اطاعت قولی بھی ہوتی ہے اور عملی
بھی۔ ہمارے اللہ عزوجل نے فرمایا نماز قائم کرو اور رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (مفہوم) نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ نماز مومن
و منافق کے درمیان حد فاصل ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا ہم نے دل و زبان سے ان
اقوال کو تسلیم کیا اور عملی طور پر نماز قائم کر کے مکمل (قولی و عملی)
اطاعت کا اظہار کردیا۔
ہمارا رب عزوجل و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں فحش گوئی سے باز
رہنے کی تلقین فرماتے ہیں اور ہم دل و زبان سے اقرار کرتے ہیں کہ ہاں فحش
گوئی لعنت ہے اور پھر ہم اس عمل سے باز بھی رہتے ہیں۔ لہٰذا ہم دونوں (قولی
و عملی) اطاعت کا اظہار کرتے ہیں۔
ہمیں ہمارا رب عزوجل تمام مخلوق کے آداب سکھاتا ہے اور نبی کریم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم بھی مخلوقات کو ڈیل کرنے کے آداب سکھاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ہم یہاں
بھی قولی و عملی اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ہمیں معلوم ہے کہ رب عزوجل نے فرمایا کہ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے بلکہ جو کہتے ہیں وہ رب عزوجل کی طرف سے ہوتا ہے۔
ہم اس بات ہم آمنا و صدقنا کہتے ہوئے قولی و عملی اطاعت کا مظاہرہ کرنے لگ
جاتے ہیں۔
لہٰذا ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ اللہ عزوجل و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی اطاعت صرف عبادات کی ادائیگی ہی سے کامل نہیں ہوتی بلکہ آداب
معاشرت کی تمام جزئیات کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ عزوجل کے مکمل کلام و رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام اقوال (احادیث) کی بھی قولی اور عملی
اطاعت (جتنی ہمارے لئے قابل عمل ہے ) ہی کامیابی کا باعث ہے۔ لہٰذا پڑھئیے
۔۔۔۔۔۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ؛ (مفہوم)
‘ تم اللہ کے ساتھ اس کی ان نعمتوں کی وجہ سے محبت کیا کرو جو اس نے تم پر
کی ہیں اور اللہ کی محبت کی وجہ سے میرے ساتھ محبت کیا کرو اور میری محبت
کی وجہ سے میرے اہل بیت کے ساتھ محبت کیا کرو۔‘
(اسنن ترمذی ، کتاب المناقب ، باب مناقب اھل بیت النبی ، حدیث 3789 ۔۔۔۔۔۔
امستدرک از امام حاکم ، حدیث 4716)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا ؛ (مفہوم)
میرے صحابہ کو برا مت کہو ، اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی
سونا خرچ کردے تو پھر بھی وہ اِن کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی
نہیں پہنچ سکتا۔‘
(صحیح بخاری حدیث 3470 ، صحٰیح مسلم حدیث 2540)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا؛ (مفہوم)
‘بے شک اللہ عزوجل کے کچھ بندے ایسے برگزیدہ ہیں جو نہ انبیاء کرام علیھم
السلام ہیں نہ شہداء ۔ قیامت کے دن انبیاء کرام علیھم السلام اور شہداء ان
کو اللہ عزوجل کی طرف سے عطا کردہ مقام دیکھ کر آن پر رشک کریں گے ۔ صحابہ
کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ
ہمیں ان کے بارے میں بتائیں وہ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے
فرمایا: وہ ایسے لوگ ہیں جن کی باہمی محبت صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر ہوتی ہے
نہ کہ رشتہ داری اور مالی لین دین کی وجہ سے۔ اللہ عزوجل کی قسم! اُن کے
چہرے پُر نُور ہونگے اور وہ نور (کے ٹیلوں) پر ہونگے ۔ انہیں کوئی خوف نہیں
ہوگا جب لوگ خوفزدہ ہونگے ۔ انہیں کوئی غم نہیں ہوگا جب لوگ غم زدہ ہونگے
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورۃ یونس کی آیت نمبر 62 تلاوت فرمائی
(خبردار ! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔)
‘
(اسنن ابوداود کتاب البیوع باب فی الرھن حدیث 3527 ۔۔۔۔۔ اسنن نسائی حدیث
11236)
دیکھئے میں نے انتہائی اختصار سے کام لینے کی کوشش کی اور ایک ایک حدیث ہی
ان مقدس و محترم ہستیوں کے حوالے سے پیش کیں۔ اگر ہم حقیقی اعتبار سے اللہ
عزوجل و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کو اپنے ایمان کا لازم
جُز سمجھتے ہیں تو کلام اللہ عزوجل کی طرح کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کو بھی بغیر کسی تردد تسلیم کرنا ہوگا۔ اور جب ہم کلام اللہ
عزوجل و کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اہل
بیت و صحابہ کرام علیھم الرضوان کے ساتھ ساتھ اولیاءاللہ سے بھی محبت کا
درس ملتا ہے۔
لٰہذا اگر ہم اللہ عزوجل و رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا
دعویٰ کرتے ہیں تو محبت صالحین بھی رکھنا ہوگی۔ اور یہی محبت و ادب ہمیں
صراط مستقیم پر قائم و دائم رکھے گا۔ انشاءاللہ عزوجل |