تحریر:علی احمدساگر
حال ہی میں سپریم کورٹ کی طرف سے آ نے وا لا فیصلہ جس میں آسیہ مسیح کو
سزائے موت سے بری کر دیا گیاملک پاکستان کی سالمیت اور امن و سکون پر بجلی
بن کر گرا۔پورے ملک میں مسلما نو ں نے اس فیصلے کے خلا ف بھرپو ر احتجاج
کیا ۔تما م مذہبی جماعتوں بالخصو ص تحریک لبیک یا رسول اﷲ ﷺنے شدید غم و
غصے کاا ظہار کرتے ہوئے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر زور دیا ۔یہ با ت تو
لازم ہے کہ جب ناموس رسالتﷺ کا معاملہ آجائے تو پھر جس میں رتی بھر بھی
غیرت ایما نی ہے وہ کبھی خا موش نہیں بیٹھتا ۔بحیثیت مسلما ن ہماراایمان اس
وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک کہ حضور نبی کریم ﷺہمیں اپنے مال ، اولاد،
اپنے ما ں با پ اور حتی کہ اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہوں ۔جس دن فیصلہ
سنا یا گیا اس دن ہر ایک کے دل میں یہی بات تھی کہ آخر ہم مسلمان ہیں
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہتے ہیں ہمارے ملک میں ناموس رسالت کا قا نون
بھی موجو د ہے تو پھر کیا نو بت آن بنی کہ اچا نک ایک ملعونہ کو رہا کرنا
پڑ گیا۔
کوئی ایک بھی شخص ایسا نہیں جو اس فیصلے سے متفق نظر آیا ہو ۔اس ضمن میں
تما م مکتبہ فکر کے افراد نے شدید غم و غصے کا اظہار بھی کیا اور سڑکو ں پر
پرامن احتجاج بھی کیا۔ حکومت کی جانب سے جو اعلان سامنے آیا وہ بھی یہی تھا
کہ پرامن احتجاج کرنا آپ کا حق ہے ہم اس سے آ پ کو نہیں روکیں گے لیکن اگر
یہ سلسلہ صرف احتجاج کی حد تک رہتا تو شاید تما م مسلما ن اس احتجاج میں شا
مل رہتے اور اس کی حمایت بھی کرتے ۔جب تحریک لبیک اور دیگر جماعتوں کے
کارکنا ن نے احتجاج کا دائرہ وسیع کرتے ہو ئے پر تشدد کاروائیاں کیں تو سب
لوگ اس سوچ میں پڑ گئے کہ ہمارا مقصد کیا تھا اور ہم کیا کر رہے ہیں ۔
پو رے ملک کے تما م چھوٹے بڑے شہروں کے داخلی خارجی راستے بند کر کے لو گو
ں کو آنے جا نے سے روکا گیا ،مسافروں کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اوران سے ساما
ن تک چھین لیا گیا ،پبلک ٹرانسپورٹس کو آ گ لگا ئی گئی ،سر راہ کھڑے
مسافروں کی گاڑیوں کے شیشے توڑے گئے اور انہیں آگ لگائی گئی۔ طا لب علمو ں
اور بزرگو ں سے مو ٹرسائیکل چھین کر جلادیے گئے ،عام لو گوں کے سرپھوڑے گئے
گالم گلوچ کیا گیا ،مستورات کے ساتھ بدتمیزی اور ان سے چھیڑ چھاڑ کے واقعات
سامنے آئے ۔یہاں تک کہ گلیو ں کو بھی بند کرنے لگ گئے جس کی وجہ طلبا ء و
طالبا ت کو میلو ں دور پیدل چل کر جا نا پڑا۔ ایمبو لینسز کو بھی گزرنے کی
اجازت نہ دی گئی جس کی وجہ سے متعدد مریض جان کی بازی ہار گئے ،لوگوں کے
ٹریکٹر ٹرالے اور ٹرکوں کو جلادینے کی دھمکی دے کر راستوں میں کھڑا کیا گیا
،ٹھیلے والوں کا سارا سارا ساما ن زبردستی اٹھا لیا گیا اور کوریج کرنے
والے صحافیوں تک کو دھمکیا ں دی گئیں ۔
کیا یہ ہے نا موس رسالت ﷺپر پہرہ؟کیا اسلام ہمیں یہ تعلیما ت دیتا ہے؟بڑی
معذرت کے ساتھ پہلے تو میں یہ بتا دو ں کہ میں ملعونہ آسیہ مسیح کا حمایتی
نہیں اور نہ علماء کا مخالف ہو ں کیوں کہ جس مقصد کے لیے احتجاج شرو ع کیا
گیا ہم وہ مقصد چھوڑ چکے ہیں ۔مجھ سے سارے ہی اچھے ہیں لیکن جو اسلام ہم نے
پڑھا ہے قرآ ن و حدیث کی روشنی میں ،صحابہ کی زندگی اور پھر اولیاء اﷲ کا
طریقہ کا ر اس میں تو ایسا کچھ نہیں ہے ۔اسلام میں تو راستے کو بڑی اہمیت
دی گئی ہے بلکہ راستے کے بھی حقوق بیان کیے گئے ہیں ،اسے کشادہ اور صاف
ستھرا رکھنے کا حکم ہے ،راستے میں اگر کانٹا بھی ہوتو اسے ہٹانا باعث اجر
ہے ،مسافروں کے حقوق ہیں ،بیماروں کے حقوق ہیں ،خواتین کے حقوق ہیں ،بزرگوں
کے حقوق ہیں ،طالب علمو ں کے حقوق ہیں ۔ان سب کو پس پشت ڈال کر پتہ نہیں
عوام سے کس جرم کا بدلہ لیا جا رہا ہے ۔ لوگ سوال کرتے ہیں کہ کیا آسیہ
مسیح کو ہم نے رہا کیا ہے ؟ہمارا کیا قصور ہے ،ہمیں کس جرم کی سزا دی جا
رہی ہے ۔
تمام مسلمانوں کی حکومت پاکستان ، قانو ن نافذ کرنے والے ادروں اور سپریم
کورٹ آف پاکستان سے درد مندانہ ،عاجزانہ اور پرزور اپیل ہے اس فیصلے پر نظر
ثانی کرکے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح ہونے سے بچایا جائے اور گستاخی کی
مرتکب ملعونہ آسیہ مسیح کو نشانے عبرت بنا یا جا ئے تاکہ آئندہ کو ئی بھی
حضور نبی کریم ﷺکی شان میں گستاخی کا مرتکب نہ ہوسکے ۔ |