پر توہین عوام ہوئی

آخر کار مذہبی دھڑوں کا احتجاج ختم ہوہی گیا۔حکومتی وفد کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنے والوں نے سڑکیں خالی کردیں۔معاہدے پر حکومت کی طرف سے وزیر مذہبی امور ڈاکٹر انوار الحق اور پنجاب کے صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت نے دستخط کیے۔اور تحریک لبیک کی طرف سے سرپرست اعلی پیر محمد افض قادری اور مرکزی ناظم اعلی وحید نور کے دستخط ہوئے۔اس معاہد ے میں طے پایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی اپیل کی جائے گی۔آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل میں ڈالا جائے گا۔مظاہرے کے دوران ہونے والے گرفتارشدگان کو رہا کیا جائے گا۔اس معاہدے کے بعد وہ بے یقینی اور بد امنی کا دور جو تین دنوں سے جاری تھی احتتام پذیر ہوا۔حکومت کا اندازہ کسی حد تک درست نکلا کہ مظاہرین زیادہ دیر تک ٹکے نہیں رہ پائیں گے۔اس معاہدے سے ایک دن قبل بھی مذاکرات کامیاب ہونے کی خبریں آئیں تھیں ۔حکومت کی جانب سے دعوی کیاگیا کہ دھرنے والوں سے مذاکرات کامیاب ہوچکے۔جلد دھرنا ختم کردیے جانے کا اعلان ہوجائے گا۔یہ خبر بعد میں غلط ثابت ہوئی۔اگلے دن دھرنا جاری رہا۔اب اس معاہدے کے بعد دھرنا مکمل طورپر اٹھالیا گیاہے۔بہرحال کچھ بھی سبب ہو۔دھرنا ختم ہونا خوش آئندہے۔تین دن سے ملک میں کاروبار منجمد تھا۔آمد ورفت بند تھی۔ٹریفک جام کے سبب سپلائی رکنے کے سبب پیڑول پمپ بند رہے۔ تین دن تک سڑکیں وحشت کا منظر پیش کرتی رہیں۔اب جاکے نظام زندگی بحال ہواہے۔سوال یہ ہے کہ آخر اس تین روزہ دھرنے کا حاصل کیا رہا؟اس سے دھرنا دینے والوں کو کیا ملا؟ان تین دنوں میں حکومت کہاں کھڑی رہی؟ یہ بڑے اہم سوالات ہیں۔بظاہر یہی لگتاہے کہ دونوں طرف والے کامیاب رہے۔حکومت یوں کامیاب رہی کہ سپریم کورٹ کا فیسلہ برقرار رہا۔اس فیصلے کے جاری کرنے والے قائم ہیں۔آسیہ بی بی کی باعزت بری ہوچکی۔حکومت خود کو سرخرو سمجھتی ہے۔اس کے نمائندے ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر دھرنے والوں کو گیدڑ بھبکیا ں بھی دیتے رہے اورحکومت پر ایک بھی بندہ مارے جانے کا الزام نہیں لگ پایا۔دوسری طرف دھرنے والے بھی بغلیں بجانے میں حق بجانب ہیں۔اگر چہ انہوں نے جس مدعے پر دھرنا دیا تھا۔اس میں مکمل ناکام ہوئے۔نہ آسیہ بی بی کی رہائی میں کوئی فرق آیا۔نہ یہ فیصلہ سنانے والوں کا بال بیکاہوا۔نہ حکومت کو کچھ سبق سکھا پائے۔اس کے باوجود وہ خوش ہیں۔وہ اپنی پاوردکھانا چاہتے تھے۔دکھا لی۔وہ اسی پر خو ش ہیں ۔تین تین ملک بھرمیں ان کاراج رہا۔ان کی مرضی تھی جسے چاہے روک دیتے۔توڑدیتے۔نظر آتش کردیتے۔تین دن تک عملا ریاست کی رٹ ناپید رہی۔کیا یہ کم کامیابی ہے کہ انہوں نے بغیر کوئی کیس بنوائے ۔بغیر کوئی بندہ جیل میں بھجوائے یہ سب کچھ کرلیا۔گاڑیوں کی توڑ پھوڑاورنذر آتش کیے جانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ نہائے دھوئے تسلیم کرلیے گئے ہیں تو یہ چھوٹی کامیابی نہیں۔آسیہ بی بی کی رہائی کے خلاف مظاہر ہ کرنے والے بھی جیت گئے۔اسے رہائی دینے والے بھی مطمئن ہیں۔یہ تین دن بھاری گزرے تو عام آدمی کے لیے ۔وہ عام آدمی جو ان تین دنوں کے لیے گھرمیں قید کردیا گیا۔جو کاروبار کے لیے باہر نکلنے سے معذور تھا۔کوئی بیمار تھا تو ہسپتال نہیں جاپایا۔جانے کتنے ان تین دنوں میں علاج نہ ہونے سے جان گنوابیٹھے ہونگے۔ملک بھر کے بچے ان تین دنوں میں زیور تعلیم سے جبری بازرکھے گئے۔سوشل میڈیاپر موٹرسائیکلوں ۔کاروں اور ٹرکوں کو نظر آتش کیے جانا دیکھا جاسکتاہے۔توڑ پھوڑ ہوتی دیکھی جاسکتی ہے۔اب جبکہ دھرنے والے اپنے گرفتار بندوں کو نکال لے گئے۔اب اس توڑپھوڑ کا ازالہ کون کرے گا؟جو گاڑیاں نطر آئش ہوئیں۔ان کے مالکان کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے؟ یہ تین دن عام آدمی کے لیے قیامت کے تین دن ثابت ہوئے۔وہ رل کررہ گیا۔اسے مذہب کے نام پر سڑکوں پر لایا گیا۔اسلام بچانے کے نام پر ۔آقاﷺ کے ناموس کے لیے۔دھرنے والے عام آدمی کو کہتے رہے کہ وہ جہاد کررہے ہیں۔اسلام کی سرفرازی کے لیے ۔وہ دھرنے میں شریک لوگوں کو مرد اور گھروں میں بیٹھنے والوں کو نامرد قراردے رہے تھے۔اب جب کہ دھرنا ختم ہوچکا۔اس کا لب لباب غیر تسلی بخش ثابت ہوا۔ عام آدمی دھرنا ختم ہونے کے اس معاہدے سے غیر مطمئن ہے۔وہ اسے دھوکہ دہی کے ضمرے میں لیتاہے۔اگر نظر ثانی کی اپیل مقصودتھی تو تین دن تک کیوں مذہب کے نام پر افراتفری قائم کی گئی؟ ای سی ایل میں نام رکھونے کی گذارش کرنا تھی تو اس کے لیے دھرنا ضروری تو نہ تھا۔اس معاہدے میں صر ف یہی دو باتیں قابل ذکر تھی۔مگر ان دونوں کے لیے دھرنا بالکل غیرضروری تھا۔نظر ثانی کی اپیل کی بالکل مناعی نہ تھی۔ای سی ایل میں نام ڈلوانے کے لیے بھی ایک مناسب طریقہ موجود ہے۔جس کے لیے ریاست مفلوج کرنے کی قطعا ضرورت نہیں ۔عام آدمی کے لیے یہ معاہدہ نام بڑے درشن چھوٹے کے مصداق ہے۔جس قدر دین کی سرفرازی کا ڈھنڈورہ پیٹا گیا۔انجام کام معاملہ ایسا نہیں نکلا۔دھرنے والے نہ کسی سے معذرت کرواسکے۔نہ فیصلہ واپس ہوپایا۔نہ کچھ بڑ اکیا جاسکا۔عام آدمی غیر مطمئن ہے۔اسے نہ دھرنے والوں پر اعتما دبن پایانہ اسے حکومت والوں سے تشفی مل پائی۔اگر چند لوگ مکاری سے عوام سے دھوکے بازی کرتے ہیں تو ایسے عناصر کی سرکوبی حکومت کا اولین فریضہ ہونی چاہییے۔کسی کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ عام آدمی اس دھوکہ دہی پر غضب ناک ہے۔عام آدمی جو کاغذوں میں سب سے محترم قرار پایا جاتاہے۔ریاست کے تمام اقدامات اسی کی آسانیوں کے لیے اٹھائے جانے کا لکھا جاتاہے۔اسمبلیوں اور سیمیناروں میں اسی عام آدمی کے ریلیف کی باتیں کی جاتیں ہیں۔سارے محکمے ،سارے ادارے ۔اس نیت سے قائم کیے جاتے ہیں کہ عوام کاآسانی اور روانی سے زندگی گزرانا ممکن بنایا جاسکے۔ان تین دنو ں میں یہ عام آدمی شدید قسم کی کوفت سے گزرا۔اس۷ ذہنی آزاری پر نہ مہ دار آسیہ بی بی کے خلاف بولنے والے بن رہے ہیں نہ اس کے دفاع میں کھڑے ہونے والے اس کا مداوہ کرنے پر آمادہ ہیں۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123939 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.