اکلوتی ، سب سے بڑی، حافظہ بیٹی کے سر پر چادر ڈالی، اس
کا جسم غصے سے کانپ رہا تھا مگر اس کے دماغ نے کام کرنا نہیں چھوڑا تھا۔
وقت جو ستم کر کے گذر گیا تھا اس کو واپس موڑنا اس کے بس میں نہیں تھا۔پہلی
بار ، زندگی میں پہلی بار، اس کے گھر والوں ، پوتوں اور نواسوں نے سفاک
لہجے میں سنا ْ عبد الطیف کو بلاو میں نے عشاء کے بعد فیصلہ کرنا ہےْ
حاجی حاحب ، جو حج کرنے سے پہلے سارے گاو ں کے ماسٹر جی تھے، گاوں کی سب سے
باعزت شخصیت تھے۔ مگر اج اس عزت کا جنازہ گھر سے ملحقہ کھیت میں نکلنے لگا
تھا ۔ عشاء کے بعد ان کے چھ بیٹے، اکیس پوتے، تیرہ نواسے اور گھر کی ساری
خواتین موجود تھیں جب عبدالطیف کی چیختی چپلوں نے اس کی آمد کا اعلان کیا۔
عبد ا لطیف نے چپل اتارے اونچے لہجے میں السلام علیکم کہاسوتیلے والد کے
ساتھ جھک کرمصافحہ کیا اور ہاتھ باندھ کر سر جھکا کر کھڑا ہو گیا۔حاجی صاحب
نے فیصلہ کن اور گرجدار میں کہا ْ عبدالطیف تینڈی جتی دی چاں چاں کدن مکیسی
ْ
یہ واقعہ خود اسی سالہ مولانا لطیف نے نوشہرہ کے اکوڑہ خٹک سے واپسی پر
سنایا۔ ہم ملک کے نامور عالم دین مولانا سمیع الحق کا جنازہ پڑھ کر واپس آ
رہے تھے۔ مولانا مرحوم کے علم کے شجر تناور تھے ایسا شجر جس کے سائے میں
نام ور ہستیاں راحت پاتی تھیں ان کی روادار فطرت کی مثال ہے کہ بھٹو کے وقت
مین تشکیل پانے والی آئی جے آئی جس کے سربراہ مرحوم قاضی حسین احمد تھے اور
جب مولانا سمیع الحق کی سربراہی کی باری آئی تو وہ ازخود اس سے دستبردار ہو
گئے اس شجر کی شاخیں شہبازوں سے خوف زدہ چڑیوں کو گھونسلہ بنانے میں کبھی
بھی مانع نہیں ہوئیں۔وہ تین بار پاکستان کی پارلیمان بالا کے ممبر رہے ۔ ان
کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔ ملا عمر اور جلال الدین حقانی خود کو
ان کا شاگرد بتاتے اور مولانا فضل الرحمن بتاتے ہیں کہ انھوں نے آٹھ سال ان
کے مدرسہ حقانیہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔امریکہ کا سفیر ان کے در پر حاضر
ہوتا تھا۔ سعودیہ والے اس کی اقتداء میں نماز پڑہتے تھے ، پاکستان کے علماء
ان کی بات مانتے تھے مغرب نے انھیں طالبان کے باپ کا خطاب دیا تو طالبان کو
فرحت ہوئی ۔ وہ اول و آخر پاکستانی تھے ۔ ان کے والد مولانا عبدالحق نے
تحریک پاکستان میں حصہ ڈالا تھا۔ اس علمی گھرانے نے سیاست میں قدم رکھا تو
لوگوں نے نہ صرف مولانا سمیع الحق کے والد صاحب کو بلکہ بیٹے مولانا حامد
الحق کو بھی قومی اسمبلی میں اپنی ترجمانی کے لیے منتخب کیا۔ایک مسلمان ملک
پر روس نے قبضہ کیا تو وہ حکومت پاکستان کی پالیسیوں کے سب سے بڑے خیر خواہ
کے طور پر سامنے آئے۔ امریکہ نے اپنے پنجے گاڑہے تو بھی وہ حکومت پاکستان
کی پالیسوں کے ہم نوا بنے ۔ ۲۰۱۴ میں امریکہ کے ساتھ بات چیت کے لیے طالبان
نے ان کا نام لیا۔ دینی مدرسوں کے نصاب میں بہتری لانے کی ہر حکومتی آواز
کی انھوں نے تبلیغ کی۔جو لوگ ان کے نزدیک تھے ان کے دلوں میں ان کے لیے
احترام تھا، جو ان سے ملاقات کرتا ان کی شخصیت سے مرعوب ہوتا ۔ دور کے نکتہ
چین بھی ان کی سیاسی زندگی میں کوئی سکینڈل ڈھونڈے میں ناکام ہی رہے۔
میں نے مولانا لطیف سے سوال یہ کیا تھا کہ ہمارے علماء اپنے اپنے مقام پر
قوی ہونے کے باوجود اسلام کی طاقت میں اضافہ کیوں نہیں کر پاتے ہیں ۔تو
مولانا نے اپنا ذاتی واقعہ سناتے ہوئے کہا کہ میں ایسا خطیب ہوں کہ دور دور
سے لوگ مجھے خطاب کے لیے لینے آتے ہیں ۔ مگر میں اپنے دادا کی بنائی ہوئی
مسجد میں نماز نہیں پڑھتا تھا ۔ میری وجہ سے میرے دادا کا خاندان دو حصوں
میں بٹ گیا۔ میں اپنے چاچا( سوتیلے باپ) سے نفرت کی وجہ سے تعلیم مکمل نہ
کر سکا مگر بھائیوں کا معاشرتی مقابلہ کرنے کے لیے خطیب پاکستان بن بیٹھا ۔
میں نے اسلام کو چھوڑ کر مسلک کو اپنالیا ۔ میں ہنسے مجمع کو رلانے کے فن
سے آشنا ہو گیاتھا ۔ میں نے اونچا شملہ اور چیختی چپل کو صرف اس لیے اپنا
لیا تھا کہ دو دونوں چیزیں میرے چاچے کو پسند نہ تھیں۔اس دن میں بہت خوش
تھا جس دن ایک معمولی تنازعے پر جرگہ منعقد ہوا اورمیں نے چاچے کو سر پنچ
ماننے سے انکار کر دیا ۔ اس کے بعد جب بھی کوئی مسٗلہ میرے چاچے کے سامنے
آتا ۔ میرا چاچا لوگوں کو تھانے کی راہ دکھاتا۔ میں خود سے شرمسار رہنے لگا
مجھے چاچے کا کوئی ایسا عمل یاد نہ تھا جو نفرت کا باعث ہوتا۔ اب میں کسی
بہانے کا انتظار کر رہا تھا ۔ پھر وہ واقعہ ہو گیا جس نے سارے گاوں کو ششدر
کر دیا کسی نے میری بھتیجی کے سر سے چادر کھینچنے کی کوشش کی تھی ۔ میں گیا
تو چاں چاں کرتی چپل پہن کے اور اونچا شملہ رکھ کے تھا ۔ مگر میں نے شملہ
چاچے کے قدموں میں رکھ دیا تھا اور واپس ننگے پاوں آیا تھا۔ پھر میں نے اس
بد بخت کو ڈہونڈ نکالا ۔ سارا گاوں متفق تھا کہ فیصلہ جرگے میں ہو اور چاچا
جو فیصلہ کرے سب کو منظور ہو گا۔ عین موقع پر چاچے نے کہا میں تو فریق ہوں
تم فیصلہ کرو۔ میرا فیصلہ غصہ بھرا تھا ، مگر گاوں والوں کو منظور تھا۔
میرا چاچا اٹھ کھڑا ہو اکہا میں بطور فریق مجرم کو معاف کرتا ہوں، معافی نہ
مجھے منظور تھی نہ گاوں والوں کو۔ چاچے سے اپنا کرتا اتار کر پیٹھ ننگی کر
لی ۔کہا اپ لوگوں نے سزا دینی ہے تو مجھے دو۔ سب کے ساتھ میری نظریں بھی
جھک گئیں۔ بغاوت پر آمادہ مجرم ایسے جھکا کہا اس کی زندگی کا رخ ہی بدل گیا
۔ مولانا لطیف نے میرے کندہے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔ اللہ اس لیے خدا ہے کہ
وہ احسان کرتا ہے۔چند لمحے کی خاموشی کے بعد کہا جس شخص کا جنازہ پڑھ کر
آرہے ہیں وہ میرے چاچے جیسا تھا وہ کہتا تو نہیں تھا کہ مگر اس کا مدعا یہی
ہوتا تھا کہ دیندار بننا ہے تو دستار کاشملہ اونچا کرنے اور چاں چاں کرتی
چپل سے پرہیز کرو |