امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ چودہویں صدی ہجری
کے مجدد ، مفتی اور فقیہ تھے۔ آپ علیہ الرحمہ اپنے وقت کے بہترین مصنف اور
محقق بھی تھے۔ آپ قرآن ، حدیث اور فقہ سمیت پچاس سے زیادہ قدیم اور جدید
علوم میں کامل مہارت رکھتے تھے۔ سائنس، جغرافیہ، ریاضی ، علم توقیت، علم
المیراث، منطق، بلاغت اور فلسفہ وغیرہ میں بھی آپ نے کئی ایک کتب تصنیف کیں۔
آپ کی تصانیف و تالیفات سے آج بھی امت مسلمہ استفادہ کررہی ہے۔ آپ نے اپنے
زمانے میں دینی علوم کی ترویج کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں رائج امور بدعات و
خرافات کا بھی بھر پور استحصال اور رد کیا اور انہیں بدعات و خرافات سے دور
رہنے کا حکم دیا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر زمانے میں
لادینی قوتوں نے اسلام اور اسلامی شخصیات کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ
سے جانے نہیں دیا۔ یہی کچھ امام اہلسنت اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے ساتھ بھی
ہوا کہ کچھ لوگوں نے جان بوجھ کر یا نادانی میں امور بدعات و خرافات کو
فاضل بریلوی قدس سرۂ کی جانب منسوب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ حالانکہ
اگر ان کی کتب کا مطالعہ کیاجائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انہوں نے کسی
نئے دین یا فرقے کی بنیاد نہیں رکھی بلکہ انہوں نے پوری زندگی قرآن و سنت
کی تعلیمات کو عام کرنے کی کوششیں کی ہیں۔
بد قسمتی سے آج مزاراتِ اولیاء پر خرافات، منکرات ،چرس و بھنگ ،ڈھول تماشے
،ناچ گانے اور رقص و سرور کی محافلیں سجائی جاتی ہیں ، بعض لوگ ان خرافات
کو امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے کھاتے میں
ڈالتے ہیں جوکہ بہت سخت قسم کی خیانت ہے۔اسی طرح آج کل کچھ لوگ عقیدت میں
آکر مزارات کو سجدہ کرتے ہیں اور اسلام کے اصول سے بے خبر ہیں کہ ہماری
شریعت نے غیر اﷲ کے لیے سجدۂ عبادت کو کفر و شرک اور سجدۂ تعظیمی کو حرام
قرار دیا ہے۔ اس سلسلہ میں امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے’’ الزبدۃ الزکیۃ
لتحریم سجود التحیۃ ‘‘ کے نام سے ایک مبسوط رسالہ لکھا جس میں متعدد قرآنی
آیات ، چالیس احادیث مقدسہ اور تقریباً ڈیڑھ سو نصوص فقہیہ سے یہ ثابت کیا
کہ عبادت کی نیت سے غیر اﷲ کو سجدہ کرنا شرک و کفر ہے اور تعظیم کی نیت سے
حرام ہے۔ اس کی دلیل میں آپ یہ حدیث بھی نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت
سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو سجدہ کرنا
چاہا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مخلوق کو جائز نہیں کہ وہ کسی
کو سجدہ کرے ماسوائے اﷲ تعالیٰ کے۔ (مدارک التنزیل) سجدۂ تعظیمی کی حرمت پر
اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: ’’ غیر خدا کو سجدہ ٔ عبادت شرک ہے سجدۂ تعظیمی شرک
نہیں مگر حرام اور گناہ کبیرہ ہے ۔ متواتر حدیثیں اور متواتر نصوص فقہیہ سے
اس کی حرمت ثابت ہے۔ ہم نے اپنے فتاوٰی میں اس کی تحریم پر چالیس حدیثیں
روایت کیں اور نصوص فقہیہ کی گنتی نہیں، فتاوٰی عزیزیہ میں ہے کہ اس کی
حرمت پر اجماع امت ہے۔ ‘‘ (فتاویٰ رضویہ:۲۲؍۵۶۵) اسی طرح کچھ لوگ جہالت اور
نادانی کی وجہ سے بڑے بڑے عظیم علماء کے آگے زمین کو بوسہ دیتے ہیں تو اس
سلسلے میں اعلیٰ حضرت نے فرمایا: یہ فعل حرام ہے لہذا یہ فعل کرنے والا اور
اس سے خوش ہونے والا(دونوں)گنہگار ہیں ، اس لیے کہ یہ کام بت کی عبادت سے
مشابہت رکھتاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کرنے والا کافر ہوجائے گا
یانہیں؟ اگر اس نے یہ کام بطور عبادت کیا اور اس کی تعظیم کی تو بلا شبہہ
کافر ہوگیا۔ اور اگر تعظیم و بزرگی کی خاطر ایسا کیا تو کافرنہ ہوا لیکن
پھر بھی گنہگارہوا۔ گناہ ِکبیرہ بجالانے والا ہوا۔ ( فتاویٰ رضویہ: ۲۲؍۴۱۲)
آج کل اولیاء اﷲ اور بزرگوں کے مزارات پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ عقیدت میں
مزارکو بوسہ دیتے ہیں اور بعض لوگ جہالت کی انتہا کردیتے ہیں کہ مزار کا
طواف شروع کردیتے ہیں۔ وہ اپنی اندھی عقیدت میں سب کچھ کر گزرتے ہیں جس کی
شریعت نے قطعی اجازت نہیں دی۔ آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: مزار کا طواف کہ
محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص بخانہ کعبہ ہے۔
مزار کوبوسہ دینا نہ چاہئے ، علماء اس میں مختلف ہیں۔ اور بہتر بچنا ، او ر
اسی میں ادب زیادہ ہے ۔ ( فتاویٰ رضویہ: ۹؍ ۵۲۸)ایک اور مقام پر آپ فرماتے
ہیں: بلاشبہ غیر کعبہ معظمہ کا طواف تعظیمی ناجائز ہے۔ اور غیر خدا کو سجدہ
ہماری شریعت میں حرام ہے۔ اور بوسہ قبر میں علماء کو اختلاف ہے۔ اور احوط
منع ہے۔ خصوصا ًمزارات طیبہ اولیاء کرام کہ ہمارے علماء نے تصریح فرمائی کہ
کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے سے کھڑا ہویہی ادب ہے پھر تقبیل کیونکر متصور
ہے۔ (فتاویٰ رضویہ: ۲۲؍ ۳۸۲)اسی طرح روضۂ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق
امام احمد رضا علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: روضہ انور کا طواف نہ کرو ، نہ سجدہ
کرو ، نہ اتنا جھکو کہ رکوع کے برابر ہو۔ حضور کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی
تعظیم ان کی اطاعت میں ہے۔( فتاویٰ رضویہ: ۱۰؍ ۷۶۹)امام اہلسنت امام احمد
رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ سے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت
کیا گیا تو جواب دیا جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ
بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف
کریں اﷲتعالیٰ کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کے لیے محتاج کو دیں (احکام
شریعت : حصہ اول ص۷۲)
اسی طرح بعض لوگ مزارات پر جاکر بزرگوں کی قبروں کے سامنے نماز شروع کردیتے
ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ قبروں کے سامنے نماز پڑھنا جائز ہے۔ ان کے اس
قبیح فعل کو بعض حضرات اعلیٰ حضرت کی طرف منسوب کردیتے ہیں کہ یہ فاضل
بریلوی کی تعلیمات کا حصہ ہیں اور انہوں نے اپنی تحریروں میں اس کی اجازت
دی ہے۔ لیکن اگر فاضل بریلوی کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات چڑھتے
سورج سے بھی زیادہ روشن ہوتی ہے کہ انہوں نے اپنے فتاویٰ یا ملفوظات میں
کہیں بھی اس امر کے جواز کا قول تحریر نہیں کیا۔ اس امر کے حرام ہونے کے
سلسلے میں آپ احادیث سے استفادہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ابومرثد غنوی رضی اﷲ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قبروں کی
طرف نماز نہ پڑھونہ ان پر بیٹھو۔(مسلم وترمذی بحوالہ فتاویٰ رضویہ : ۲۲؍
۴۵۱۔ ۴۵۲)
بزرگوں سے اظہار عقیدت کا ایک طریقہ بعض لوگوں نے یہ بھی ایجاد کیا کہ ان
کے فرضی مزارات بنانا شروع کرکے ان کی تعظیم شروع کردی ۔ اعلیٰ حضرت نے
اپنے زمانے میں اس پر خوب تنقید و تنکیر فرمائی۔ آپ سے سوال ہوا کہ کسی ولی
اﷲکا مزار شریف فرضی بنانا اور اس پر چادر وغیرہ چڑھانا اوراس پر فاتحہ
پڑھنا اور اصل مزار کا سا ادب ولحاظ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر کوئی
مرشد اپنے مریدوں کو فرضی مزار بنانے کی خواب میں اجازت دے تو وہ قول مقبول
ہوگا یا نہیں؟اس کے جواب میں آپ نے فرمایا: فرضی مزار بنانا او راس کے ساتھ
اصل سا معاملہ کرناناجائز وبدعت ہے اور خواب کی بات خلافِ شرع امور میں
مسموع نہیں ہوسکتی۔( فتاویٰ رضویہ: ۹؍ ۴۲۵)
اسی طرح قبروں پر چراغ اور اگر بتی جلانا ایک معمول بن گیا ہے۔ لوگوں میں
یہ رواج بہت عا م ہوگیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس امر کو مردے کے لیے باعثِ
تسکین سمجھا ہوا ہے۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ قبروں کی طرف
شمع لے جانا بدعت اور مال کا ضائع کرنا ہے۔ عود ، لوبان وغیرہ کوئی چیز نفس
قبر پر رکھ کر جلانے سے احتراز کرنا چاہیے کیونکہ یہ مال کا ضیاع ہے۔ اعلیٰ
حضرت اس امر کی دلیل میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے قبروں پر
جانے والی عورتوں اور قبروں پر مسجدیں بنانے والوں اور چراغ رکھنے والوں پر
لعنت فرمائی ۔ (ترمذی) ۔ اس حدیث کی تشریح میں آپ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
یہ لعنت ان لوگوں پر ہے جو بغیر کسی فائدہ کے قبروں پر چراغ جلاتے ہیں ورنہ
اگر کوئی قبر کے پاس چراغ اس لیے روشن کرے کہ وہاں آنے جانے والوں کے لیے
روشنی ہویا کوئی وہاں بیٹھ کر قرآن مجید کی تلاوت کرنا چاہے تو ایسی صورت
میں منع نہیں ہے۔ لیکن احتیاط اس میں بھی یہ ہے کہ چراغ یا شمع کو قبر کے
اوپر نہ رکھا جائے بلکہ قبر سے تھوڑا دور رکھا جائے۔ (فتاویٰ رضویہ: ۹؍
۴۹۱)
اسی طرح ہمارے زمانے میں کم علمی اور جہالت کی بناء پر خواتین اولیاء اﷲ
اور بزرگانِ دین کے مزارات پر جاتی ہیں۔ بعض حضرات نے اس بات کو بھی اعلیٰ
حضرت سے منسوب کردیا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو مزارات پر جانے کی اجازت دی
ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب آپ سے خواتین کے مزارات پر جانے کے متعلق سوال
کیا گیا تو آپ نے اس سے منع فرمایااور سخت تنکیر فرمائی ۔ اس سلسلے میں آپ
اپنے ملفوظات میں صاحب غنیہ کا قول نقل کرتے ہیں: یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا
مزارات پرجانا جائز ہے یا نہیں بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت
ہوتی ہے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اور کس قدر صاحبِ قبر کی جانب سے۔ جس وقت وہ
گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہوجاتی ہے۔ اور جب تک وہ واپس آتی ہے
ملائکہ لعنت کرتے ہیں۔ (غنیۃ المتملی بحوالہ ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت : ص ۳۱۵)
اسی طرح اندھی عقیدت کی بناء پر اکثر بے پردہ خواتین کا پیروں ، فقیروں اور
بزرگوں کے پاس رش لگارہتا ہے۔ وہ اپنے معمولی معمولی سے مسائل ان سے حل
کروانے کے لیے چلی جاتی ہیں۔ اعلیٰ حضرت نے اس پر سخت تنقید کرتے ہوئے
فرمایااگر کوئی عالمِ شریعت اور واقفِ طریقت بھی ہو تو پھر بھی اس کے پاس
خواتین کا بے پردہ ہوکر جانا جائز نہیں ہے۔ اس سلسلے میں آپ نے مزید وضاحت
فرمائی کہ پردہ کے باب میں پیرو غیر پیر ہر اجنبی کا حکم یکساں ہے جوا ن
عورت کو چہرہ کھول کر بھی سامنے آنا منع ہے ۔ ( فتاویٰ رضویہ: ۲۲؍ ۲۰۵) آ
گے فرماتے ہیں: جن اعضاء کا چھپانا فرض ہے ان میں سے کچھ کھلا ہو جیسے سر
کے بالوں کا کچھ حصہ یاگلے یا کلائی یا پیٹ یا پنڈلی کا کوئی جز تو اس
طورپر تو عورت کو غیر محرم کے سامنے جانا مطلقا ًحرام ہے خواہ وہ پیر ہو یا
عالم ۔ ( فتاویٰ رضویہ: ۲۲؍ ۲۳۹۔ ۲۴۰) آپ علیہ الرحمہ کی تعلیمات کی روشنی
میں روز روشن کی طرح واضح ہوتا ہے کہ خواتین کا بے پردہ ہوکر پیروں ،
فقیروں ، ملنگوں یہاں تک کہ رہبر شریعت و طریقت کے پاس جانا بھی جائز نہیں
ہے۔
بعض لوگ وظائف میں قرنی آیات اور سورتوں کو معکوس (یعنی الٹا) پڑھتے ہیں ،
اس سلسلے میں آپ سے سوال کیا گیا تو آپ نے اس امر کے حرام ہونے کے متعلق
فرمایاکہ یہ حرام ہے اور اشد حرام ، کبیرہ اور سخت کبیرہ قریب کفر ہے۔ یہ
تو درکنار سورتوں کی صرف ترتیب بدل کر پڑھنا اس کی نسبت تو عبد اﷲ بن مسعود
رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: کیا ایسا کرنے والا ڈرتا نہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس کے
قلب کو الٹ دے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ، ص ۳۵۴)
الغرض بعض مذہبی طبقوں کی جانب سے یہ مشہور کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں جو
بدعات و خرافات رائج ہیں ‘ وہ امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ
کی تعلیمات ہیں۔ درحقیقت یہ سراسر بددیانتی اور جھوٹ ہے۔ تعصب کی عینک
اتارکر حقیقت کی نظروں سے دیکھاجائے تو واضح ہوجائے گا کہ امام اہلسنت اس
طرح کی خرافات اور بدعات کا بھر پور رد بلیغ فرمایاکرتے تھے۔ آپ کی کوششیں
اسلام میں نت نئی بدعات ایجاد کرنے کے بجائے ان کو ختم کرنے کے لیے ہوتی
تھیں ۔ لیکن آج اُ ن کے اور اُن کے عقیدت مندوں کے متعلق بدگمانی کی جاتی
ہے کہ انہوں نے ایک نئے فرقے کی بنیاد رکھی۔ ان بد گمانیوں کی وجہ سے آج
امت مسلمہ فرقوں در فرقوں میں بٹتی جارہی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بے
بنیاد الزام تراشی سے پہلے ان کی تعلیمات کا جائزہ لیا جائے اور بدگمانیوں
کو دو رکیاجائے۔ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ امت مسلمہ میں افتراق و انتشار
کے بجائے اتفاق و اتحاد پیدا کیاجائے ۔
|