بسم اﷲ الرحمن الرحیم
عقائد اسلام میں بنیادی عقیدہ توحید باری تعالیٰ ہے،اس کے معانی اﷲ کو
یکتا،بے نیاز اور کریم ماننا اور ان تمام صفات سے اعلیٰ اورارفع ماننا جس
میں محتاجی کا پہلو ہو،اﷲ کریم اپنی ذات،صفات اور جملہ اوصاف و کمالات میں
اکیلااور یکتا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے،اﷲ کریم نے اپنا تعارف قرآن
پاک میں اس انداز سے کروایا کہ '' اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اس کے
علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے، وہ ہی رحمن او ر رحیم ہے، بیشک آسمان و زمین
کی تخلیق میں اور رات ودن کے آنے جانے میں اور ان کشتیوں میں جو دریا میں
چلتی ہیں ایسی چیزوں کو لے کر، جو لوگوں کو فائدہ دیتی ہیں اور اس میں جو
کہ اﷲ پاک نے پانی اتارا ہے آسمان سے پھر اس کے ذریعہ سے زندہ فرمادیا زمین
کو اس کے بنجرہونے کے بعد اور پھیلادئے ہر قسم کے جانور اور ہواؤں کے
گھومنے میں اور ان بادلوں میں جن کو اﷲ پاک نے آسمان اور زمین کے درمیان
روک رکھا ہے عبرت کی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو سمجھ رکھتے ہیں۔(البقرۃ۔164)جب
کہ دوسری مقام پر توحید کویوں ارشاد فرمایا ''کہہ دو!بات یہ ہے کہ اﷲ ہر
لحاظ سے ایک ہے۔اﷲ ہی ایسا ہے کہ سب اس کے محتاج ہیں۔نہ اس کی کوئی اولاد
ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔اور اس کے جوڑ کا کوئی بھی نہیں۔ (الاخلاص)
اﷲ کریم نے بنی نوع انسان میں انبیاء کا سلسلہ شروع کرکے آسمانی تعلیمات کے
نزول کا ایک مربوط اور مؤثر سلسلہ قائم فرمایاتھا ، جو حضرت آدم علیہ
السلام سے لے کرخاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺؑ تک یہ سلسلہ جاری وساری
رہا ،ان کی تعلیمات کا حاصل یہ ہے کہ انسان اﷲ کریم کی تمام صفات اور
کمالات پر ایمان اور یقین لے آئے کہ صرف وہی خالق،مالک،رازق اور تمام
امورکا مدبّر اور متصرف ہے،اور وہ اﷲ کو ہی اپنا معبود مان کر اس کے لیے ہی
جانی، مالی اور بدنی عبادات کو خالص کرلے اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک
نہ ٹھہرائے کیونکہ شرک گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ہے اسے اﷲ کبھی معاف نہیں
کرتا ۔اﷲ تعالیٰ نے ایک معبود اور کئی معبودان باطلہ کی مثال بہت خوبصورت
انداز میں ارشاد فرمائی '' وہ تمہیں خود تمہارے اندر سے ایک مثال دیتا ہے،
ہم نے جو رزق تمہیں دیا ہے، کیا تمہارے غلاموں میں سے کوئی اس میں
تمہاراشریک ہے کہ اس رزق میں تمہارا درجہ ان کے برابرہو، (اور) تم ان
غلاموں سے ویسے ہی ڈرتے ہو، جیسے آپس میں ایک دوسرے سے ڈرتے ہو؟ ہم اس طرح
دلائل ان لوگوں کیلئے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں جو عقل سے کام لیں۔
(الروم۔28)دوسری جگہ ارشاد باری تعالٰی ہے ''اﷲ نے ایک مثال دی ہے کہ ایک (غلام)
شخص ہے جس کی ملکیت میں کئی لوگ شریک ہیں، جن کے درمیان کھینچ تان بھی ہے،
اور دوسرا (غلام) شخص وہ ہے، جو پورے کا پوراایک ہی آدمی کی ملکیت ہے، کیا
ان دونوں کی حالت ایک جیسی ہو سکتی ہے؟ الحمدﷲ، تمام تعریفیں اﷲ کے لیے (اس
مثال سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی)، لیکن ان میں سے اکثرلوگ سجھتے نہیں۔(الزمر۔29)
اﷲ کریم اس کائنات کے نظام کو چلانے اور اس کے امور کی تدبیر میں یکتا اور
تنہا ہے،کیونکہ اگر دو خدا ہوتے تو اختلاف رائے کی وجہ سے یہ نظام درھم
برھم ہو چکا ہو تا،اس بات کو قرآن کریم میں یوں ارشاد فرمایا ''یقینااگر
زمین و آسمان میں سوائے خدا کے چند معبود ہوتے تو یقینا یہ سب کے سب فنا
ہوجاتے۔ (الانبیاء 22)اﷲ کریم اپنی ذات کے ساتھ ساتھ صفات میں بھی یکتا
ہے،ارشاد باری ہے ''وہ اﷲ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ وہ چھپی اور
کھلی ہر بات کو جاننے والا ہے۔ وہی ہے جو سب پر مہر بان ہے، بہت رحم کرنے
والا ہے۔ وہ اﷲ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، جو بادشاہ ہے، تقدس کا
مالک ہے، سلامتی دینے والا ہے، امن بخشنے والا ہے، سب کا نگہبان ہے، بڑے
اقتدار والا ہے، خرابی کی اصلاح کرنے والا ہے، بڑائی کا مالک ہے۔ پاک ہے اﷲ
اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ وہ اﷲ ہی ہے جو پیدا کرنے والا ہے، وجود میں
لانے والا ہے، صورت بنانے والا ہے، اسی کے سب اچھے نام ہیں۔ آسمانوں اور
زمین میں جتنی چیزیں ہیں، وہ اس کی تسبیح کرتی ہیں، اور وہی ہے جو اقتدار
کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔ (الحشر۔22۔23۔24) حضرت جابر رضی اﷲ عنہ
سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺنے ارشاد فرمایاکہ دوچیزیں واجب کرنے والی ہیں، عرض
کیا ایک آدمی نے یارسول اﷲﷺ وہ کیا ہیں دوواجب کرنے والی چیزیں؟ ارشاد
فرمایاکہ جو شخص مرگیا حال یہ کہ شریک کرتا تھا اﷲ کے ساتھ کسی کو تو داخل
ہوگا وہ جہنم میں اور جو شخص مرگیا حال یہ کہ شریک نہیں کرتا تھا کسی کو اﷲ
کے ساتھ داخل ہوگا جنت میں (مسلم شریف)۔
حقیقت یہ ہے کہ اﷲ کریم کی وحدانیت کا یقین ہی انسان میں وہ عالی صفات کو
پیدا کرتا ہے جن کی وجہ سے اس میں اعلیٰ اخلاقی قدریں پروان چڑھتی ہیں ،اس
عقیدہ کے ذریعے خالق ومخلوق کے درمیان فرق ِمراتب کا شعور بیدار ہوتا ہے
،معاشرے میں پائی جانے والی روحانی بیماریوں جیسے توہم پرستی ،مایوسی اور
بدگمانی کا خاتمہ ہوتا ہے اورمحاسبہ ،سزا وجزا کایقین پیدا ہوکرانسانی
طبیعت توبہ اور استغفار کی طرف مائل ہو جاتی ہے،گویا عقیدہ توحید کے ذریعہ
اﷲ کی قدرت اورحاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے انسان اپنی زندگی آسمانی اصولوں
اور احکامات الہیہ کے مطابق گزارنے پر کمر بستہ ہو جاتا ہے بلاشبہ اسی میں
دارین کی فلاح بھی مضمر ہے۔ |