دو یورپی ممالک ہنگری اور پولینڈ اپنے سونے کے ذخائر میں
اضافہ کر رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیوں؟ کیا ڈالر زوال پذیر ہونے والا
ہے، کوئی معاشی بحران سر اٹھا رہا ہے یا پھر سونا سستا ہے، اس لیے؟
یورپی ملک پولینڈ نے گزشتہ دو عشروں کے دوران پہلی مرتبہ رواں برس گرمیوں
میں اپنے سونے کے ذخائر میں اضافہ کیا۔ اس کی پیروی کرتے ہوئے ہنگری کے
مرکزی بینک (ایم این بی) نے بھی اکتوبر میں سونا خریدتے ہوئے اپنے سونے کے
ذخائر میں ایک ہزار فیصد کا اضافہ کیا۔ پہلے اس مشرقی یورپی ملک کے پاس تین
اعشاریہ ایک ٹن سونا تھا، جو اب اکتیس اعشاریہ پانچ ٹن ہو گیا ہے۔
کیا ہنگری اور پولینڈ اپنے ہاں معاشی صورتحال کے بارے میں پریشان ہیں؟ کیا
وہ ڈالر کا استعمال کم کرنا چاہتے ہیں یا انہیں ممکنہ یورپی پابندیوں کا
خدشہ ہے؟ ستمبر میں جرمنی کے مالیاتی ماکیویری گروپ کے مرکزی اسٹریٹیجسٹ نے
لکھا تھا، ’’یہ سونے کی بہت بڑی مقدار نہیں ہے لیکن عمومی طور پر یورپ کے
مرکزی بینک سونا بیچتے ہیں، خریدتے نہیں۔‘‘
ہنگری کے سینٹرل بینک کا کہنا تھا کہ یہ سونا ’قومی دولت کی سکیورٹی میں
اضافے کے لیے خریدا گیا ہے۔‘‘ پولینڈ کے نیشنل بینک نے دو ٹن سونا جولائی
اور سات ٹن اگست میں خریدا تھا۔ اس طرح ایک سو سترہ ٹن سونے کے ساتھ گزشتہ
پینتیس برسوں میں اس کے ذخائر اپنی بلند ترین سطح پر ہیں۔
مشکل حالات میں کارآمد
سونا مشکل حالات میں کام آتا ہے اور افراط زر میں اضافہ روکنے کے لیے
بہترین ہتھیار ہے۔ ورلڈ گولڈ کونسل کی مرکزی بینکوں اور پبلک پالیسی سے
متعلقہ امور کی مینجمنٹ ڈائریکٹر ناتالی ڈیمپسٹر کہتی ہیں کہ مرکزی بینک
تین وجوہات کی بنیاد پر سونا خریدتے ہیں، ’’اپنے اثاثوں کو محفوظ رکھنے کے
لیے، اپنے اثاثوں کی بہتر گردش کے لیے یا پھر ان کے بدلے اچھی کمائی کے لیے۔‘‘
یا پھر سونا ایک ساتھ یہ تینوں مقاصد حاصل کرنے کے لیے بھی خریدا جا سکتا
ہے۔
عالمی سطح پر سیاسی اور اقتصادی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے، ان میں سعودی عرب،
اسرائیل، ایران، ترکی اور روس کے تنازعات سرفہرست ہیں جبکہ امریکا اور چین
کے مابین تجارتی جنگ نے بھی خدشات میں اضافہ کیا ہے۔ ان کے علاوہ امریکا
میں سیاسی عدم استحکام، برطانیہ کا یورپی یونین سے آئندہ اخراج اور اٹلی کی
خراب ہوتی معاشی صورتحال بھی پریشان کن عوامل ہیں۔
ڈالر کا خاتمہ قریب؟
ہنگری اور پولینڈ کی طرف سے سونے کی خریداری کا تعلق اس سے بھی ہو سکتا ہے
کہ بہت سے ممالک ڈالر سے دوری اختیار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ ان ممالک کے
خیال میں ان کا ڈالر پر انحصار بہت بڑھ چکا ہے اور انہیں اپنے مالیاتی
ذخائر ڈالر سے کسی دوسری شکل یا کرنسی میں منتقل کرنا چاہییں۔ دنیا میں
ڈالر کو محفوظ کرنسی کے طور پر کم استعمال کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ مثال
کے طور پر آسٹریلیا، جنوبی کوریا، ترکی اور قزاقستان نے اپنی اپنی ملکی
کرنسیوں کے تبادلے میں باہمی تجارت کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ اسی طرح جرمنی
اور چین بھی یوآن اور یورو میں تجارت کرنے پر رضامند ہو چکے ہیں۔
متنوع اثاثے
معاشی غیریقینی کی صورتحال میں بڑے سرمایہ کار سونے کی طرف ہی توجہ دیتے
ہیں۔ شیئرز کی غیر حقیقی قیمتوں کی دنیا میں سونا بہترین اثاثہ ثابت ہوتا
ہے۔ امریکا میں خاص طور پر بانڈز کی فروخت کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے
لیکن سونا کاروبار کے لیے بھی تو خریدا جاتا ہے۔ ’سوسائٹی گینیرال‘ نامی
بینک سے وابستہ روبن بہار کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’سونے
کی خریداری کے پیچھے بہت سے عوامل ہو سکتے ہیں، جن میں ذخائر میں تنوع اور
امریکی ڈالر اور اس کے غیر مستحکم ہونے کے خطرے کو کم کرنا بھی شامل ہیں۔
لیکن یہ صرف مارکیٹ ویلیو کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ سستا خریدیں اور مہنگا
بیچیں۔‘‘ عالمی منڈیوں میں رواں برس سونے کی قیمت میں دس فیصد تک کمی ہو
چکی ہے۔
آر بی سی ویلتھ مینجمنٹ نامی ادارے کے مینیجنگ ڈائریکٹر جارج گیری کا ڈی
ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہنگری اور پولینڈ کی طرف سے سونے کی
خریداری یورپی معیشتوں کی پریشانی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ پہلے یونان کے
معاشی حالات خراب ہوئے، پھر ترکی اور اب اٹلی کی بات کی جا رہی ہے جبکہ
جرمنی بھی گزشتہ برس اپنے سونے کے بہت زیادہ ذخائر امریکا سے واپس اپنے ہاں
لے آیا تھا۔‘‘ |
Partner Content: DW
|