بند مٹھی

تحریر :عائشہ یاسین
اس ساری بحث میں نہ جانے کتنی دیر پہلے سلامت کا جسم روح کی قید سے آزاد ہوکر ٹھنڈا ہوچکا تھا لیکن ابھی تک نہ پولیس آئی اور نہ پولیس نے آنا تھا۔ سلامت کی ماں بھائیں بھائیں روئے جارہی تھی۔ جب اس کو سلامت کے زخموں کی تاب نہ لا کر مرنے کی خبر ملی تو اس ماں کے جسم میں جیسے کرنٹ سا بھر گیا اور وہ اپنے تن سے لپٹے تین بچوں اور اک گود میں سوئے ہوئے بچے کو ویسا ہی زمین میں دھرا چھوڑ کر سلامتے کی لاش کے اوپر لپکی۔’’اٹھ سلامتے اٹھ جا بیٹا!‘‘،صغراں چلائی۔’’تیری ماں کو تجھ سے کچھ نہیں چاہیے‘‘۔وہ تڑپ اٹھی۔’’تیری کوئی کمائی نہیں چاہیے بس تو اٹھ اور گھر چل!اٹھ سلامتے اٹھ بھی جا!‘‘ صغراں کب سے سلامتے کی لاش کو جھنجوڑ رہی تھی،منتیں کر رہی تھی پر سلامتے اٹھ کر نہیں دے رہا تھا۔

اچانک کمرے کے باہر الہ دتہ کی دہائیوں کی آوازیں آنے لگیں۔ کمرے سے باہر کوئی بیگم صاحبہ بار بار ٹشو پیپر سے اپنا چہرہ صاف کرتی جا رہی تھیں اور آلہ دتہ کبھی ان خاتون کو اﷲ کا واسطہ دے رہا تھا تو کبھی ان کی اولاد کا اور ساتھ ساتھ ہاتھ جوڑ کر روتا جا رہا تھا۔کمرے کے کونے میں ایک نوجوان اپنے موبائل فون پہ کسی سے محو گفتگو تھا پر اس کے چہرے سے ایسا کچھ ظاہر نہ تھا کہ وہ پریشان ہے یا کسی بات پر افسردہ بلکہ وہ توآپ اپنی بنائی دنیا میں بڑا پر کیف نظر آرہا تھا۔ غالبا یہ وہی لڑکا تھا جس کی تیز رفتار گاڑی کی زد میں آکر سلامتے اجل کو پہنچ چکا تھا۔ اس کی ماں معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پولس کی آمد سے پہلے ہی ہسپتال پہنچ چکی تھی اور اپنے اثرو رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے عملے سے اتنی مہلت مانگ لی تھی کہ پولس کو رپورٹ کرنے میں کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہ کیا جائے جس کے عوض وہ ہسپتال اور اس کے عملے کو خوش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑنے کا وعدہ بھی کر چکی تھی۔ بس اسی وعدے کے پیش نظر تمام عملہ ان سے تعاون کر رہا تھا۔

الہ دتہ کو روتا دیکھ کرصغراں تو جیسے آدھی مر ہی گئی تھی۔ جب بیگم باری سے معاملہ قابو میں نہ آ پایا تو انہوں نے ہائی بی پی کا بہانہ کر کے آرام دہ کرسی پر نشت جمالی اور ان کے سامنے ٹھنڈی منرل واٹر کی بوتل رکھ دی گئی۔ ان کے خرابی طبیعت کی اطلاع جیسے ہی حکام بالا تک پہنچی تو فوری طور پر ان کو ائر کنڈشنڈ روم میں بیٹھا دیا گیا۔ بیگم باری کے کمرے میں جانے کے کچھ ہی دیر بعد سنیئر ڈاکٹر مونس باہر آئے اور عملے سے سارے واقعے کی پوچھ گچھ کرکے سلامتے کے اسٹریچر کے پاس آکے ٹھہرگئے جہاں اس کے گھر والے آہ وبکاکر رہے تھے۔ ڈاکٹر مونس آلہ دتہ کو کونے میں لے جاکے کچھ سمجھانے کی کوشش میں لگ گئے اور دوسری طرف صغراں اپنے بچوں کو سینے سے چمٹائے روتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد آلہ دتہ ہاتھ جوڑے کمرے میں واپس آگیااور ڈاکٹر مونس نے اس کے ہاتھ میں ہاتھ رکھتے ہوئے اس کے مٹھی بند کردی اور الہ دتہ سے مخاطب ہو کر کہا۔

’’الہ دتہ تم بھلے آدمی ہو‘‘، ڈاکٹر مونس نے بولنا شروع کیا، میری بات کو مانوتو معاملہ ختم کرو، اب واقعی وہ سنجیدہ تھے۔’’کہاں پولس کچہری جاتے رہو گے۔ اگر کیس عدالت تک بھی گیا تو کیا وکیل اور دوسرے خرچے کیسے پورے کرو گے‘‘؟ ڈاکٹر مونس اصل بات کی طرف آئے۔سلامتے کمانے والا بھی گیا! ابھی کفن دفن کا بھی بندوبست کرنا پڑے گا ؟جانے والا تو گیا‘‘، انہوں نے معاملہ رفع دفع کرنے کی پوری کوشش کی۔صغران تمام منظر دیکھ رہی تھی اس کے نظر جیسے ہی الہ دتہ کی نظر سے ٹکرائیں تو الہ دتہ نے پھررونا شروع کردیا اور ہاتھ جوڑ کرڈاکٹر مونس سے کہنے لگا۔’’ میں تو سمجھ جاؤں گا صاحب پر اس کو کون سمجھا ئے گا‘‘؟، الہ دتہ صغراں کو دیکھتے ہوئے دہائی دی، ’’یہ تو ماں ہے۔ماں کیسے اپنے بچے کے قتل کو بھول سکے گی‘‘؟، یہ کہہ کر الہ دتہ اک بار پھر رونے لگا۔

یہ سنتے ہی ڈاکٹر مونس ایک بار پھر دفاعی انداز میں آگئے۔’’ارے بھائی!یہ قتل تھوڑی ہی ہے۔ایکسیڈنٹ ہے ایکسیڈنٹ‘‘،وہ چلائے۔ کتنی دیر سے یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ انجانے میں یہ سب ہوگیا۔ گاڑی بے قابو ہوئی اور بے چارہ تیرا لڑکا بیچ میں آگیا۔ کوئی جان کے تھوڑی ماری گاڑی، ان کے لہجے میں جھنجھلاہٹ آگئی۔’’بس اﷲ کی یہی مرضی تھی۔موت کو تو بہانہ چاہئے ہوتا ہے۔ اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا‘‘۔ ڈاکٹر مونس نے تو بظاہر روہانسا منہ بنا کے بولا مگر اندر ہی اندر ان کو اک فکر لاحق ہوگئی کہ اگر بات نہ بنی تو نہ صرف بیگم باری اور ان کا بیٹا بلکہ ان کے ہسپتال کی بد نامی الگ ہوگی اور چارچ الگ لگے گا اور میڈیا اور پولیس کے چکر پڑ جائیں گے۔ابھی ڈاکٹر مونس شش و پنج میں مبتلا ہی تھے کہ بیگم باری نے دور سے معاملہ بھانپ لیا اور سلامتے کی لاش پہ لگی آنسو بہانے کہ ان کو اس میں سے اپنے بیٹے سی خوشبو آ رہی ہے۔

ڈاکٹر مونس معاملہ سمجھ چکے تھے اور اب ان کو اپنا اگلا داؤ پتہ تھا۔بیگم باری پلیز ،ریلیکس کریں !فورا نرس کو ہدایت کی کہ وہ ان کو روم میں لے جاکے ان کا بی پی چیک کریں اور ڈرپ لگائے پر بیگم باری جانے کو راضی نہ ہوئی اور صغراں کا ہاتھ پکڑ کر معافیاں مانگنے لگیں۔مجبورا صغراں کو بیگم باری کے ساتھ وارڈ میں آنا پڑا۔ ہسپتال کا عملہ جیسے ہی ان کے چیک اپ کے انتظامات میں مصروف ہوا۔اسی وقت بیگم باری نے صغراں کے ہاتھوں کو 5000 نوٹوں کی گڈی سے بھر دیااور اس کی منت کرنے لگی کہ وہ اپنا بیان پولیس میں ریکارڈ نہ کروائے۔ اس کے بدلے وہ سلامتے کی تدفین اور تیجے کے سارے اخراجات خود سنبھالیں گی اور ہسپتال کا سارا خرچہ بھی ان کے ذمے ہوگا۔صغراں اتنے سارے نوٹ دیکھ کر بت سی بن گئی۔ اتنے پیسے تو سلامتے ساری عمر کام کرکے بھی اس کے ہاتھوں میں کماکے نہ دے سکتا تھا۔ اس کے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا فیصلہ کرے مگر فیصلہ تو کب کا ہو چکا تھا۔

صغراں کے آنسو تھم چکے تھے۔ پولیس آچکی تھی اور الہ دتہ اپنا بیان ریکارڈ کروا رہا تھا۔ اسٹاف کا اک اہلکار صغراں کو بلانے وارڈ میں آچکا تھا جہاں بیگم باری رو رو کے ہلکان ہورہی تھی اور بار بار اس کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لے رہی تھی۔’’ہاں بی بی!اپنا بیان درج کرواو!‘‘،پولیس نے بڑی بے زاری سے کہا۔’’یہ دشمنی یا قتل تو نہیں ہے‘‘؟۔’’نہیں صاحب‘‘، صغراں نے کس کے اپنی مٹھی بھینچ لی۔’’کوئی قتل نہیں‘‘،اس کی زبان لڑکھڑائی۔ ’’یہ تو ایکسیڈنٹ تھا جی‘‘۔سلامتے غلطی سے گاڑی کے نیچے آگیا‘‘۔مامتا کا اک آنسو لڑھک کر باہر آیا۔’’ساری غلطی سلامتے کی تھی‘‘۔

اسی وقت سلامتے کی لاش کو اسٹریچر پر ایمبولنس کی جانب لے جایا جارہا تھا۔ صغراں نے سلامتے کی طرف دیکھا۔جس کا اک ہاتھ سفید چادر سے باہر نکل چکا تھا اور اس کی بند مٹھی میں سے اس کے کمائے ہوئے کچھ روپے جھانک رہے تھے اور صغراں دل ہی دل میں کہہ رہی تھی سلامتے تو سلامت رہے۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142430 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.