سنہ 1880کی دہائی میں نارائن داس نامی ایک کشمیری تاجر کی
دکان آگ سے تباہ ہوگئی تو اُس نے جھیل ڈل میں کشتی کو دکان کی شکل دے دی جس
میں وہ رہنے بھی لگے۔
بعد میں جب اُس وقت کے ڈوگرہ مہاراجہ نے غیرکشمیریوں کے وادی میں زمین یا
مکان خریدنے پر پابندی عائد کردی تو انگریزوں کو مشکلات پیش آئیں۔
|
|
نارائن داس نے اپنی کشتی ایک انگریز کو فروخت کر دی۔ اس طرح کشمیر کا پہلا
ہاؤس بوٹ وجود میں آیا جس کا نام 'کشمیر پرنسیس' رکھا گیا۔ نارائن داس کو
جب لگا کہ یہ منافع بخش کام ہے تو اس نے ہاؤس بوٹ بنوانے شروع کیے اور
انگریز انھیں خریدتے گئے کیونکہ مہاراجہ کے قانون کا اطلاق پانی پر نہیں ہو
سکتا تھا۔ نارائن داس کشمیر میں 'ناو نارائن' کے نام سے مشہور ہو گئے۔
|
|
ایک صدی سے زیادہ عرصے سے ہاؤس بوٹ عالمی شہرت یافتہ ڈل جھیل کے حسن اور
دلکشی کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ البتہ گذشتہ چند برس سے ہاؤس بوٹوں کی تعداد
گھٹ رہی ہے۔ اس کی اور بھی وجوہات ہیں، لیکن حکومت کی پابندی بنیادی وجہ ہے۔
حکومت نے پرانے ہاؤس بوٹوں کی مرمت اور نئے تعمیر کرنے کو غیرقانونی قرار
دیا ہے۔ چھہ برس قبل جھیل ڈل میں تین ہزار ہاؤس بوٹ تھے مگر آج ان کی تعداد
940 رہ گئی ہے۔
|
|
ایک ہاؤس بوٹ کے مالک محمد امین کہتے ہیں: 'ہم کو بتایا جاتا ہے کہ ہاؤس
بوٹ سے جھیل خراب ہو رہی ہے۔ 200 کمروں والے ہوٹل ڈل کے کنارے تعمیر کرنے
کی اجازت کس نے دی؟ ان ہوٹلوں کا فضلہ سیدھا جھیل میں جا رہا ہے۔ لیکن جھیل
صاف کرنی ہے تو اس کا خمیازہ صرف ہاؤس بوٹ والوں کو بھگتنا ہے۔'
سرینگر کے ڈپٹی کمیشنر سید عابد رشید کہتے ہیں کہ حکومت ہاؤس بوٹوں کو ختم
نہیں کرنا چاہتی بلکہ انھیں جدید ٹیکنالوجی سے لیس کر کے جھیل کے پانی کو
آلودگی سے بچانا چاہتی ہے۔
|
|
انھوں نے کہا: 'ہم ان کے ساتھ بات کر رہے ہیں۔ جھیل کے اندر ہاؤس بوٹ سے
نکاسی کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ پابندی مستقل نہیں ہے۔ جب
یہ کام ہو جائے گا تو پابندی ختم ہو جائے گی۔'
لیکن ہاؤس بوٹ اونرز ایسوسی ایشن کے سربراہ عبدالحمید وانگنو کہتے ہیں کہ 'حکومت
کو سیاحت کو گذشتہ تین سال سے پہنچنے والے دھچکے کا بھی احساس نہیں۔ بجائے
اس کے کہ حکومت ہاؤس بوٹ مالکان کو رعایات دیتی، وہ ان کے روزگار پر ہی لات
مار رہی ہے۔'
|
|
مسٹر وانگنو کہتے ہیں کہ اگر واقعی جھیل میں ہاؤس بوٹ کوئی مسئلہ ہے تو
حکومت کو چاہیے کہ ایک ہزار ہاؤس بوٹ مالکان اور پابندی سے اس کام کو
چھوڑنے والے دیگر سینکڑوں لوگوں کی بازآباد کاری کا منصوبہ بنائے۔
|
|
ہاؤس بوٹ نہ صرف اس خوبصورت جھیل کا زیور ہیں بلکہ یہ کشمیر کی دستکاری کا
بھی نمونہ ہیں۔ دیودار کی لکڑی سے بنا ہاؤس بوٹ ایک چھوٹے بحری جہاز کی طرح
ہوتا ہے جس میں ہوٹل کی طرح کمرے، اور اوپر ایک دالان ہوتا ہے۔ لکڑی پر
خوبصورت اور دلکش نقاشی کی جاتی ہے اور سیاح ہاؤس بوٹ میں رہنے کو ترجیح
دیتے ہیں۔
|
|
ہاؤس بوٹ مالک حبیب اللہ خان یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر جھیل میں ہاؤس بوٹ نہ
رہے تو ایسا ہی ہو گا جیسے زیور اور سنگھار کے بغیر دلہن۔ |