کسی اورکےلئے یہ بلنداخلاق سےگری ہوئی حرکت ہویانہ ہولیکن منصبِ قضاء
پربراجمان شخص کےلئےضرورہے،
کیاتفریحِ طبع کےلئے کوئی مہذب کھیل نہیں کھیلا جاسکتا،
چیف جسٹس صاحب سےگزارش ہےکہ جب رقص سےفرصت ملےتوخوارم المروّت(مروّت کوٹھیس
پہنچانےوالےاسباب کامطالعہ ضرورفرمالیں)کہیں ایسانہ ہوکہ آپ کی وجہ سے
منصبِ قضاء داغدارہو آپ صرف قاضی نہیں بلکہ قاضی القضاۃ ہیں"
جب ملک کاچیف جسٹس ڈانسرہو اوردوسرےججز کی قابلیت کاعالم یہ ہوکہ وہ آسیہ
اورعاصیہ میں فرق بھی
نہ کرسکے توپھرفیصلے ایسےہی آیاکرتےہیں
|