آپ کے مسائل اور ان کا شرعی حل (3)

سوال(1): میں گھر میں نماز پڑھتی رہتی ہوں تو کبھی کبھار بچی جائے نماز پر تو کبھی پیرپر پیشاب کردیتی ہے تو کیاایسی صورت میں نماز جاری رکھنا چاہئے؟
جواب : اگربچی کی نجاست(پیشاب یاپاخانہ) کپڑے یا بدن پر لگ جائے تونجاست والے حصے کو دھونا ضروری ہے تبھی نماز درست ہوگی ۔ دوران نماز کپڑے/بدن میں نجاست لگنے کا علم ہو یا بچی نماز کی حالت میں کپڑے یا بدن (پیروغیرہ) پر پیشاب کردے تو نماز توڑ دے اور نجاست کو دھلے پھر ازسرے نو نماز ادا کرے لیکن اگر جائے نمازپر نماز پڑھتے وقت پیشاب کردے تو نماز ہی میں اس نجاست والی جگہ سے ہٹ جائے اور نماز جاری رکھے ۔ یاد رہے اگر کوئی لاعلمی میں نجاست لگےکپڑے/بدن میں نماز پڑھ لے تو نماز صحیح ہے دہرانے کی ضرورت نہیں ہےاور یہ بھی یاد رہے کہ بچی کا بدن یا کپڑا پیشاب سے تر ہو اور نمازی کے کپڑے سے لگ جائے اس حال میں کہ کپڑے میں نجاست معلوم ہورہی ہے تو اس کا بھی حکم پیشاب کرنے کی طرح ہے جواوپر بیان کیا گیا ہے یعنی اگر اس حالت میں انجانے میں نماز پڑھ لی گئی تو نماز درست ہے اور دوران نمازنجاست معلوم ہوئی تو نماز توڑ کر نجاست زائل کرے ۔ نجاست لگے کپڑے کو نماز میں نکالنا ممکن ہو اس حال میں کہ نماز کے لئے ضروری ستر باقی رہے تو پھر نماز جاری رکھنی ہےتوڑنی نہیں ہےمگر یہ صورت عورت کے لئے مشکل ہے۔
سوال (2): صبح نیندکھلنے پر معلوم ہوا کہ بستر پر پیشاب ہوگیاہے تو کیا مجھے غسل کرکے نماز پڑھنی ہوگی؟
جواب: پیشاب کرنے سے غسل طہارت لازم نہیں آتا، اس صورت میں فقط پیشاب لگا ہوا کپڑا بدل لیں اور بدن کے جس حصے میں پیشاب لگا ہو اسے دھولیں ، اس کے بعد وضو کرکے نماز پڑھ سکتے ہیں۔
سوال(3) ایک عورت کو ہمیشہ سے شروع میں دو دن حیض آتا ہے پھر دو دن کے لئے بند ہوجاتا ہے اور اس کے بعد پھرچنددن آتا ہے تو جن دنوں میں حیض نہیں آیا ان دنوں میں غسل کرکے نماز پڑھ سکتی ہے ؟
جواب : اس مسئلہ میں اختلاف ہے مگر صحیح قول کی روشنی میں وہ دودن جن میں حیض کا خون نہیں آتا ہے عورت طہر (پاکی) نہیں شمار کرے گیبلکہ ان دنوں کو حیض کے دن شمار کرے گی اور نمازوروزہ سے پرہیز کرے گی۔
سوال(4): ایک شخص کے پیر کا پنجہ کاٹا گیا تو اس کٹے ہوئے حصہ کو قبرستان میں دفن کریں گے یا کہیں دور پھیک دیا جائے ؟
جواب : پیر کے کٹے حصے کو قبرستان میں یا کسی محترم جگہ میں دفن کرسکتے ہیں ، پھیکنا نہیں چاہئے ۔ اس پہ نماز جنازہ نہیں ہے۔
سوال(5): میں نے عالموں سے سنا ہے کہ کورٹ میریج نہیں ہوتا تو اس پر طلاق کیوں دی جاتی ہے اور عدت کا سوال کیوں پیدا ہوتا ہے؟
جواب : اگر نکاح کے ارکان وواجبات کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت کے ذریعہ نکاح کیا جائے تو یہ نکاح صحیح ہے جیساکہ سعودی عرب میں ہوتا ہے لیکن ہندوپاک میں عموما عدالتی نکاح بغیر ولی کے ہوتا ہے ،اور بھی کئی خامیاں ہیں اس وجہ سےیہ نکاح نہیں ہے ۔ اس طرح کوئی نکاح کرلے تو نکاح ہی نہیں ہوا اس پہ طلاق دینے یا عدت گزارنے کا کوئی مسئلہ نہیں ہے تاہم لڑکا اور لڑکی عدالتی نکاح کو نکاح سمجھ کر اکٹھے رہ رہے ہوں تو اکٹھے رہنے کی وجہ سے محکمہ یا پنچایت کے ذریعہ ان کا نکاح فسخ کیا جائے گا ، طلاق دینے کا سوال پیدا نہیں ہوتا کیونکہ یہ نکاح ہی نہیں ہے البتہ فسخ نکاح پہ عدت اس لئے گزارنی ہے تاکہ استبراء رحم پہ اطمینان ہوجائے ۔ ٹھیک اسی طرح جب میاں بیوی کافر ہوں ، بیوی اسلام قبول کرلے تو نکاح فسخ ہوجاتا ہے اور وہ مطلقہ کی طرح احتیاطا عدت گزارتی ہے۔
سوال(6): ایک لڑکا نے ایک اجنبی لڑکی سے زنا کیا اور حمل ٹھہر گیا ، اسی حمل کی حالت میں گھروالوں نے اس لڑکی کی شادی کسی مرد سے کردی تو اس لڑکی نےحمل کا واسطہ دے کر پہلے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا ، شوہر نے طلاق دیدی اب اس حاملہ لڑکی کی دوسری شادی زانی مرد سے کردی گئی کیا یہ صحیح ہے؟
جواب : دونوں شادی باطل ہے ، پہلی اس لئے باطل ہے کہ حالت حمل میں شادی ہوئی اور حمل میں شادی جائز نہیں ہے اور دوسری شادی اس لئے باطل ہے کہ زانی کا زانیہ سے نکاح نہیں ہوتا بلکہ پاکدامن عورت کا پاک مرد سے شادی ہوتی ہے۔ دونوں شادی میں حمل اور زنا مشترک ہے یعنی عورت حاملہ اورزانیہ ہے اس سے پاک مرد بھی شادی نہیں کرسکتا ہے تو زانی مرد سے کیسے نکاح ہوگا؟ گویا دونوں نکاح باطل ہیں ۔ عورت سچی توبہ کرلے تو وضع حمل کے بعد پاک مرد سے نکاح کرسکتی ہے۔
سوال(7): ایک شخص کو حد سے زیادہ کھانسی آتی ہے قے کی نوبت آجاتی ہے کیا وہ شخص دوران نماز سکون ملنے والی چیز مثلالونگ یا ادرک وغیرہ منہ میں رکھ کر نماز پڑھ سکتا ہے ؟
جواب : کھاناپینا نماز کے منافی اوراس کے مبطلات میں سے ہے لہذا کوئی نماز کے دوران کچھ بھی نہیں کھا پی سکتا ہے لونگ وادرک بھی نہیں ۔ اگر کسیکو تکلیف دہ حد تک کھانسی آرہی ہوجیساکہ سوال میں ذکرکیا گیا ہےکہ قے کی نوبت آجاتی ہے توایسی صورت میں سکون آنے تک نماز میں وہ تاخیر کرسکتا ہے ، نماز میں ہی موذی کھانسی آنے لگے تو نمازبھی توڑ سکتا ہے حتی کہ اس کی کھانسی اپنے سوا دوسرے نمازی کے لئے تکلیف کا سبب ہوتو تکلیف زائل ہونے تک گھر پہ ہی نماز پڑھ سکتا ہے۔
سوال(8): وہ کون سے صحابی ہیں جنہوں نے بھیڑ ئےسے بات کی ؟
جواب : بھیڑئے سے بات کرنے والی حدیث صحیح بخاری ،صحیح مسلم اور جامع ترمذی وغیرہ میں موجود ہے مگربات کرنے والے کی صراحتموجود نہیں ہے ۔ ترمذی کی روایت دیکھیں؛
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بَيْنَمَا رَجُلٌ يَرْعَى غَنَمًا لَهُ إِذْ جَاءَ ذِئْبٌ فَأَخَذَ شَاةً فَجَاءَ صَاحِبُهَا فَانْتَزَعَهَا مِنْهُ فَقَالَ الذِّئْبُ كَيْفَ تَصْنَعُ بِهَا يَوْمَ السَّبُعِ يَوْمَ لَا رَاعِيَ لَهَا غَيْرِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَآمَنْتُ بِذَلِكَ أَنَا وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ قَالَ أَبُو سَلَمَةَ وَمَا هُمَا فِي الْقَوْمِ يَوْمَئِذٍ .(صحيح الترمذي: 3696)
ترجمہ: ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا:' اس دوران کہ ایک شخص اپنی بکریاں چرارہا تھا، ایک بھیڑیا آیا اور ایک بکری پکڑکرلے گیا تو اس کا مالک آیا اور اس نے اس سے بکری کو چھین لیا، تو بھیڑیا بولا : درندوں والے دن میں جس دن میرے علاوہ ان کا کوئی اور چرواہا نہیں ہوگا توکیسے کرے گا؟ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:' میں نے اس پر یقین کیا اور ابوبکر نے اور عمر ؓ نے بھی'، ابوسلمہ کہتے ہیں: حالاں کہ وہ دونوں اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔
الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی سیرت کے تحت یہ بھی مذکور ہے کہ انہوں نے ہی بھیڑئے سے بات چیت کی ۔
سوال(9): کچھ ٹراولس ایجنسی والے لوگوں سے چھ ماہ قبل کچھ ہزارروپئے لیتے ہیں اس سے تجارت کرتے ہیں اور اس کے منافع سے عمرہ کراتے ہیں، کیا یہ صورت جائز ہے؟
جواب : ٹراولس ایجنسی سفر کی سہولیات فراہم کرنےکے لئے قائم کی جاتی ہے ، اگر اس ایجنسی سے کوئی عمرہ کا ٹکٹ یا پیکج خریدتا ہے تو اس شخص کا ایجنسی سے عمرہ کے لئے معاملہ طے ہوتا ہے ۔ اب اگر ٹراولس والے اس کاپیسہ دوسری تجارت میں لگاکر کاروبار کرے اور اس کے منافع سے سستے میں عمرہ کرائے توجائز نہیں ہے۔ اس کی چند وجوہات ہیں ۔ ایجنسی سے جومعاملہ ہوا ہے اس میں دوسرا تجارتی معاملہ داخل کیا جارہاہے، کسی کی رقم کو اس معاملہ میں لگایا جارہاہے جس پہ معاملہ نہیں ہواہے، اسلامی تجارت میں مشارکت نفع ونقصان کی بنیاد پر ہوگی مگر یہاں ایجنسی والا ہرحال میں منافع دے رہا ہے جوکہ جائزنہیں ہے۔
سوال (10): ابلیس کا اصلی نام کیا ہے ؟
جواب : ابلیس کے اصلی اسم سے متعلق کوئی مرفوع روایت نہیں ہے البتہ آثارمیں نافرمانی سے قبل عزازیل نام مذکور ہے ۔ بیہقی میں یہ اثر ہے۔
عن ابن عباس رضي الله عنهما قال كان اسم إبليس عزازيل وكان من أشراف الملائكة من ذوي الأربعة الأجنحة ثم أبلس بعد(رواہ البيهقي في شعب الإيمان1/ 170)۔
ترجمہ: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ابلیس کا نام عزازیل تھا ، یہ چارپروں والے اشرف فرشتوں میں سے تھا ، پھر بعد میں ابلیس ہوگیا۔
اس کی سند صحیح ہے اورابن عباس کے اثر کو حافظ ابن کثیر نے بھی اپنی تفسیر میں ذکر کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں کہا ہے کہ طبرانی اور ابن ابی الدنیا میں ابن عباس سے مروی ہے کہ ابلیس جب ملائکہ کے ساتھ تھا تب عزازیل نام تھا پھر ابلیس ہوگیا۔
جہاں تک بیہقی کے اثر میں اشرف الملائکہ ہونے کا ذکر ہے تو علامہ ابن کثیر نے ابن عباس کے حوالے سے سورہ بقرہ آیت نمرچونتیس اور سورہ کہف آیت نمبرپچاس میں ابن عباس کے واسطہ سے ذکر کیا ہے : "إن من الملائكة قبيلة من الجن ، وكان إبليس منها" کہ ملائکہ میں جنوں کا ایک قبیلہ ہے، اسی قبیلہ میں سے ابلیس تھا گویا ابلیس فرشتوں میں سے نہیں ہے بلکہ جنات میں سے ہے۔
 

Maqbool Ahmed
About the Author: Maqbool Ahmed Read More Articles by Maqbool Ahmed: 320 Articles with 350328 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.