ہر گزرتے دن کے ساتھ ہمارے معاشرے کے وجود سے کتب بینی کا
شوق و جذبہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں اچھے لکھاری نا
پید ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک صفحہ لکھنے کے لئے دس
صفحات پڑھنے پڑھتے ہیں۔ یہاں پڑھنے سے مراد صرف ورق گردانی اور سرسری
مطالعہ نہیں ہے کیوں کہ ڈنڈے بجاتے پڑھنے سے ایک سطر تک نہیں لکھی جا سکتی۔
بلکہ دس صفحات کا ایسا مطالعہ مراد ہے جس سے دل و دماغ کی آنکھیں روشن
ہوجائیں ، یعنی تمام باتیں و حقائق کھل کر سامنے آجائیں تب کہیں جا کر
لکھنے کا مقصد حاصل ہو گا۔ اسی مقصد کے تحت ‘ میں اپنا زیادہ تر وقت کتابوں
کے ساتھ گزارتا ہوں۔ آج بھی چند کتابیں زیر مطالعہ تھیں ، سوچا کہ ان سے
کچھ اقتباسات قارئین سے شئیر کروں اور کتابوں کی سیر میں اُن کو اپنا ہم
سفر بناؤں ۔ اُمید ہے کہ میری یہ ادانیٰ کاوش پسند آئے گی۔
’’ بادشاہ ناصر الدین محمود کے ایک خاص مصاحب کا نام محمد تھا، بادشاہ اسے
اسی نام سے پکارا کرتا تھا۔ ایک دن انہوں نے خلاف معمول اسے تاج الدین کہہ
کر آواز دی۔ وہ تعمیل میں حاضر ہوا لیکن بعد میں گھر جا کر تین دن تک نہیں
آیا۔ بادشاہ نے بُلاوا بھیجا اور تین دن تک غائب رہنے کی وجہ دریافت کی تو
اس نے کہا کہ آپ مجھے ہمیشہ محمد کے نام سے پکارا کرتے ہیں لیکن اس دن آپ
نے مجھے تاج الدین کہہ کر پکارا ۔ میں سمجھا کہ آپ کے دل میں میرے متعلق
کوئی خلش پیدا ہوگئی ہے ۔ اس لئے میں تین دن حاضر نہیں ہوا ۔ ناصرالدین
محمود نے کہا ۔ ’’ واﷲ ! میرے دل میں آپ کے متعلق کسی قسم کی کوئی خلش نہیں
۔ اس دن تاج الدین کے نام سے اس لئے پکارا تھا کہ اس وقت میرا وضو نہیں تھا
اور مجھے محمد ؐ کا مقدس نام بغیر وضو کے لینا مناسب معلوم نہیں ہوا ‘‘۔ (
تاریخ فرشتہ )۔
’’ آج کل معاشرہ میں یہ چیز زیادہ مقبول ہو رہی ہے کہ لڑکوں کو لڑکیوں کا
لباس اور لڑکیوں کو لڑکوں کا لباس پہناتے ہیں اور نوجوان اس سیلاب کے بہاؤ
میں بہہ رہے ہیں ۔ یہ طرز بھی یورپ اور امریکہ کے تابکاروں سے شروع ہوا ہے
۔ ان کے نزدیک یہ فیشن اور فخر کی چیز ہے ۔ ایک جگہ کا واقعہ ہے کہ کسی کے
ہاں دعوت تھی ۔ مرد اور عورتیں ایک ہی جگہ موجود تھیں۔ ایک نو عمر کو دیکھا
گیا کہ رواج کے مطابق میز پر کھانا لگا رہا ہے ۔ کسی کی زبان سے نکل گیا کہ
لڑکا بڑا ہونہار ہے اور سلیقہ مندی سے کام کر رہا ہے ۔ اس پر پیچھے سے آواز
آئی کہ میاں کیا فرما رہے ہیں یہ لڑکا نہیں ، میری لڑکی ہے۔ ان صاحب نے
پیچھے مڑ کر دیکھا اور نظر ڈال کر کہا ۔ ’’ معاف کیجئے ، مجھے معلوم نہ تھا
کہ آپ اس کی والدہ ہیں ‘‘۔ اس نے فوراً جواب دیا کہ میاں ! آپ صحیح دیکھا
کیجئے ، میں والدہ نہیں ‘ اس کا والد ہوں ‘‘۔ ( ترقی از مولانا مفتی عاشق
الہٰی بلند شہری ) ۔
’’ عتبی پر اسّی سال کی عمر میں شادی کا شوق سوار ہوا۔ کسی نے اس عمر میں
اس شوق کی وجہ دریافت کی تو جواب دیا کہ اس زمانے کی اولاد بڑی نافرمان
ہوتی ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ انہیں داغ ِ یتیمی دے جاؤں ۔ اس سے پہلے کہ وہ
میری نافرمانی کر کے مجھے رسوا کریں ‘‘۔ ( رفیق المسلم فی الاسفار )۔
’’ امام ابو حنیفہ ؒ نے تجارت میں اپنے ایک شریک کے پاس کپڑا بھیجا اور
بتایا کہ کپڑے میں یہ عیب ہے، خریدار کو آگاہ کرنا۔ اس نے وہ کپڑا فروخت
کیا لیکن خریدار کو عیب بتلانا بھول گیا۔ جب امام ابو حنیفہ ؒ کو معلوم ہوا
تو انہوں نے اس سے حاصل ہونے والی ساری قیمت صدقہ کردی جس کی رقم تیس ہزار
درہم تھی ‘‘۔ ( الخیرات الحسان فی مناقب الامام ابی حنیفہ النعمان )۔
’’ یہ ٹھیک ہے کہ تم ایک گلاب نہیں بن سکتے ، مگر اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ
تم ایک کانٹا بن جاؤ۔ یہاں ایک راز کی بات ہے اور وہ میں تمہیں بتا ہی دیتا
ہوں کہ جو شخص کانٹا نہیں بنتا ، وہ بالآخر گلاب بن جاتا ہے ‘‘۔ ( زاویہ ۳
( ۔ اُمید ہے کہ آپ کو کتابوں کی یہ سیر پسند آئی ہو گی ۔ اختتام ’’ عیون
الاخبار ‘‘ میں موجود اس دعا سے کرتا ہوں کہ اے اﷲ ! آپ کے جو حقوق مجھ پر
ہیں وہ مجھے بخش دیجئے اور لوگوں کی جو ادائیگیاں مجھ پر لازم ہیں انہیں
اپنے ذمہ لے لیجئے ۔ امین۔ |