معاشرتی زندگی میں قوانین اور ان کا نفاذ پر امن زندگی
اور معاشرتی ارتقاء کے لیے ناگزیر ہے۔ قوانین اور سزا کے تصور کے بغیر
معاشرہ کسی جنگل کی عکاسی کرے گا اور اس کا پنپنا محال ہو گا۔ معاشرتی بگاڑ
کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف خلاف ورزیوں پر متنوع سزائیں دی جاتی ہیں۔ جرم
کرنے والے کو سزا سے بچانا اور اس پر رحم کرنا پورے معاشرے کے ساتھ دشمنی
ثابت ہو گا اور معاشرے کو بھیانک انجام تک لے جائے گا۔ انسان کی عقل و
بصیرت محدود ہے۔ ایسے میں عالمی سطح پر مسائل کو سمجھنے اور اس کے لیے
قوانین مرتب کرنے کے لیے بہت سوچ و بچار کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالی کا بے
پایاں احسان ہے کہ اس نے ہمیں دین اسلام کی دولت سے نوازا ہے۔ دین اسلام
اللہ تعالی کی طرف سے عطا کردہ بیش قیمت نعمت ہے۔ اور واحد آفاقی مذہب ہے۔
یہی مذہب عالمی سطح پر امن و امان کے قیام کا ضامن ہے۔ اور دنیا میں امن،
آشتی اور ترقی اسی پر عمل کی بدولت ممکن ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ
وسلم کی ذات با برکات مسلمانوں کے نزدیک انتہائی تکریم و تعظیم اور احترام
و محبت کے لائق ہے۔ اور آپ کی ذات ہی ہمارے لیے کامل نمونہ اور رول ماڈل
بھی ہے۔ ہمارے لیے زندگی کے ہر پہلو میں آپ کی ذات سے رہنمائی حاصل کرنا
ضروری اور باعث سعادت و شرف ہے۔ پھر وہ مقدس آسمانی کتاب جو آپ پر نازل کی
گئی، جو منبع رشد و ہدایت ہے ہمیں قدم قدم پر راستہ دکھاتی ہے۔ اسلام کی ان
مستقل تعلیمات کے زیر اثر قائم ہونے والی ریاست میں چشم فلک یہ منظر بھی
دیکھ چکی ہے جب ایک یہودی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد حضرت
علی کرم اللہ وجہہ کے خلاف ایک ذرہ کی ملکیت کا دعوی دائر کرتا ہے تو قاضی
وقت فیصلہ یہودی کے حق میں کرتا ہے کیونکہ حضرت علی کے پاس اپنے بیٹے اور
خادم کے علاوہ کوئی اور گواہ نہ تھا اور بیٹے یا غلام کی گواہی معتبر نہ
تھی۔ ایسی کیا تعلیم تھی جو قاضی کو فیصلہ حق پر کرنے پر ابھارتی تھی۔
یقینا یہی اسلام کا نظام عدل تھا جس نے اسے غیر مسلموں کے لیے بھی مثالی
بنا دیا۔
قرآن کریم کے دو مقامات کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے۔ سورۃ النساء آیت 135
میں انصاف پر گواہی دینے کا حکم ہے خواہ اس سے اپنا یا کسی قریبی رشتہ دار
کا نقصان ہی کیوں نہ ہوتا ہو اور سورۃ المائدہ آیت 8 میں حکم ہے کہ کسی قوم
کی دشمنی آپ کو ناانصافی پر نہ ابھارے۔ یہ وہ خوبصورت تعلیمات ہیں جو ہر
حال میں عدل و انصاف کا قیام سکھاتی ہیں۔ اور ان پر عمل پیرا ہونا اسلامی
حکومتوں کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔
گزشتہ دنوں آسیہ بی بی کے مقدمہ کا سپریم کورٹ سے فیصلہ آیا۔ فاضل عدالت نے
شواہد و گواہان کے بیانات میں اور واقعہ کے اندراج میں تاخیر وغیرہ کے سبب
آسیہ بی بی کو بری کر دیا ہے۔ اس فیصلہ سے ملک کے طول و عرض میں بسنے والے
کروڑوں محبان رسول کو شدید مایوسی ہوئی۔ کسی فیس بکی فلسفی نے تو اپنی دانش
کے جوہر دکھاتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا کہ عدالت نے کہہ دیا ہے کہ ناموس
رسالت میں کوئی گستاخی سرزد نہیں ہوئی جبکہ یہ عجیب محبان رسول ہیں ج مصر
ہیں کہ نہیں گستاخی تو ہوئی ہے۔ ایسے فلسفہ دان اس فیصلہ کو مقام شکر قرار
دے رہے ہیں کہ گستاخی نہیں ہوئی۔ جبکہ اصل بات یہ نہیں ہے۔ مطالبہ تو یہ ہے
کہ مسئلہ کی نزاکت کو سمجھا جائے اور حقائق تک پہنچنے کی بھرپور سعی کی
جائے تاکہ حق واضح ہو جائے۔
قانون میں گنجائش موجود ہے کہ کہ فیصلہ پر اعادہ کی درخواست دائر کی جائے
اور مقدمہ کی درست طور پر پیروی کر کے کسی نتیجہ تک پہنچا جائے۔ دوسری طرف
ایسے افراد جو نقض امن اور افراتفری کا سبب بن رہے ہیں اور ملکی امن و امان
کی صورتحال اور املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں ان کو فی الفور اپنے اس عمل
قبیح سے باز آنا چاہیے۔ اور مسئلہ کے قانونی حل کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
وزیراعظم پاکستان نے بھی قوم سے خطاب کیا اور قوم کو پر امن رہنے کی تلقین
کی۔ اور مقدمہ کے فیصلہ کی بھی گویا توثیق کی۔ مگر انھیں بھی اس بات کا
بخوبی اندازہ ہونا چاہیے کہ جتنی بڑی ہستی کی ناموس کا مسئلہ ہے احتیاط بھی
اسی قدر زیادہ برتی جائے۔ تاکہ اگر کوئی بے گناہ ہے تو خوامخواہ سزا کا
حقدار نہ ٹھہرے اور اگر کوئی قصوروار ہے تو سزا سے بچ نہ پائے اور آئندہ
نسلوں کے لیے بھی عبرت کا باعث بنے۔ عوام الناس کو اس بات سے بھی بخوبی
آگاہ ہونا چاہیے کہ عدالت کے اپنے معیارات ہوتے ہیں اور اس کا فیصلہ ان
اصول و ضوابط ہی کی روشنی میں ہوتا ہے۔ لہذا ریویو پٹیشن میں ٹھوس شواہد
پیش کریں اور کیے جانے والے فیصلہ کو تسلیم بھی کیا جائے۔ کہ یہی مہذب
معاشرے کی پہچان ہے کہ قوانین پر سختی سے عملدرآمد کیا جائے اور معاشرتی
نظم و نسق کو خراب نہ کیا جائے۔
|