" میرے گھر کی روایتیں "
کیا تمہیں نہیں پتا ہمارے گھرانے کی لڑکیوں کو زیادہ پڑھنے کی اجازت نہیں
ہوتی؟ آیندہ میرے سامنے یہ سوال لےکے مت آنا ورنہ بہت برا ہوگا۔۔
اپنی بات مکمل کرتے ہی ابا چارپائی چھوڑ غصے کو دباتے ہوئے گھر سے باہر نکل
پڑے۔۔
دراصل ہمارے آباواجداد کے ذہنوں میں پلی یہ سوچ کہ "لڑکیوں کو پڑھا لکھا کر
کیا کرنا ہے " میرے ابا کے دماغ میں بھی مٹی میں دبے دانے کی طرح تھی جسکو
نکالنا ناممکن تھا۔۔ ہم شہر میں منتقل تو ہوگئے تھے لیکن اس سوچ نے ہمارے
گھر کا پیچھا یہاں بھی نہ چھوڑا تھا۔۔
میٹرک کیئے دو سال ہوگئے تھے لیکن کالج کی بات سنتے ہی میرے ابا کا وہ حال
ہوتا کہ مجھے مجبورا خاموشی اختیار کرنی پڑتی۔۔
حالیمہ بی بی۔۔ حالیمہ بی بی ۔۔
ابا کے اماں کو آواز دیتے ہی میں بھی کمرے سے برآمدے کی طرف بڑھی لیکن اس
گفتگو نے جو اماں ابا کے درمیان شروع ہوئی تھی میرے قدم وہی ساقت کردیئے۔۔
" حالیمہ میں نے رقیہ کے لیئے بڑے بھائی سے بات کرلی ہے بس امجد سے اسکی
رخصتی میں ہی ہماری بہتری ہے خیر سے اب 18 سال کی ہونے کو آئی ہے"
" لیکن میاں صاحب بڑے بھائی کا خاندان تو گاؤں میں ہی ہماری رقیہ تو پڑھی
لکھی۔۔۔ "
اماں کا جملہ مکمل بھی نہ ہونے پایا تھا کہ ابا کی چنگھاڑتی نظروں نے اماں
کے لفظوں کا گلا گھونٹ دیا۔۔
" ہاں تو ۔۔ بس فیصلہ میں نے سنا دیا ہے رقیہ امجد سے رخصت ہوکے گاؤں ہی
جائے گی ۔ تم شادی کی تیاریاں شروع کرو۔۔ "
ابا کہ یہ الفاظ میرے کانوں میں گرم کوئلے کی مانند محسوس ہوئے۔۔ میں تو
آگے پڑھنا چاہتی تھی ، میں تو شہر کی رونقوں میں پلی لڑکی ہرگز جاہل لڑکے
سے شادی کرکے گاؤں میں نہیں جاسکتی تھی۔۔
جس بے چینی کے عالم میں ، میں نے رات گزاری میں بیان نہیں کرسکتی۔۔ صبح
ہوتے جیسے ہی ابا کام پہ نکلے میں نے اماں کے سامنے اپنا مقدمہ کھول دیا۔
"اماں آپ سن لیں میں امجد سے کبھی بھی شادی نہیں کروں گی ۔ آپ تو سب جانتی
ہیں میں گاوں نہیں جاسکتی۔ میرے خیالت جدید دور کے حساب سے ہیں اور وہ لوگ
وہی قدیم زمانے میں رہ رہے ہیں ۔" اپنی بات مکمل کرتے کرتے ہی میری آنکھوں
سے آنسو ٹپکنا شروع ہوگئے تھے ۔۔
" رقیہ بیٹا میں بھی نہیں چاہتی لیکن میں تمہارے ابا کے سامنے کچھ نہیں بول
سکتی۔ میں نے اگر کچھ بولا تو تمہارے ساتھ میں بھی اس گھر سے نکالی جاوں گی
۔ اور کیا تم چاہوگی کہ اس عمر میں آکے تمہارے والدین کی علیحدگی ہو؟ بیٹا
تمہیں ابا کی بات پہ رضامند ہونا پڑے گا"
اماں کے جملوں نے تو جیسے میرا منہ ہی سی دیا تھا ۔۔ اور شاید دل بھی۔۔
میرے سامنے ہی میری بغیر اجازت کے میری شادی کی تیاریوں میں سب مصروف تھے
مگر مجال تھی کہ کسی کو میری خوشی کی فکر ہوئی ہو۔۔
اور پھر وہ دن آ ہی گیا جسکا ہر لڑکی کو بے صبری سے انتیظار ہوتا ہے۔۔
میں سرخ جوڑا پہنے ، ہاتھوں میں مہندی رچائے ، ماتھے پہ ٹیکا لگائے ،
ہاتھوں میں کنگن پہنے اس شخص کے کمرے میں بیٹھی تھی جو مجھے نا پسند تھا ۔۔
امجد کے کمرے میں داخل ہوتے ہی میری تو سانسیں ہی حلق میں اٹک گئیں ۔۔
دھرررررر ۔۔۔
امجد نے کمرے میں داخل ہوتے ہی اتنی زور دار آواز میں دروازہ بند کیا میرا
تو دل ہی ہل گیا۔۔
" تو اوپر کہاں بیٹھی ہے چل نیچے آ اور میرے جوتے اتار "
میری آنکھیں بالکل پھٹی ہوئی امجد کی شکل تک رہی تھی۔۔
میرے منہ سے صرف اتنا ہی نکلا " میں جوتے؟"
اور اس سوال کے ساتھ نجانے میرے کتنےارمان ، میری خواہشیں، میرے خواب سب نے
دم توڑ دیا۔۔
بس میرے ذہن میں اماں کا آخری جملہ جوکہ انہوں نے رخصتی کے وقت نصیحت کے
طور پر کہا تھا طواف کر رہا تھا " رقیہ اس گھر سے تم رخصت ہوکہ ہمیشہ کے
لیئے جارہی ہو واپس پلٹ کر مت دیکھنا۔ ہمارے گھر کی روایت ہے بیٹیوں کا
جنازہ ہی نکلتا ہے سسرال سے۔ "
اور یہ رات میری اس گھر میں پہلی اور آخری تھی ۔۔
"اماں میں نے اپنے گھر کی روایتیں برقرار رکھی لیکن افسوس میں اپنی زندگی
برقرار نہیں رکھ سکی۔" اماں کے نام خط رقیہ کی لاش کے سراہنے سے پڑا ملا۔۔۔
رقیہ نے تو اپنی جان لےلی لیکن ایسا نہ ہوکہ آپکے ارد گرد بھی کوئی رقیہ
اپنی زندگی کو اختتام پر پہچانے کا عمل اختیار کرلے۔۔ بحیثیت والدین اپکا
یہ فریضہ ہے کہ اپنی بیٹیوں کو نئے رشتے میں جوڑنے سے پہلے انکی رائے
جانلیں ۔۔ اپنی روایتیں رسم و رواج اور مرضی تلے دبانے سے پہلے انکی خوشی
کے بارے میں ضرور سوچ لیں ۔۔ |